رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو‘ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ کبھی میدان چھوڑ کر بھاگنا نہیں چاہیے ۔ کچھ بھی ہو جائے‘ جو بھی مصائب درپیش ہوں‘ مخالفین بے شک مشکلات کا پہاڑ راستے میں کیوں نہ کھڑا کردیں۔ بے شمار لوگوں کوگھبراتے دیکھا ہے‘ انہوں نے ثابت قدم ہو کر مقابلہ کرنے کی بجائے گریز کی پالیسی اپنائی لیکن اس پر ہمارا کوئی اعتراض نہیں بنتا کہ ہر شخص اور گروہ اپنے طور پر بہتر جانتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ ہم تو صرف روز مرہ کی زندگی میں انسانوں کے رویوں کی بات کر رہے ہیں۔ یقین جانیں‘ ہمارے جن ہم کاروں اور دوستوں نے صبر سے کام لیا‘ وہ آخر میں کامیاب اور سرخرو ہوئے۔ سرکاری شعبوں میں اگر آپ نے کام کیا ہے یا کسی ادارے سے وابستہ رہے ہیں‘ آپ خوش قسمت ہوں گے اگر آپ کو ایذا رساں‘ متنفر‘ حاسد اور بغض پالنے والوں سے پالا نہیں پڑا۔ ہمارے معاشرے کا بگاڑ بہت پرانا ہے کہ ہم آزاد تو ہیں مگر اپنی ریاست کو قانون اور انصاف کے اصولوں سے چلانے کا ڈھنگ ہم نے نہیں سیکھا۔ جن کے پاس اقتدار تھا‘ سیاسی ہوں یا غیرسیاسی‘ معاشرے کو سنوارنے کے یہ دو ابدی اور عالمگیر اصول ان کی سیاست اور طرزِ حکمرانی کا حصہ نہ تھے۔ کسی معاشرے کی تباہی کا آغاز اوپر سے ہوتا ہے‘ نیچے سے ہر گز نہیں مگر اثرات کا پھیلاؤ ہر سمت شروع ہو جاتا ہے۔ ہم نے کئی اداروں میں طویل عرصے تک کام کیا ہے۔ باہر بھی عام لوگوں سے ملنے جلنے کے علاوہ سماجی حالات سے کسی حد تو واقف ہیں۔ احترامِ آدمیت اور انسانیت بہت کم ہی نظر آتا ہے۔ جن کے پاس خصوصاً سرکاری اختیارات ہیں اور خدمات اور انتظامیہ کے شعبوں سے تعلق ہے‘ ان کا رویہ عوام کے ساتھ دیکھ کر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم آزاد نہیں ہو سکے۔ صرف حکمرانوں کے رنگ بدلے ہیں‘ ڈھنگ وہی ہیں بلکہ لوٹ مار کے ساتھ رعونت اور کمزور طبقات کے ساتھ ظالمانہ سلوک تو نوآبادیاتی نظام سے بھی کئی درجے زیادہ ہے۔ ایسے حالات میں زندگی مسلسل جدوجہد میں رہتی ہے جو وطنِ عزیز میں ہم دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ سب لوگ تو میدان میں رہ کر مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ ناانصافیوں کے سامنے سرنگوں ہو کر غلامی کی زنجیریں پہننے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے تو ہمارے قابل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ اور موجوددہ حالات میں کسی کو یہاں رہ کر جدوجہد کرنے کا درس اب نہیں دے سکتے بلکہ کوئی مشورہ مانگے تو ہم جھٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ جلدی کرو‘ کہیں دیر نہ ہو جائے۔ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں کتنے لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ چکے ہیں اور کتنے لاکھ مزید لائنوں میں لگے ہیں۔
اب تو کسی بھی نوجوان کو دل میں خوش فہمی نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ ملک صرف اور صرف حکمران طبقات کے لیے ہے۔ عام لوگ صرف ان کی خدمت اور حکم بجا لانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ حکمرانی موروثی سیاستدانوں کا حق ہے جو گزشتہ نصف صدی سے اس ملک کی سیاسی طاقت اور معیشت پر قابض ہیں اور اب تو اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ کوئی ادارہ نہ اُن کا احتساب کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی کے پاس اب اختیار رہ گیا ہے کہ سوال کر سکے کہ زر و دولت کے انبار ملک کے اندر اور باہر کیسے بنے۔ بات دراصل یہ ہے کہ حکمران طبقات کا دائرہ اتنا وسیع ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ برادری اتنی بڑھ چکی ہے کہ اتحاد کی برکت نے جو رنگ دکھائے ہیں‘ ان پر کون سوال اٹھا سکتا ہے۔ جنہوں نے احتساب کی بات کی تھی اور حساب لینے کی باتیں کی تھیں‘ وہ اب آپ کو انتخابات میں بھی نظر نہیں آ رہے۔ مانتے ہیں کہ اُن کا اقتدار خرابیوں سے مبرا تو نہیں تھا مگر جن کی کرپشن کے ثبوت دنیا کے امیر ترین ممالک اور بے نامی کمپنیوں میں ہر جگہ پڑے ہوئے ہیں‘ انہیں بے گناہی کی سند عطا کرکے چوتھی‘ پانچویں بار پاکستان کے بے بس عوام پر مسلط ہونے کا موقع فراہم کرنا کون سا قومی مفاد ہے۔ جمہوریت‘ آئین اور قانون کی حکمرانی کے مروجہ اصولوں کے پیشِ نظر ہم پاکستان اور اس کے عوام کا مقدمہ کہاں لے جائیں‘ کسے وکیل کریں‘ کس سے منصفی چاہیں؟ ان حالات میں تحریک انصاف کا فیصلہ کہ وہ میدان نہیں چھوڑے گی اور اس کے امیدوار سینکڑوں منفرد انتخابی نشانات کے ساتھ مقابلہ کریں گے‘ دیکھتے ہیں کہ کیا اس بدلے ہوئے زمانے میں لہو گرم رکھ سکتا اور جذبۂ موسیٰ اثرات کی تابکاری کے سامنے مزید ابھر کر حکمرانوں کی نیندیں خراب کر سکتا ہے یا نہیں۔ کتنی بار لکھیں کہ ایک فلمی سکرپٹ کی مانند ہر کردار ایک سیاسی جماعت کو دبانے اور انتخابی سیاست سے باہر کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ابھی تک انہیں کامیابیاں ہی کامیابیاں نظر آرہی ہیں۔ یہاں تک کے ملک کے آزاد اور آئینی ادارے الیکشن کمیشن کی طرف سے اُس جماعت کا انتخابی نشان بھی واپس لیا جا چکا ہے۔ موروثیوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ ان میں سے کچھ کے مطابق اس پارٹی کو کوئی نشان نہیں ملنا چاہیے۔ اور جو فیصلے اس بارے میں آئے ہیں‘ انہیں اپنا راستہ بہت ہموار نظر آرہا ہے۔ ہم ایسی جمہوری‘ قانونی اور آئینی کامیابیوں کے بارے میں کیا کہیں کہ ملک کی سب سے زیادہ مقبول سیاسی جماعت کے خلاف کارروائیوں سے ملک کی سیاست اور جمہوری شناخت کے حوالے سے کوئی مثبت نتائج تو نہیں نکل سکتے۔ عوام معاشرے اور قومی بھلائی کے بارے میں غور و فکر کرنے اور ووٹ دینے کے اتنے ہی حقدار ہیں جتنے موروثی۔ ابھی تک وہ قدم جو معتوب جماعت اور اس کے قائدین کو پس پشت کرنے کے لیے اٹھاہے‘ اس سے پاکستان کے استحکام‘ معاشی ترقی اور جمہوریت کی بحالی سے متعلق ملک میں اور اس کے باہر خدشات کو بڑھتے دیکھا ہے۔ حالات تو ایسے بن چکے ہیں کہ سب موروثی ایک طرف اور ایک سیاسی جماعت دوسری طرف۔
کھیل جاری ہے۔ وقت اور تاریخ کا پہیہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے‘ ہم نے اس ملک میں اپنی زندگی میں کون سے حادثات‘ المیے اور خطرناک سیاسی داؤ پیچ نہیں دیکھے۔ ایک مرتبہ پھر دیکھ رہے ہیں۔ اس دفعہ فرق صرف اتنا ہے کہ سب اکٹھے ہیں کہ ایک نئی جماعت جو ابھری تھی‘ اُسے پیچھے کیسے دھکیلا جائے۔ چلو یہ دو تین بڑی جماعتیں اور کئی نئے گروہ پیدا ہوئے ہیں۔ آٹھ فروری کی شام کو اپنی کامیابی کا جشن منا لیں اور میاں نواز شریف یا بلاول زرداری میں سے ایک یا دونوں وزیراعظم بھی بن جائیں‘ جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے‘ کیا اس کے پیشِ نظر ان کے اقتدار کو سیاسی طور پر جائز قرار دیا جا سکے گا؟ ہم جیت گئے کے نعرے جتنے بھی بلند ہوں‘ بے رنگ‘ پھیکے اور بے اثر ہوں گے۔ ایک بڑا مسئلہ ان موروثیوں کے سامنے یہ ہے کہ وہ اس جماعت کے حامیوں کو جتنا مرضی دبا لیں‘ وہ کسی اور صورت پہلے سے زیادہ طاقت سے ابھریں گے۔ پاکستان ایک جماعت نے بہت حد تک تبدیل کر دیا ہے۔ وہ ختم بھی ہو جائے‘ تبدیلی کا رنگ ملکی سیاست سے کبھی ختم نہیں ہو گا۔ آٹھ فروری کو ہمیں بہت مختلف ہوتا نظر آرہا ہے۔ وہ لوگ بھی سینکڑوں انفرادی انتخابی نشانوں پر مہر لگانے نکلیں گے جنہوں نے کبھی یہ زحمت گوارا نہیں کی۔ نوجوان میدان نہیں چھوڑیں گے اور کھلاڑی تو پھر کھلاڑی ہوتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر