ستمبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! چوتھی قسط!!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

بنی ٹھنی عابدہ برتھ ڈے کا ایسا کیک لگتی تھی جس کو دیکھ کر دل یک دم اداسی سے بھر جاتا۔ عابدہ جب بھی ہنستی تو اکیلی ہی شروع ہو جاتی اور ہنستی چلی جاتی، ایسے میں اس کا جسم پیٹ کولہے دانت آنکھیں سب کے سب ہنسنے لگتے تھے۔ عابدہ کا لہجہ مڈل کلاس کی عورت کا تھا، اس میں نزاکت، وضع داری بناوٹ اور رکھ رکھاؤ نام کو نہ تھا۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری عورت۔ عابدہ ؛
راوی قیوم ( یعنی مصنفہ) کی زبانی۔

 

قیوم کے سرپرست اور بڑے بھائی کی بیوی کی کزن۔ شادی شدہ، شوہر سے ناخوش، فربہی مائل، باتونی، کسی چھوٹے محلے کی رہنے والی۔

”وہ آرام سے میری چارپائی پر بیٹھ گئی۔ عمر میں وہ مجھ سے چھوٹی ہو گی لیکن جسم کی ساخت سے لگتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے اور اسی رعایت سے اس کی باتوں میں ایک کھلا ڈلا پکا پن تھا۔ وہ دھنسنے والی عورت تھی اس کے ہاتھ پاؤں اتنے گندمی تھے جیسے ابھی ابھی ڈبل روٹی کا میدہ گوندھتے ہوئے آئے ہوں۔ جسم سے وہ مضبوط نظر آتی تھی اس کی گالوں میں گڑھے پڑتے تھے وہ رسم و رواج، محاورے، شگون کی جکڑ بند عادتوں کی سخت تربیت میں پلی لگتی تھی۔ اس کی ساری سوچ میں اپنی سوچ کا شائبہ تک نہیں تھا، ایسے لگتا تھا کہ جیسے وہ کبھی دبدھا، دہرے راستے اور بلاوجہ فکر کرنے سے آشنا ہی نہ رہی ہو۔ میرے لئے ایسی شخصیت تباہ کن حد تک بورنگ اور نئی تھی۔

 

میرے سامنے متوسط طبقے کی ایک گرہستن بیٹھی تھی جس کا جسم چوکی پر بیٹھ کر لکڑی کی ڈوئی چلانے کا عادی تھا۔ اس کے گھٹنے ٹخنے ہاتھ اور پاؤں سب آٹا گوندھنے کی غمازی کرتے تھے۔ حالانکہ وہ دبلی تھی لیکن اس کا جسم جائز جگہوں پر ایسے بھرا ہوا تھا کہ وہ گول گول چربیلی دکھائی دیتی تھی۔ اس کے کندھے کولہے ٹخنے کلائیاں سب بھاری تھے، پیٹ نہیں تھا لیکن پشت سے کمر چوڑی تھی۔ عابدہ کو ماڈرن لباس کا سلیقہ نہیں تھا وہ جب بھی تیار ہوتی، کثرت سے ہوتی اور اس کثرت کی وجہ سے بے ہودہ لگتی۔

بنی ٹھنی عابدہ برتھ ڈے کا ایسا کیک لگتی تھی جس کو دیکھ کر دل یک دم اداسی سے بھر جاتا۔ عابدہ جب بھی ہنستی تو اکیلی ہی شروع ہو جاتی اور ہنستی چلی جاتی، ایسے میں اس کا جسم پیٹ کولہے دانت آنکھیں سب کے سب ہنسنے لگتے تھے۔ عابدہ کا لہجہ مڈل کلاس کی عورت کا تھا، اس میں نزاکت، وضع داری بناوٹ اور رکھ رکھاؤ نام کو نہ تھا۔ وہ بڑی ہی معمولی عورت تھی، بل کہ ٹائپ کی حد تک مڈل کلاسی تھی اس کے نظریات، بول چال سوچ، مذہبی عقائد سب پر مڈل کلاس کی چھاپ گز گز پر پرنٹ کی ہوئی تھی۔

عابدہ کی مذہبی اور دنیاوی تعلیم چونکا دینے والی نہ تھی۔ بدی اور نیکی کا تصور اس کے ذہن میں الگ الگ خانوں میں بند تھا یوں سمجھئے وہ پاکٹ سائز بہشتی زیور تھا۔ ڈر جاتی تو آیت الکرسی پڑھتی، خیالات غلط راستے پر گھسیٹتے تو سورہ الناس پڑھ کر سینے پر دم کر لیتی۔ اس کے باوجود اس میں ایک خاص قسم کی پریکٹیکل عقل تھی۔ اشیائے خوردنی کی قیمتیں ٹرینوں کے کرائے اور اوقات، موسمی پھلوں کی سرد گرم خاصیتیں، کپڑوں کا ناقص اور بڑھیا پن جانچنے کے سادہ طریقے زیور کو دھلوانے کے فائدے اور نقصانات، رشتوں کی آٹھویں پیڑھی تک مکمل آگہی، صدری نسخوں میں رتی ماشے تک تفصیل، خونی اور زبانی رشتوں کے متعلق محاورے، رسومات کی درست بجاآوری اور ایسے ہی کئی معاملات میں اس کی رائے پختہ تھی۔ ان باتوں میں اپنی رائے کے خلاف وہ کچھ نہیں سن سکتی تھی اور اس کے علاوہ کسی اور بات میں دلچسپی لینا اس کے بس کی بات بھی نہ تھی۔ عابدہ کے امر اور نہی بالکل فکس تھے۔ ”

 

تیسری عورت، امتل ؛
راوی قیوم ( یعنی مصنفہ) کی زبانی۔

”امتل عقلاً اور جسماً ریڈیو سٹیشن کے لئے کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ اس کی شکل جثے اور ہئیت کی عورتیں یہاں وہاں سارا دن رہتی تھیں۔ وہ مختلف پروڈیوسروں کے کمرے میں بیٹھی پائی جاتی، وہ ریڈیو پر بڑی مقبول تھی، ہر کسی سے ٹھٹھہ مذاق کرنا، خوشدلی سے دوسروں کے مذاق سہنا، وقت بے وقت سازندوں کی مالی مدد کرنا، باوردی چپڑاسیوں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ان کے گھر والوں کی خیریت پوچھنا، امیر آرٹسٹوں سے بلا تکلف لفٹ مانگ لینا، نوجوان لڑکیوں سے ان کے سکرپٹ مانگ کر پڑھنا اور اچھے جملوں پر داد دینا، موسیقی کے پروڈیوسروں کی خوشامد کرنا اور باوجود یہ کہ اب اس کو پروگرام ملنے بند ہو گئے تھے باقاعدگی سے ہفتے میں دو بار ریڈیو آنا اس کا معمول تھا۔

امتل کی آواز ریگستانی عورتوں کی طرح گھگھی تھی۔ جوانی میں شاید اس کی آواز میں وہ جادو ہو گا جسے بیڈروم سیکسی کہتے ہیں لیکن اب تو کبھی کبھی جب وہ جوش میں بولتی تو اس کے جملے کے جملے غائب ہو جاتے اور آواز نہ نکلتی۔ اس کی آواز سے نزاکت، شائستہ پن اور ملائمت بھی غائب ہو چکی تھی۔

 

امتل کا تعلق عمر سے نہیں تھا وہ دھرتی جتنی بوڑھی اور نئی کونپل جیسی نئی تھی۔ عمر اس کے جسم سے جھڑتی اور بالوں پر چڑھتی جاتی، کبھی وہ پانچ برس کے بچے کی طرح معصوم ہوتی اور کبھی بوڑھی نائیکہ کی طرح خرانٹ اور بے حس بن جاتی۔ وہ کئی قسم کے مرضوں میں مبتلا تھی اور کئی سے شفایاب ہو چکی تھی۔ اس کا جسم سنتھیٹک فائبر کی طرح بے جان تھا اور اس کی سانس سے بی کومپلیکس، اینٹی بایوٹک کوڈ لیور آئل اور ملٹی وٹامنز کی بو آتی تھی۔ اسی سے مل کر مجھے پتہ چلا کہ اچھا یا برا کچھ نہیں ہوتا۔

وہ ہر کام کرنے کے بعد ، ہر حادثہ سہ جانے کے بعد بھی ہر قسم کے پچھتاوے سے بے نیاز تھی۔ امتل کی زندگی لمحہ بہ لمحہ چلتی تھی اس لئے ماہ و سال مل کر اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ وہ وقت کے بھاری ہتھوڑے سے ہر لمحہ بے پروا تھی۔ کبھی کبھی وہ بڑی کنواری اور بڑی کھوئی ہوئی نظر آنے لگتی۔

امتل بہت زیادہ جی چکی تھی۔ ان گنت لوگوں سے ملی تھی۔ اس کے تمام خوبصورت کنارے مینارے رنگ روغن منقش پھول بوٹے ختم ہو چکے تھے۔ لیکن اس قدر استعمال شدہ ہونے پر بھی اس میں ایک حزن اور خوبصورتی ایسی اداسی بھی پیدا ہو گئی تھی جو پرانے کھنڈروں میں ہوتی ہے۔ ایک طرح سے وہ بجھا ہوا سگریٹ تھی، بے دھیانی بے مصرفی کی انتہا لیکن کبھی کبھی آگ کے شعلے اس سگریٹ میں خود بخود نکلنے لگتے۔

 

ریڈیو پر وہ اور ہوتی، گھر پر اور، اور بازار میں اس کا رنگ بالکل انوکھا ہوتا۔

بچوں کی طرح وہ کسی بھی طرح کے پائیدار یا دیرپا جذبات سے عاری تھی۔ اس کا لڑنا، جھگڑنا، پیار، محبت و نفرت سب موڈ کے تابع تھے۔ کسی تھیوری مسلک دباؤ کے تحت وہ کچھ نہ کر سکتی تھی، وہ سب کچھ بغیر سوچے سمجھے کرتی۔ جی چاہا مدد کر دی۔ دل میں آیا گالی دے دی۔ کسی کو کھانا کھلا دیا۔ نیا پرس عطا کر دیا۔ کڑھا ہوا دوپٹہ اس کے کندھوں پر ڈال کر اس کا بوسیدہ دوپٹہ اپنے پر لے لیا۔ کسی سے بیس روپے ادھار مانگے اور شکریہ بھی ادا نہ کیا۔

مدد کرنے، تحفہ دینے، کسی کو الو بنانے اور تعریف کرنے کے لئے اس کا کوئی فلسفہ نہ تھا۔ وہ لہر تھی۔ غیبت پر طبیعت مائل ہوئی تو سارے بخیے ادھیڑ دیے۔ جوش اور ہمدردی غالب آ جاتی تو پاؤں پڑ جاتی، معافی مانگ لیتی۔ وہ وقت ضابطے اور طریقے کی پابند نہیں تھی۔ اس کا سارا نظام موڈ فوری اور عارضی نوعیت پر چلتا تھا۔ اس لئے اس کی رائے پر چلنا مشکل تھا کیوں کہ اس کی دوستی اور دشمنی کے تمام نظریے منٹ کی سوئی کے تابع تھے۔

 

اسے معلوم نہ تھا کہ روٹھا کیسے جاتا ہے اور کتنی دیر تک روٹھے رہنے میں عزت بنتی ہے۔ اس کی باتوں میں سچائی اور کمینہ پن تھا۔ کبھی کبھی جیسے کھلی کھڑکی سے بارش کا ریلا اندر آ جائے وہ بڑی بے بس قسم کی گفتگو بھی کرنے لگتی۔ سچ وہ صرف اس لئے بولتی تھی کہ اب اس کے لیے جھوٹ اور سچ برابر ہوچکے تھے۔ وہ اپنے جسم سے بے پرواہ، عزت و شہرت سے بے نیاز، روپے پیسے سے غنی تھی۔

اس کا سونے کا ڈھنگ بھی عجیب تھا۔ صوفے پر نیند آئی تو وہاں ڈھیر ہو گئی، کرسی پر اونگھ آئی تو ملکہ وکٹوریہ کا بت کرسی پر خراٹے لینے لگا اور پلنگ پر سوئی ہو تو ایسے جیسے دلدل میں بھینس دم چھوڑے پڑی ہو ”۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author