عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے جب کبھی سندھ کی طرف آنا ہوتا ہے تو میں اپنا معمول کچھ اس طرح سے بناتا ہوں کہ صبح سویرے اٹھ کر نیوز ایجنسی کا رخ کرتا ہوں-
کراچی صدر میں کسی ہوٹل میں قیام کرتا ہوں تو ساتھ ہی ریگل چوک کا رخ کرتا ہوں (یہاں صبح سویرے کا مطلب 11 سے 12 بجے کے درمیان کا وقت ہوتا ہے) اور وہاں سے دو سندھی زبان میں چھپنے والے اور دو انگریزی زبان کے اخبارات خرید کرتا ہوں – حیدر آباد میں میں اگر اسٹیشن روڈ پر اپنے ماموں کے گھر ٹھہروں تو پڑوس میں بنی اخبار مارکیٹ چلا جاتا ہوں اور اگر پرانا ھیرا آباد ٹھہروں تو سامنے سڑک پر لگے نیوز اسٹال کی طرف بھاگتا ہوں اور وہاں سے عوامی مسافر خانے کے ساتھ بنے اپنے ماموں ( اللہ انھیں غریق رحمت کرے) کے ہوٹل پر چلا جاتا ہوں اور وہاں بیٹھ کر اخبار بینی کرتا ہوں – آن لائن سہولت سے قبل تو حیدر آباد، میر پور خاص ، بدین اور کراچی میں صبح صبح نیوز اسٹال پر بہت رش ہوتا تھا اور ہوٹلوں پر بھی اخبار بینی کرنے والوں کا رش ہوتا تھا- اب ایسے باقاعدہ سے اخبار بینی کے رسیا بہت کم نظر آتے ہیں –
جب سے ای پیپر کی سہولت میسر آئی تب سے سندھی اخبارات میں سندھ ایکسپریس، عوامی آواز، کاوش اور روزانی سندھ باقاعدگی سے پڑھتا آرہا ہوں-
سندھی پریس کے انتہائی متحرک ہونے کا احساس مجھے زمانہ طالب علمی سے ہے جب میں سندھی اخبار کی چیدہ چیدہ خبروں اور کالموں کا خلاصہ اپنے آنجہانی ماموں سے کرایا کرتا تھا جن کے گھر گرمیوں کی چھٹیوں میں کبھی کبھار ہمیں جانے کا موقعہ میسر آجاتا – پھر مجھے سندھی حروف ابجد اور اصوات کی تھوڑی تھوڑی شد بد ہونے لگی تو میں خود بھی ان اخبارات کو پڑھنے کی کوشش میں لگا رہا اور اب یہ شد بد کافی بڑھ گئی ہے اور میں اب کافی حد تک سندھی بولنے والے کا ما فی الضمیر سمجھ لیتا ہوں –
میں نومبر کے تیسرے ہفتے اور دسمبر کے آخری ہفتے میں سندھ آیا تو میرا نواب شاہ، سکرنڈ، میر پور خاص، حیدر آباد اور کراچی جانا ہوا- اس دوران میں نے سندھی پریس کو کافی پڑھا اور جانچا – اس پڑھائی اور جانچ نے میرے سامنے یہ عقدہ کھولا کہ سندھی پریس میں انسانی حقوق، ماحولیات ، ثقافت، زراعت ،تعلیم اور صحت پر جو ریاستی اور غیر ریاستی حملے ہیں اس پر بہت کھل کر اور بے باکی سے لکھا جارہا ہے- اور ہر ایشو پر مسلسل فالو اپ دینے کا رجحان کافی طاقتور ہے – یہ رجحان اردو اخبارات میں تو بالکل بھی نہیں ہے جبکہ انگریزی اخبارات میں تشنگی کا احساس برقرار رہتا ہے –
ان دنوں سندھی پریس کارونجھر جھیل کے ایشو پر بہت تفصیل سے رپورٹنگ کررہا ہے جبکہ "مارچ برخلاف بلوچ نسل کشی ” کے ایشو کو بھی مسلسل صفحہ اول پر جگہ دی جارہی ہے –
سندھی پریس اور سندھ کے سماجی و سیاسی کارکنان ترقی کے نام پر جنگلات، پہاڑوں، صحرا، دریاؤں، نہروں ، سمندر ، زراعت کی تباہی کے خلاف بہت موثر مہم چلائے ہوئے ہیں- وہ اس تباہی کے پس پردہ قوتوں کو بے نقاب کرنے میں کسی مصلحت کو آڑے آنے نہیں دے رہے اور نہ ہی وہ اس بات کو آڑے آنے دیتے ہیں کہ "نامور” سیاسی جماعتیں ان ایشوز پر خاموش ہیں یا ان جماعتوں میں اس تباہی کے سہولتکار موجود ہیں –
میں نے "بلوچ یک جہتی کمیٹی” کے مارچ پر سندھی پریس کی رپورٹنگ میں کوئی منفی عنصر نہیں دیکھا اور نہ ہی معذرت خواہانہ ڈسکورس پایا-
آج بھی روزنامہ عوامی آواز نے اپنے صفحہ اول پر ہاف کوارٹر میں اوپر بلوچ یک جہتی کمیٹی کو جگہ دے رکھی ہے – اخبار کی پیشانی کے ساتھ بائیں طرف تین کالمی ( کالم یہاں اردو اخبارات کے کالم سے قدرے بڑا ہے، اس اعتبار سے یہ چار کالمی ہے) خبر چودہ سال سے جبری گمشدہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بڑی بیٹی سمی دین محمد بلوچ کے انٹرویو پر مشتمل ہے جس کی چھے ذیلی سرخیاں ہیں – اس کے نیچے دو کالمی دو خبریں اور پھر سنگل کالمی ایک خبر ہے –
آج صفحہ اول کے دائیں طرف نیچے ھاف کوارٹر پر جھیل کارونجھر کے ایشو پر فالو اپ ہے جبکہ آج اوپر ہاف کوارٹر پر جہاں بلوچ مارچ کی کوریج ہے کل وہاں کارونجھر جھیل بارے خبریں تھیں –
تمام سندھی اخبارات نے آج سپر لیڈ آصف علی زرداری کی تقریر سے اسلام آباد بارے کہے گئے جملوں سے لیکر نکالی ہے جبکہ انگریزی اور اردو پریس نے ” بلاول بھٹو نے گڑھی خدا بخش میں انتخابی منشور کا اعلان کردیا” کی لیڈ دی ہے – یہ امتیاز بھی سندھی اور ہمارے نام نہاد مین سٹریم پریس کے ڈسکورس میں فرق کو ظاہر کرتا ہے-
پاکستان کی تعلیم یافتہ شہری مڈل کلاس کی وہ پرتیں خاص طور پر جن کا تعلق اردو اور پنجابی بولنے والی برادریوں سے ہے جو سندھیوں کو جاہل، غلام ، آزاد سیاسی سوچ سے بے بہرہ قرار دیتے نہیں تھکتے ،ان کی سوچ اور ذہنیت کے دیوالیہ پن کو سندھی پریس کے ڈسکورس سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے- اس میں ، میں ان لوگوں کو ہرگز شامل نہیں کرتا جو سندھی،بلوچ، پشتون ، سرائیکی انٹیلیجنسٹیا کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور سندھی عوامی حسیت کو اچھے سے سمجھتے ہیں-
سندھی پریس کے ڈسکورس سے سرائیکی وسیب کی صحافت سے وابستہ ان نوجوان عامل صحافیوں کے لیے سیکھنے کے کئی پہلو ہیں جو سرائیکی وسیب میں وسیب کو درپیش چیلنجز، مسائل اور مصائب کو تحقیقاتی رپورٹنگ، تجزیوں کا مرکز توجہ بنانا چاہتے ہیں-
روزنامہ بیٹھک ملتان، روزنامہ قوم ملتان میرے نزدیک سرائیکی وسیب کے دو ایسے اخبارات ہیں جن کی رپورٹنگ میں سرائیکی وسیب پر تحقیقاتی رپورٹنگ کا رجحان واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے – سویل ویب سائٹ بھی اسی راستے پر چل رہی ہے – اگرچہ ان تین نوزائیدہ اداروں کے پاس ابھی تک وسائل اور انوسٹی گیٹو جرنلزم کی روح کے ساتھ جڑے نوجوان صحافیوں کی شدید کمی ہے جس کے سبب یہ سرائیکی وسیب کے وسائل، افراد کی تباہی کی ایک جامع تصویر پیش کرنے سے تاحال قاصر ہیں-
آج سرائیکی وسیب کی زراعت، جنگلات، صحرا جس میں سب سے زیادہ چولستان ہے جس خطرے سے دوچار ہے اس پر سرائیکی حسیت کی اجتماعی تصویر ابھی تک سرائیکی وسیب کا پریس پیش کرنے سے قاصر ہے –
سرائیکی وسیب میں ایسے بیدار مغز نوجوانوں کی کمی نہیں ہے جن کی حسیت کسی بھی طرح سے سندھی نوجوانوں کی حسیت سے کم نہیں ہے اور اس کی ایک شکل ہم اس خطے سے تعلق رکھنے والی درجنوں سوشل آئی ڈیز کے وزٹ سے کرسکتے ہیں – یہ نوجوان ایک متحرک سرائیکی پریس کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور یہ کب تشکیل پائے گا سردست میں کچھ کہہ نہیں سکتا –
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر