نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ارشاد امین: تم نے بھی ابدی اڑان بھر لی۔۔۔||ڈاکٹر مجاہد مرزا

کل ہی کسی نے سرائیکی دے مہاندرے صحافی ارشاد امین کے ملتان آنے کی پوسٹ لگائی تھی جس پہ میں نے سوچا تھا کہ اگر پیر سے مجھے کام شروع نہ کرنا ہوتا تو میں ملتان چلا جاتا تاکہ ارشاد اور دوسرے ادب و صحافت سے وابستہ لوگوں سے ملاقات ہو جاتی۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1986 تھا یا 1985 درست یاد نہیں البتہ کراچی میں ترقی پسند ادیبوں کی ایسوسی ایشن کی گولڈن جوبلی کی تقریب تھی جس میں شرکت کے لیے میں سرائیکی وسیب کے دانشوروں کے گروہ میں شامل تھا۔

میں ان دنوں کوٹ ادو میں میڈیکل پریکٹس کیا کرتا تھا۔ استاد فدا حسین گاڈی اور ان کے فرزند مشتاق گاڈی کے ہمراہ ملتان پہنچا تھا جہاں سے دوسرے دوستوں کے ہمراہ ہم کراچی جانے کے لیے ریل گاڑی میں سوار ہوئے تھے۔ سبھی ایک دوسرے کے شناسا تھے۔

راستے میں کہیں خان پور یا رحیم یار خان سے دو نوجوان سوار ہو کر ہمارے ساتھی ہوئے تھے جن سے میری شناسائی نہ تھی۔ ان میں سے ایک غیر معمولی طور پر بلند قامت اور انتہائی اکہرے بدن والا تھا جس کی بڑی بڑی ذہین آنکھیں تھیں، اس خاموش طبع شرمیلے نوجوان نے سندھی اجرک اوڑھی ہوئی تھی۔ دوسرا گٹھے ہوئے بدن والا عام قدوقامت کا کھلتے ہوئے رنگ والا نوجوان تھا۔

یہ دونوں ساتھ ساتھ سٹیشنوں پہ اترتے رہے۔ معلوم ہوا کہ طویل قامت کا نام ارشاد امین ہے، وہ پہلے سعودی عرب میں تھا اور اب مقامی طور پر صحافی ہے۔ دوسرے نوجوان نے اپنا نام سعید خاور بتایا تھا اور بڑے تیقن سے کہا تھا کہ وہ صحافی بننے کی خاطر کراچی میں ہی رہے گا۔ وہ کچھ عرصہ پہلے نوائے وقت کراچی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر فارغ ہوئے۔

پھر میں کوٹ ادو چھوڑ کے مریدکے جا بسا، جہاں سے روس کی راہ لی۔ کہیں دس برس بعد نذیر لغاری نے مجھے کہا کہ اخبار جہاں میں لکھا کرو، میں نے بہتر نہ جانا کیونکہ دس سال پہلے میرے تجزیہ جاتی مضامین کئی سال سے روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحہ پر شائع ہوتے تھے۔ ارشاد احمد حقانی کے علاوہ اکبر علی ایم اے اور ڈاکٹر مجاہد مرزا کے مضامین زیادہ پسند کیے جاتے۔

میری تیوری پہ بل دیکھ کے لغاری جو سرائیکی دانشوروں کی پذیرائی کرنے کے دوران شناسا ہوئے اور پھر دوست بن گئے، نے کہا تھا مانا تم جغادری لکھاری ہو لیکن بھائی وقت گزر چکا، معاملات بدل گئے۔ اب شروع تو کرو۔ یوں میں نے اخبار جہاں میں ”ماسکو نامہ“ لکھنا شروع کر دیا تھا۔ سال ڈیڑھ بعد ہی میں اپنے مزاج مطابق کسی بات پہ اکھڑ گیا اور اس مجلہ کو مضامین دینا چھوڑ دیے۔

پاکستان آیا تو حسب معمول لاہور جانا ہوا۔ امجد سلیم منہاس سے ملاقات ہوئی۔ دو ایک روز پہلے قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے تھے۔ منہاس مجھے کسی ریڈیو سٹیشن لے گیا جہاں میں نے ایاز گل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو مخلوط حکومت بنا لینی چاہیے۔ بعد میں ایک دوست ریاض شاہد جس نے یہ پروگرام سنا تھا اکثر کہتا کہ لگتا ہے ان دونوں پارٹیوں نے آپ کا مشورہ سن لیا تھا۔

خیر منہاس نے ریڈیو سے نکلتے ہوئے بتایا تھا کہ ریڈیو والے دوستوں نے ہم شہری کے نام سے ایک ہفتہ وار مجلہ بھی جاری کیا ہوا ہے میں کل آپ کو اس کے دفتر لے چلوں گا۔

اگلے روز جب میں منہاس کے ساتھ وہاں گیا اور ایڈیٹر کے کمرے میں داخل ہوا تو وہی نوجوان جو اب پچپن برس سے اوپر کا تھا ایڈیٹر کی کرسی پہ بیٹھا ملا تھا، ہم دونوں نہال ہو گئے۔ جب میں نے ارشاد کو بتایا کہ میں اخبار جہاں میں ماسکو نامہ لکھتا تھا مگر ان بن ہونے کے کارن چھوڑ دیا تو وہ بولا آپ اب ہمارے ہفت روزہ میں لکھا کریں۔

 

کچھ عرصہ ماسکو نامہ لکھا، پھر کالم لکھنے لگا۔ دوسری بار جب سال بعد ارشاد سے وہیں ملنے گیا تو قریب پندرہ برس بعد وہیں دفتر میں وجاہت مسعود سے ملاقات ہوئی جس کے ہم شہری میں مضامین تو مجھے پسند آتے تھے لیکن نہ مجھے اس کی شکل یاد رہی تھی اور نہ معلوم تھا کہ وہی وجاہت جو بقول اس کے ہمارے ہاں آ کے ہی رج کے روٹی کھاتا تھا، یہ مضامین لکھتا ہے۔ ارشاد وجاہت اور میری باتیں سن کے حسب عادت مسکراتا رہا تھا۔

2012 میں ریڈیو صدائے روس کے سامعین کی کانفرنس کے سلسلے میں لاہور آیا تو ریڈیو اور ہم شہری کے مالک عمران باجوہ نے وفد کی بھرپور دعوت کی جہاں ارشاد امین محظوظ ہوتا رہا اور مسکراتا رہا۔

پچھلے برس لارنس گارڈن میں واقع کلب میں فیض عوامی میلہ ہوا تو وہاں ارشاد امین ملا اور ہم اکٹھے بیٹھے رہے۔ ہمیشہ اپنا ضخیم سرائیکی پرچہ ”پارت“ دینے کا کہتا مگر دے نہ پاتا۔ کچھ عرصہ پہلے اس نے مجھے انور سن رائے کی شاعری کی کتابوں کے پی ڈی ایف بھجوائے تھے لیکن ملاقات بس فیس بک تک محدود ہو کے رہ گئی تھی۔

 

کل ہی کسی نے سرائیکی دے مہاندرے صحافی ارشاد امین کے ملتان آنے کی پوسٹ لگائی تھی جس پہ میں نے سوچا تھا کہ اگر پیر سے مجھے کام شروع نہ کرنا ہوتا تو میں ملتان چلا جاتا تاکہ ارشاد اور دوسرے ادب و صحافت سے وابستہ لوگوں سے ملاقات ہو جاتی۔

آج فیس بک کھولی تو کسی نوجوان کے ساتھ ارشاد امین کی حسب عادت مسکراتی تصویر تھی، خیال آیا کہ ملتان میں کسی نے بنائی ہوگی، چلو پڑھ لیتا ہوں کیا لکھا ہے تو لکھا تھا ”ارشاد امین وی جھوک لڈا گئین“ یعنی ارشاد امین بھی گزر گئے۔ ہائیں، دل بیٹھ گیا۔ اری موت تیرے آنے کے مقام اور وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ رحیم یارخان کے نزدیک کا باسی لاہور میں کنبہ کے ساتھ مقیم اور تو نے اسے ملتان آ لیا۔

خدا آپ کو پارت ہو ارشاد کی مغفرت فرمانا

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author