نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچہ کے علاقے میں ہلاکتیں اور امن وامان کی صورتحال!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگران وزیرا علیٰ نے رحیم یار خان کے کچہ کے علاقہ میں ڈاکوئوں اور پولیس کے درمیان ہونے والے مقابلے میں کانسٹیبل محمد قاسم اور جوان محمد کی شہادت کو عظیم قربانی قرار دیتے ہوئے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے جبکہ پولیس کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی عظیم ہیں جو سالہاسال سے کچہ کے علاقہ میں ڈاکو راج کے عتاب کا شکار ہوتے آرہے ہیں۔ ان وارداتوں میں اب تک سینکڑوں کی تعداد میں عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور کچہ تو کیا آس پاس کے علاقوں سے بھی شریف شہریوں نے نقل مکانی کی ہے۔ کچہ کے علاقہ میں ہونے والی موجودہ واردات پولیس پر سوالیہ نشان ہے کہ سندھ پنجاب پولیس کے متعدد آپریشن ہوتے آرہے ہیں، پچھلے دنوں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اب کچہ میں ڈاکوئوں کا صفایا کر دیا گیا ہے مگر یہ باتیں صرف زبانی کلامی ثابت ہوئی ہیں۔ موجودہ واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے کہ گھات لگا کر بیٹھے کچہ کے ڈاکوئوں کی کھیتوں میں کام کرنے والے سولنگی قبائل کے افراد پر فائرنگ کی جس سے خاتون سمیت 6 افراد جاں بحق ہو گئے، امداد کو پہنچنے والی پولیس نفری اور ڈاکوئوں میں مقابلہ ہوگیا، سنگین مقدمات میں مطلوب 4 ڈاکو مارے گئے، ڈاکوئوں نے بھرپور مزاحمت کی پولیس نے بکتر بند گاڑیوں پر راکٹ لانچر فائر کئے ۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ڈاکوئوں کے پاس بکتر بند گاڑیاں، راکٹ اور لانچر کہاں سے آرہے ہیں؟ کتنا ظلم ہے کہ گزشتہ روز ہونیوالے واقعہ میں ہلاکتوں کی تعداد 12 ہو گئی، زخمی ہونے والے پولیس جوان طبی امداد کیلئے ہسپتال منتقل کر دیئے گئے۔ خوفناک بات یہ ہے کہ یہ آگ ابھی بھی بجھی نہیں، کچہ تو کیا پورے وسیب میں خوف و ہراس کی کیفیت طاری ہو چکی ہے کہا جاتا ہے کہ فائرنگ کا تبادلہ رات گئے تک جاری رہا، گزشتہ روز ماچھکہ کے علاقہ سوترکی کے زمیندار رئیس اکبر سولنگی کے رقبہ میں فصل کماد کی کٹائی کیلئے افراد کام میں مصروف تھے کہ اسی دوران شرقبائل کے پولیس کو سنگین مقدمات میں مطلوب افراد نے جان سے مار دینے کیلئے فائرنگ شروع کر دی ۔ فائرنگ سے مرد تو کیا خواتین اور بچے بھی محفوظ نہیں ہیں کچہ میں ہونے والے واقعہ کی تفصیل پڑھنے سے دل خون کے آنسو روتا ہے کہا جاتا ہے کہ فصلوں میں کام کرنیوالی سیلرا برادری سے تعلق رکھنے والی 16 سالہ حمیدا بی بی جبکہ سولنگی قبائل سے تعلق رکھنے والے پرویز، شہزاد، حفیظ، شعبان، وزیر جاں بحق ہو گئے۔ کچہ کے علاقہ میں ڈاکوئوں سے زیادہ اُن کے سرپرستوں کو گرفتار کرنے اور اُن کو قانون کے حوالے کرنے کی ضرورت ہے ۔ کچہ کا علاقہ ہو یا کوئی اور علاقہ کوئی واردات پولیس کی چشم پوشی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ پولیس کا لفظ جہاں بھی آجائے تو معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ ٹریفک کے ساتھ لفظ پولیس آتا ہے تو وہاں بھی اور تو اور کم عمر بچوں پر بھی شامت آجاتی ہے۔ کم عمر بچے سے ایک حادثہ لاہور میں پیش آیا تو پورے صوبے میں عذاب کھڑا ہو گیا حالانکہ دیگر علاقوں میں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے رہے، کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ ملتان پولیس اور ٹریفک پولیس کی آج کل زیادہ توجہ موٹر سائیکلوں پر سوار کم عمر بچوں کی خلاف پرچوں کا اندراج ہے جس سے والدین میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے والدین کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ چھوٹے موٹر سائیکلوں کو سائیکل قرار دیا جائے اور اُس کے چالان نہ کئے جائیں۔ ضرورت ٹریفک قوانین پر آگاہی مہم کی بھی ہے اور کم عمر بچوں پر پرچوں کا اندراج اور انہیں حوالات میں بند کرنا ان کا مستقبل تباہ کرنے کے مترادف ہے اس پر فوری نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج انٹرنیٹ کا دور ہے بچوں پر مقدمات کا اندراج ہو گا تو آگے اُن کیلئے تعلیمی مسائل کے علاوہ ملازمتوں کے مسائل بھی در پیش ہو سکتے ہیں۔ پولیس کو قوانین کے نفاذ کے ساتھ ساتھ خود کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے کہ ملک میں پل پل جرائم کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ پہلے بھی غربت سے تنگ ہیں اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ کرائم کی شرح میں اضافہ مہنگائی اور بیروزگاریسے جڑا ہوا ہے۔ اس صورتحال سے پاکستان کا ہر شہری پریشان ہے، پرس اور موبائل چھیننے کی وارداتیں عام ہو چکی ہیں۔ وسیب کے علاوہ صرف ایک شہر ملتان کی جو خبریں اخبارات میں شائع ہوئی ہیں اُس کی تفصیل ہوشربا ہے اور یہ امن و امان نافذ کرنے والوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی ہے۔ اس تفصیل میں تھانہ قطب پور ملتان کی حدود میں نامعلوم مسلح ملزمان نے محمود سے ہزاروں روپے نقدی اور موبائل فون چھین لیا جبکہ چور ہادی کا فون لے گئے جبکہ تھانہ چہلیک ملتان کی حدود میں نامعلوم ملزمان نے سجاد اور عدیل سے فون چھین لیے جبکہ عامر کی موٹر سائیکل چوری ہو گئی۔ اسی طرح ملتان کے تھانہ جلیل کی حدود میں مسلح ملزمان نے فہیم سے 15 ہزار روپے لوٹ لئے جبکہ نامعلوم چور بہادر کا فون لے گئے اور تھانہ بی زیڈملتان کی حدود میں نامعلوم چوروں نے پولیس اے ایس آئی عمران کی موٹر سائیکل چوری کر لی جبکہ اسامہ اور زاہد کا سامان و نقدی چوری کر لی اور یہ بھی دیکھئے کہ کینٹ کو محفوظ علاقہ سمجھا جاتا ہے جبکہ تھانہ کینٹ ملتان کی حدود میں نامعلوم چوروں نے علی رضا کی موٹر سائیکل جبکہ محمد حسین کا بجلی کا میٹر چوری کر لیا۔ ملتان شہر کے علاوہ ضلع ملتان کی حدود کے چند واقعات جو اخبارات میں رپورٹ ہوئے کی تفصیل اس طرح ہے کہ تھانہ صدر شجاع آباد کے علاقہ میں مسلح ملزمان نے سہیل سے موٹر سائیکل چھین لی، سٹی جلال پور کے علاقہ میں نامعلوم ملزمان نے ثناء اللہ کا فون، تھانہ گلگت کے علاقہ میں چوروں نے عثمان کا موبائل فون چوری کر لیا، تھانہ بدھلہ سنت کے علاقے میں مسلح ملزمان نے سجاد سے 54 ہزار روپے چھین لئے، تھانہ ممتاز آباد کے علاقہ میں چوروں نے خالد کی ایک لاکھ چون ہزار کی کھاد جبکہ جنید کا فون چوری کر لیا۔یہ سب کچھ اس بناء پر بتایا جا رہا ہے کہ ملتان کی انتظامیہ آنکھ کھولے اور پورے صوبے میں نگران وزیر اعلیٰ امن و امان اور بیڈ گورننس کی صورتحال پر فوری توجہ دیں۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author