عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان کے مکران ڈویژن میں تعلیم دشمن عناصر ایک مرتبہ پھر سرگرم ہوگئے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو جلانے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ۔ یکے بعد دیگرے اسکولوں کو نذرآتش کیا جارہا ہے۔ یہ واقعات بلیدہ، تربت، پسنی اور دیگر علاقوں میں رونما ہورہے ہیں۔ جس کا مقصد علاقے میں ایک ڈر اور خوف پھیلانا ہے۔ ان عناصر کو سرپرستی حاصل ہے۔ بغیرسرپرستی کے ایسے واقعات ممکن نہیں۔ 27 اکتوبر 2023 کو ساچ پبلک اسکول میناز بلیدہ پر فائرنگ کی گئی۔ دیواریں گولیوں سے چھلنی ہوگئیں۔
فائرنگ سے کئی گولیوں سے ساچ کے مین آفس کے دروازے اور کمرے کے اندر ٹیبل اور کرسیوں کو چھلنی کردیا۔ یہ ایک ایک علم دشمن عمل تھا۔ اس جیسے منفی عمل سے نہ علاقے کے لوگ پیچھے ہٹیں گے اور نہ ہی ان عناصر کو منفی سرگرمیوں کے لیے اسپیس دیں گے۔ یہ اس رات کو فائرنگ کی گئی تھی جب اسی صبح ساچ اسکول میناز کے زیر اہتمام بچوں کی منشیات کے حوالے سے آگاہی واک کا انعقاد کیا جانا تھا۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حملے میں وہ گروہ ملوث ہے جس سے ان کو یہ واک راس نہیں آرہی تھی۔ اس وقت ساچ اسکول میناز میں 600 کے قریب بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، جوکہ علاقے کے منشیات کے عادی افراد، یتیموں اور غریبوں کے بچے ہیں۔ ساچ اسکول ایک کمیونٹی بیسڈ تعلیمی ادارہ ہے جو مکمل نان کمرشل ہے۔ جہاں علاقے کے بچے معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ساچ اسکول بلیدہ زامران کے بچوں کو کوالٹی ایجوکیشن فراہم کر رہا ہے۔ ماضی میں بھی اسی اسکول کو آگ لگادی گئی تھی۔ 29 اکتوبر 2020 کو ساچ پبلک اسکول انہی عناصر نے آگ لگا کر نذر آتش کردیا تھا۔ ان دونوں وارداتوں میں ملوث کسی بھی شخص کی گرفتاری ابتک عمل میں نہیں آئی۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس عمل کے پیچھے ایک نامعلوم گروہ سرگرم ہے جو معلوم ہوتے ہوئے بھی نامعلوم ہے۔ جو اس گروہ کی طاقت اور دہشت کی عکاسی کرتا ہے۔
16 اکتوبر 2022 کو نامعلوم افراد نے یونین کونسل الندور میں واقع اکلوتے پرائیوٹ اسکول کلکشان کو آگ لگا کر تباہ کردیا تھا۔ اس واقعہ میں مسلح جتھے ملوث تھے۔ انتظامیہ نے ان کی گرفتاری میں بے بسی کا اظہار کیا تھا۔
تعلیم دشمن گروہ پورے مکران ڈویژن کے دیگر اضلاع میں بھی سرگرم عمل ہیں۔ پانچ نومبر 2022 میں اسی گروپ کے کارندے ضلع گوادر کی تحصیل پسنی میں سرگرم ہوئے۔ پسنی میں ریک پشت کے بچیوں کے اسکول کو آگ لگا کر تباہ کردیا تھا۔ تاحال واقعے میں ملوث افراد کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔ ان گروہوں کا ٹارگٹ تعلیم نسواں ہے۔ یعنی یہ عورتوں اور بچیوں کو سماج میں کوئی حقوق دینا نہیں چاہتے۔ یہ بات طے ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت ترقی نہیں کریگا جب تک اس معاشرے میں عورتوں کو سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق حاصل نہیں ہونگے۔ دنیا میں کسی بھی قوم کی ترقی اس کی عورتوں کی ترقی پر منحصر ہے۔ پڑھی لکھی خاتون ہی پڑھے لکھے خاندان کی بنیاد ڈالتی ہے۔ پھر وہی خاندان پڑھا لکھا سماج پیدا کرتا ہے۔ یہ گروہ بلوچ معاشرے کو پسماندہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو بلوچ قوم کو ہرگز منظور نہیں ہے۔
14 نومبر 2022 کو نامعلوم افراد نے ضلع کیچ میں کھن کلگ ہائی اسکول دازن کو نذرآتش کرکے اس کو راکھ کردیا جس کی وجہ سے اسکول کے دفتر میں رکھے گئے کلاس نہم و دہم کے امتحانی فارم بمعہ فیس، سروس بْک، حاضری رجسٹر، کرسیاں، ٹیبل، پنکھے، قالین، الماریاں، سائن بورڈ، سمیت متعدد کتابیں جل کر راکھ ہوگئیں۔ اس تعلیمی ادارے کا شمار گردونواح کے بہترین اسکولوں میں ہوتا ہے۔
مکران ڈویژن ایک غیر قبائلی علاقہ ہے۔ ماضی میں یہاں بھی قبائلی جھگڑوں کو جان بوجھ کر ہوادی گئی جس سے پچاس سے زائد جانیں لقمہ اجل بنگئیں۔ بلیدہ اور زامران کے لوگوں نے قبائلی دشمنی کی وجہ سے بڑا خون خرابہ دیکھا۔ جس میں زامران اور بلیدہ کے بے شمار لوگ مارے گئے۔ آپس کی لڑائی میں بڑی بڑی نامور شخصیات ہم سے بچھڑ گئیں۔ جن میں بلوچستان کے سابق وزیر میر ایوب بلیدی بھی شامل تھے۔ دونوں طرف کے لوگ مارے گئے۔ اس جنگ نے بلوچ قوم کی اجتماعی طاقت کو پارہ پارہ کردیا ۔ قوم کی اجتماعی سوچ اور فخر کو قبائلی بنیاد پر تقسیم کردیا تھا۔ جس سے بلوچ قوم کی اجتماعی طاقت گروہوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ بھائی بھائی کے خون کے پیاسے ہوگئے تھے۔ اس قبائلی جھگڑے کے تھمنے کے بعد بلیدہ اور زامران میں قبائلی ڈھانچے کا رنگ و ڈھنگ تبدیل ہوگیا۔ یہ تبدیلی ایک سوچ کی بنیاد پر پڑی۔ یہ سوچ ایک طویل جنگ کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ وہاں کے دونوں طرف قبائلی عمائدین نے ہتھیار کو پھینک کر کتاب کو تھامنا شروع کردیا۔ ان کو پہلی بار یہ باور ہوگیا کہ تعلیم سے بڑی طاقت کوئی نہیں ہے۔ سب نے اپنے بچے اور بچیوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دینے کی جدوجہد کی۔ جس کی بدولت آج بلیدہ جیسے پسماندہ علاقے میں انجنیئرز اور ڈاکٹرز پیدا ہورہے ہیں۔ اس علاقے نے ایک عالمی شہرت یافتہ سائنسدان بھی پیدا کیا۔ بلیدہ سائنٹسٹ ڈاکٹر یارجان عبدالصمد کا آبائی علاقہ بھی ہے۔ وہ برطانیہ میں کیمبرج یونیورسٹی کے گرافین سینٹر میں بطور سینئیر سائنس دان کام سرانجام دے رہا ہے۔ بلیدہ کے لوگوں کو تعلیم کے ثمرات کے بارے میں اچھی طرح علم ہے۔ ڈاکٹر یارجان اس کی ایک زندہ شکل ہے۔ ڈاکٹر یارجان یہاں کے بچوں کا رول ماڈل ہے۔ ہر بچہ اپنے آپ کو ڈاکٹر یارجان کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے۔ تعلیم کی اہمیت سے کسی بھی طرح انکار ممکن نہیں ہے۔ یہاں کے لوگ جانتے ہیں کہ تعلیم پر صرف قوم کی تعمیر و ترقی کا ہی انحصار نہیں بلکہ اس میں قوم کے احساس و شعور کو جلا بخشنے کی قوت بھی ہے۔ اگر آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی شرح خواندگی پر ایک نظر ڈالیں۔ تو خود بخود احساس ہو جائے گا کہ کسی قوم کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ دنیا میں بالادستی قائم رکھنے والے ممالک امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی وغیرہ کی جہاں شرح خواندگی 99 فیصد ہے۔
اس وقت بلوچستان میں 36لاکھ بچوں میں سے صرف 13لاکھ بچے اسکول جاتے ہیں جن میں اکثریت لڑکوں کی ہے۔ کیونکہ بلوچستان میں اب بھی لڑکیوں کی تعلیم کو شجرِ ممنوعہ تصور کیا جاتا ہے۔ ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔ اور ان رجعتی قوتوں کے رجعتی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے:
لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور
کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر