حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا یہ کہنا بجا طورپر درست ہے کہ جمہوری قوتیں ناکام ہوئیں تو کوئی اور طاقت ان کی جگہ لے لے گی۔ لیکن اصولی طور پر انہیں یہ بتانا چاہیے تھا کہ جمہوری قوتیں غیرجمہوری انتظامات میں ان قوتوں کی مددگار کیوں بنتی ہیں جن کا کام حقیقت میبں دستور اور قانون کی طے شدہ حدود میں اپنے فرائض ادا کرنا ہے لیکن پچھلے پچھتر برسوں سے وہ اقتدار سازی و "اقتدار بازی” میں ہی مصروف ہیں۔
پاکستان میں نافذ ہونے والے چار میں سے کم از کم 2 مارشل لائوں کو ان جمہوری قوتوں کی تائید حاصل تھی جو اپنے سیاسی مخالف سے اختلافات کو اس حد تک بڑھاوا دے بیٹھیں کہ غیرآئینی اقدام پر کہتی دیکھائی دیں کہ جمہوریت کو پامال اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا گیا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ بعض مواقع کے علاوہ ان دو مارشل لائوں کو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ نے بھی جائز ہونے کی سند عطا کی یہی نہیں بلکہ چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو تو بن مانگے سپریم کورٹ نے آئینی ترمیم کا حق بھی تھمادیا۔
بعدازاں جس مرحلہ پر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کامقدمہ چلانے کے لئے سیاسی و قانونی اور عدالتی حلقے پرجوش تھے۔ کسی نے یہ سوال اٹھایا نہ اس کی ضرورت محسوس کی کہ ایک فوجی آمر کو آئینی ترمیم کا حق ادا کرنے والے سپریم کورٹ کے متعلقہ بنچ کے ججز کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اس کے ساتھ ہی ان جمہوری عناصر کو بھی جو اٹھتے بیٹھتے جمہوریت اور عوام کے حق حکمرانی کی مالا جپتے ہیں
لیکن پرویز مشرف کے قبضہ گیری کے پروگرام کی تائید کررہے تھے۔
جمہوری قوتوں کی ناکامی کی صورت میں غیرجمہوری قوتوں کے مسلط ہونے کے جس خطرے کا تذکرہ بلاول بھٹو نے کیا اس پر دو آراء ہرگز نہیں لیکن کیا غیرجمہوری قوتوں کے تسلط و طویل حکمرانی میں جمہوری قوتیں کہلانے والوں کا کوئی کردار نہیں رہا؟
ماضی بعید کی انہونیوں پر بحث نہ بھی اٹھائی جاتے تو بھی اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جمہوری قوتوں نے پچھلے دس پندرہ برسوں میں کیا کیا۔
کیوں یہ قوتیں صرف حصول اقتدار کے لئے غیرجمہوری قوتوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئیں۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا خود کو جمہوری قوتوں کے طور پر پیش کرنے والی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت ہے۔
طبقاتی اشرافیہ کے مختلف حصوں سے جماعتوں کے عہدیداروں کا "انتخاب” کرتی سیاسی جماعتوں نے عوام میں جمہوری شعور کی بیداری کی بجائے سیاسی مخالفین پر طنز کے تیر برسانے پگڑیاں اچھالنے اور ان کی کردار کشی کو رواج دیا۔
لگ بھگ پچھلی اڑھائی تین دہائیوں کی سیاسی تاریخ کا دیانتدارانہ تجزیہ اس امر کو دوچند کردیتا ہے کہ جب سے سیاسی جماعتوں میں کارکنوں کی جگہ ٹھیکیداروں نے لی ہے سیاسی اخلاقیات اور جمہوری اقدار کی جگہ اندھی شخصیت پرستی کے اس جنون نے لے لی ہے جو اپنے سوا کسی کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا۔
بدقسمتی سے اس معاملے میں تمام سیاسی جماعتیں اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں سبھی ایک ہی راستے کی مسافر ہیں۔
اسی طرح سیاسی جماعتوں میں پولیٹیکل پارٹی ایکٹ کی مجبوری میں مختلف سطح کے جو انتخابات کرائے جاتے ہیں ان کا یہ عمل تین سے پانچ منٹ میں مکمل ہوجاتا ہے۔
بعض سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران اور ہم خیال یہ سوچ رکھتے ہیں کہ اگر کارکنوں کے الیکٹوریل کالج کو قیادت چننے کا موقع دیا جائے تو زرپرستوں اور ریاستی مددگاروں کے جماعتوں پر قبضے کے امکانات وسیع ہوجاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ان خطرات سے نمٹنے کے لئے پارٹیوں کے اندر اداروں اور تنظیمی ڈھانچوں کو مضبوط کیوں نہیں بناتیں؟
یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ غیرجمہوری قوتوں کے تسلط و حکمرانی اور ان کی ساجھے داری تینوں جرم ہیں ’’میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو‘‘ کی منافقت بھری سیاست و عمل سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔
سیاسی جماعتیں اپنے نظریاتی و شخصی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کرنے سے گریز کریں۔ برسراقتدار سیاسی مخالف کو اقتدار سے نکلوانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی چاکری کریں نہ ہی حصول اقتدار کے لئے ہونے والی مینجمنٹ سے فیض پانے کے لئے دامن پھیلائے اسٹیبلشمنٹ کی چوکھٹ پر کھڑی ہوں۔
ہماری دانست میں پاکستانی سیاست کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک وقت میں جو کہہ رہی ہوتی ہیں دوسرے وقت میں اپنے کہے کے یکسر برعکس عمل میں مصروف دیکھائی دیتی ہیں۔
مثلاً 2018ء میں اسٹیبلشمنٹ کی انتخابی مینجمنٹ سے اقتدار حاصل کرنے والی پی ٹی آئی کے نزدیک یہ عمل استحکام پاکستان کی ضمانت تھا اور اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھی جانے والی مسلم لیگ (ن) انتخابی مینجمنٹ کو جمہوریت پر شب خون قرار دیتے نہیں تھکتی تھی۔
حالات آج بھی 2018ء جیسے ہی ہیں بدلے صرف کردار اور زبانیں ہیں۔ آج تحریک انصاف کے سربراہ نااہل اور جیل میں ہیں اور ان پر مقدمات کی بھرمار ہے، دبائو پر اس جماعت کے لوگ اس طرح بکھر رہے ہیں جیسے ایک آندھی کی بدولت اُڑ کر ماضی میں دوسری جماعتوں سے تحریک انصاف میں جمع ہوئے تھے۔
آج مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو ’’انصاف‘‘ مل رہا ہے پی ٹی آئی عدم انصاف کی دوہائیاں دے رہی ہے۔
اندریں حالات یہ رائے عام ہے کہ صورتحال اگلی نصف صدی میں بھی تبدیل نہیں ہوگی۔ بلکہ جمہوریت، عوام کی حکمرانی وغیرہ کے حق میں غیرجمہوری قوتوں کی مذمت ہمیشہ کی طرح ’’درشنی فیشنی‘‘ ہی ہوگی۔
مستقبل میں بھی سیاسی مخالف کو اقتدار سے نکال کر جیل بھجوانے کے لئے یہی جمہوری قوتیں ہی غیرجمہوری قوتوں سے تعاون کرتی دیکھائی دیں گی۔ اس صورتحال میں اصلاح احوال کی صرف ایک صورت ہے وہ یہ کہ سیاسی جماعتیں خوداحتسابی کو رواج دیں ۔
انتخابی مینجمنٹ کے ذریعے ہانکے گئے افراد کو اپنی جماعتوں میں قبول نہ کریں بالفرض اگر ان موسمی پرندوں کو اپنی جماعتوں میں قبول کرتی ہیں تو کم از کم تین سال کے لئے کوئی جماعتیں عہدہ نہ دیں اور ایک مدت کے لئے انہیں اپنا انتخابی امیدوار نہ بنائیں۔
سیاسی جماعتیں ماضی کا کفارہ ادا کرنے کے لئے مخلص ہیں تو ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور صرف دو نکاتی "میثاق عوام” کریں اولاً یہ کہ کوئی بھی سیاسی جماعتں حصول اقتدار یا مخالف کو اقتدار سے نکلوانے کے لئے غیرجمہوری قوتوں کی مددگار نہیں بنے گی جو جماعت ایسا کرے گی اس کا سماجی و سیاسی بائیکاٹ کیا جائے گا۔
ثانیاً یہ کہ کسی بھی جماعت کے دور اقتدار میں وضع کی گئی معاشی پالیسیوں کے ساتھ تعمیروترقی کے مقررہ اہداف کو پرامن تبدیلی اقتدار کی صورت میں نئی حکمران جماعت یا اتحاد ہر دو تحفظ فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔
فی الوقت تو مستحکم جمہوریت، سماجی ساجھے داری اور پرامن سیاسی ماحول کی یہی دو چیزیں ضرورت ہیں ان پر عمل سے ہی غیرجمہوری قوتوں کا نہ صرف راستہ روکا جاسکتا ہے بلکہ غیرجمہوری قوتوں سے کسی بھی طرح کا تعاون حاصل کرنے والی جماعت یا جماعتوں کا محاسبہ بھی ممکن ہے۔
کیا ہم امید کریں کہ سیاسی قائدین اور ان کی جماعتیں مندرجہ بالا معروضات پر ملک، عوام اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں غوروفکر کرتے ہوئے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں گی؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر