نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میری عدالت میں جنرل ضیا کو صدر نہ کہیں، چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی

سپریم کورٹ نے حکومتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو غیر قانونی قرار دے کر مسترد کر دیا اور اٹارنی جنرل کو جلد نیا انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی ہدایت،، اٹارنی جنرل دس دنوں میں کمیشن کے بارے میں عدالت کو آگاھ کریں۔۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاہے کہ انکی عدالت میں آمر ضیا کو صدر نہ کہا جائے،وہ آرمی چیف تھے انہوں نے ڈنڈے کے زور پر حکومت کی ۔ انہوں نے یہ ریمارکس آج سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوروان دیے ۔

سپریم کورٹ نے وزارتِ دفاع ، آئی بی، ایم کیوایم، اعجازلاحق اور پی ٹی آئی کی فیض آباد دھرنا کیس نظرِ ثانی کی درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دیں۔ سپریم کورٹ نے حکومتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو غیر قانونی قرار دے کر مسترد کر دیا اور اٹارنی جنرل کو جلد نیا انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی ہدایت،، اٹارنی جنرل دس دنوں میں کمیشن کے بارے میں عدالت کو آگاھ کریں۔۔۔ عدالت نے شیخ رشید کونوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت دی کہ آئندہ سماعت پر پیش ہوں ورنہ درخواست عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کردی جائیگی۔۔۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے گیارہ نظر ثانی درخواستوں پر سماعت کی۔۔۔۔۔۔ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ مسٹر ابصار عالم کہاں ہیں؟اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ بتایا گیا ہے کہ ابصار عام راستے میں ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ابصار عالم نے اپنے بیان میں وزارتِ دفاع کے ملازم پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ ان الزامات کے بعد بھی نظرِ ثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابصار عالم کے لگائے الزامات دیکھے ہیں، ہم نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ ابصار عالم فیض آباد دھرنے کے وقت کیا تھے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فیض آباد دھرنے کے وقت ابصار عالم چیئرمین پیمرا تھے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ بہتر ہو گا پہلے فیض آباد دھرنا ازخود نوٹس میں دی گئی ہدایات پڑھ دیں۔۔۔۔ عدالت میں چیف جسٹس نے پوچھا کہ وفاقی حکومت نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب بنائی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 19 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے کمیٹی تشکیل دی ہے جو تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر رپورٹ دے گی۔۔۔۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ابھی تک کمیٹی نے کوئی کام نہیں کیا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 26 اکتوبر کو کمیٹی کا اجلاس ہوچکا ہے۔جس پرجسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کس قانون کے تحت بنی اور اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کمیٹی بنا کر صرف رپورٹس آتی رہیں گی، ہوناکچھ نہیں۔انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ سمیت سب کہہ رہے ہیں فیض آباد دھرنا فیصلہ ٹھیک ہے، حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، کیا کمیٹی نے ٹی او آر بنائے ہیں ان میں سب ذمے داران سے حساب لیا جائے گا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پورے ملک کو ایک جماعت نے یرغمال بنائے رکھا، بیرون ملک سے ایک شخص امپورٹ کر کے ملک کو یرغمال بنایا گیا اور وہ واپس لوٹ گیا، حکومت میں تحقیقات کرنے کی قابلیت ہی نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بچوں سے پوچھیں تو وہ بھی آپ سے بہتر جواب دے سکتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ کیا اب ریاستی امور آئین کے مطابق چلائے جارہے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کمیٹی کے ٹی او آر سے تو لگتا ہے آپ نے سب کو بری کردیا، دھرنا کیس میں عدالت نے پوری ہسٹری دے دی، ہم نے پوچھا تھا دھرنے کا ذمے دار کون تھا۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے کمیٹی کا ایک بھی ٹی او آر درست نہیں بنایا، حکومت چاہتی ہے سب کو ذمے دار ٹھہرا کر کسی کے خلاف کارروائی نہ ہو، اربوں کا نقصان ہوا مگر حکومت کو پرواہ ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کمیٹی رپورٹ کا کیا ہوگا؟ کیا کمیٹی رپورٹ کابینہ میں پیش ہوگی؟ کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش ہوگی تاکہ کارروائی ہوسکے؟ ہم کمیٹی رپورٹ کا جائزہ نہیں لیں گے۔چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ عدالت آپ کا کام کیوں کرے؟ فیض آباد دھرنا فیصلے پر عملدرآمد کرانا حکومت کا کام ہے، ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ کمیٹی کا حصہ ہیں وہ کیا کام کریں گے؟ کتنے پل گرائے گئے؟ کتنا نقصان ہوا؟ یہ سب کون دیکھے گا؟عدالت میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے کمیٹی صرف تحقیقات کے لیے بنائی ہے، کمیٹی اپنی رپورٹ کے ساتھ سفارشات دے گی۔۔۔۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے، ایک کاغذ کے ٹکڑے سے ملک نہیں چلایا جاسکتا، ہمیں بتائیں کون سے رولز آف بزنس اور کس قانون کے تحت کمیٹی بنائی گئی،۔چیف جسٹس نے کہا کہ جس طرح حکومت معاملات چلانا چاہ رہی ہے ایسے نہیں ہوگا، عدالت یہ قرار دے گی کہ حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس میں کچھ نہیں کیا، ہم جاننا چاہتے ہیں فیض آباد دھرنے کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟چیف جسٹس نے کہا کہ 6 فروری 2019ء سے آج تک فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا، اس طرح تو یہاں ہر کوئی کہے گا میں جو بھی کروں مجھے کوئی پوچھ نہیں سکتا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومت سیدھا سیدھا کہہ دے کہ ہم کام نہیں کریں گے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن بنائیں گے، جیسے عدالت حکم کرے گی اس پر عمل ہوگا۔سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آئین پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمے داری ہے، حکومتی کمیشن کی تحقیقات شفاف ہونی چاہئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی سے سیکھ کر حکومت ایسا اقدام کرے کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں، جب قانون ہاتھ میں لینے والوں کو سزا ملے گی تو لوگ سبق لیں گے۔۔۔۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیاحکومت واقعی فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل کرنا چاہتی ہے؟ کون سا قانون کہتا ہے نظرثانی دائر ہو جائے تو فیصلے پر عمل نہیں ہوگا؟ کیا حکومت نے کینیڈین حکومت سے رابطہ کیا تھا؟ کیا لوگ کینیڈا سے یہاں آکر دھرنے دیں کوئی نہیں پوچھے گا؟۔۔انہوں نے کہا کہ کیا پاکستانی کینیڈا جاکر اس طرح دھرنے دے سکتے ہیں؟ دوسرے ممالک تو اپنے ایک ایک شہری کی حفاظت کرتے ہیں، پاکستان میں کوئی نہیں پوچھتا، چاہے جو کرو، کبھی دبئی چلے جاؤ، کبھی دوسرے ملک، ہمارے لوگ ملک اور دین دونوں کو بدنام کر رہے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومتی کمیٹی کے ٹی او آر سے تو سب بری ہو جائیں گے، معذرت کے ساتھ لیکن یہ کمیٹی قابل قبول نہیں ہے، عدالت اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی سے خوش نہیں ہے۔۔۔۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومت کی بنائی گئی کمیٹی غیر قانونی ہے، اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے سامنے کوئی پیش نہیں ہوگا۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں تاریخی فیصلہ دیا، جب تک آئین و قانون پر عملدرآمد نہیں ہوگا لوگوں کی تکالیف ختم نہیں ہوں گی۔۔۔۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں کوئی بھی اٹھ کر راستے بند کردیتا ہے اور ملک کو نقصان پہنچا کر باہر چلا جاتا ہے، اس وقت کی حکومت تھی اچھی یا بری مگر موجودہ حکومت اب کیا کر رہی ہے، کیا اس وقت حکومت نے کینیڈا کو خط لکھ کر اس شخص سے متعلق تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، کسی کو اس ملک کی پرواہ نہیں ہے۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یہ ملک صرف اشرافیہ کے لیے نہیں ہے، 70 سال سے ملک میں اشرافیہ کا قبضہ ہے۔۔۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک شخص کو امپورٹ کرنے کا مقصد کیا اس وقت کی حکومت کو برطرف کرنا تھا؟ کیا دوبارہ ایک شخص کو امپورٹ کر کے مستقبل میں بھی خدمات لی جائیں گی؟ کیا کینیڈا سے آئے اس شخص نے اپنے ٹکٹ کی ادائیگی خود کی تھی؟ ممکن ہے کمیٹی تحقیقات سے یہ بھی تعین ہو جائے پیمرا اور الیکشن کمیشن اس وقت آزاد نہیں تھے۔۔۔۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومت بتا دے تو ہم کیس بند کردیتے ہیں، ہم پھر انتظار کرتے ہیں فیض آباد کی طرح ایک اور سانحہ ہو، کیا ہمیں باہر کے دشمن سے خطرہ ہے یا اندرونی خطرات ہیں؟سپریم کورٹ نے حکومتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی مسترد کردی اور اٹارنی جنرل کو جلد نیا انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی ہدایت کردی۔۔۔۔چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرا میں لوگ کام نہیں کرتے، سپریم کورٹ میں آکر کام کا بتاتے ہیں، سابق چیئرمین پیمرا نے ایک رپورٹ جمع کرائی کیا آپ لوگوں نے پڑھی؟سپریم کورٹ نے کہا کہ جب سوالات کیے گئے تو پیمرا کے وکیل نے دلائل دینے سے انکار کر دیا،اور وہ روسٹرم چھوڑ کر جانے لگے تو چیف جسٹس نے ان کو کہا کہ ہم بلیک میل نہیں ہونگے۔۔ آپ کو جان ہے تو چلے جائیں۔۔چیئرمین پیمرا سے نظرِ ثانی کی درخواست واپس لینے کا پوچھا گیا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ پیمرا چئیرمیں نے کہا کہ اس وقت بورڈ کی منظوری سے نظر ثانی دائر کی گئی ۔ لیکن اب واپس لینا چاھتے ہیں اس وقت ہم سے غلطی ہوگئی معزرت چاھتا ہوں۔۔ فیض آباد دھرنا عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران پیمرا کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا وکیل اپنے مؤکل کو عدالتی احکامات نہیں بتائے گا تو ہم نہیں سنیں گے، یہ فٹبال کا کھیل نہیں ہے، جس پر پیمرا کے وکیل کا کہنا تھا مجھے عدالت بات کرنے دے، خلل ڈالا جا رہا ہے، چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا وکیل کا یہ رویہ ہےکہ کہے عدالت خلل ڈال رہی ہے۔وکیل پیمرا نے کہا مجھے نہیں سننا تو میں جا رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جائیں، آپ کو ہم نہیں سنتے، چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد پیمرا کے وکیل عدالت سے چلے گئے۔چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سلیم بیگ سے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے کہا تھا نظرثانی دائر کریں؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ پیمرا کی لیگل ٹیم ہوتی ہے، سب نظرثانی کر رہے تھے، ہم نے بھی کر دی، چیئرمین پیمرا کے بیان پر چیف سٹس نے کہا یہ بھیڑچال کی درست مثال ہے، سب کر رہے ہیں تو ہم بھی وہی کریں گے۔چیئرمین پیمرا کا کہنا تھا پیمرا نے خود فیصلہ کیا کہ نظرثانی دائر کریں گے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے آپ سچ نہیں بتارہے کہ کس نے کہا تھا نظرثانی دائر کریں، اللہ آپ کو لمبی عمر دے لیکن سب کو مرنا ہے، ہمت کرکے سچ بولیں، آپ کے ہاتھ ہم مضبوط کرتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا ہم نے کہا جنہوں نے آپ کے معاملات میں مداخلت کی ان کیخلاف کارروائی کریں، آپ سے سچ نہیں بولا جائے گا، نظرثانی دائر کرنے کا جو فیصلہ ہوا بورڈ کا فیصلہ کہاں ہے؟ جس پر سلیم بیگ نے کہا کہ تحریری طور پر بورڈ کا فیصلہ موجود نہیں ہے، ہماری غلطی تھی کہ ہم نے نظرثانی دائر کی۔۔۔۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیمرا کے لیگل ڈائریکٹر سے استفسار کیا کس نے کہا تھا نظرثانی دائر کریں؟ کیا چیئرمین پیمرا نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے نظرثانی دائر کی؟ یا تو آپ چیئرمین پیمرا کو خوش کر لیں یا پاکستان کا قانون بچا لیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا آج ہم چیئرمین پیمرا کو پیمرا کا اور اپنا قانون پڑھائیں گے، آپ نے اپنا قانون پڑھا ہوتا تو پتا ہوتا کہ زبانی کوئی فیصلہ نہیں لیا جاتا، چیئرمین پیمرا سچ نہیں بول رہے،کسی خفیہ طاقت نے نظرثانی کا بولا ہو گا۔۔۔۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا قانون کی خلاف ورزی پر ایکشن ہونا چاہیے، نظرثانی کیوں دائر کی گئی؟چیف جسٹس پاکستان نے چیئرمین پیمرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سلیم بیگ آپ کا نام فیض آباد دھرنا کیس میں شامل ہے، آپ کی عمرکتنی ہے؟چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے بتایا کہ اس وقت میری عمر 63 سال ہے، جس پر چیف جسٹس بولے اس وقت کا کیا مطلب؟ آج کی عمر ہی پوچھی ہے کل کی نہیں، اسکول میں کوئی ایسا جواب دے تو استاد کونے میں کھڑا کر دے گا، پھر غلط بیانی کر رہے ہیں، اب چیئرمین پیمرا کہہ رہے ہیں خود نظرثانی کا فیصلہ کیا، آپ کی اور میری عمر میں کم وقت ہوتا ہے انسان کے پاس، کسی بھی وقت بلاوا آسکتا ہے لہذا سچ بولیں۔چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ آپ کس سے ڈرتے ہیں، جس پر چیئرمین پیمرا نے کہا ہم اللہ پاک سے ڈرتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ ابصار عالم نے ریکارڈ سامنے لاکر بہادری کا مظاہرہ کیا، ابصار عالم نے وزیراعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف کو خطوط لکھے، جو ابصار عالم نےکیا وہ سب عوامی عہدیداروں کو کرنا چاہیے، جو کرسی سے اترتا ہے کہتا ہے میں مجبور تھا۔۔۔۔۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا اس وقت نواز شریف وزیراعظم تھے، اس وقت کے وزیراعظم اور چیف جسٹس پاکستان نے ابصار عالم کے خط پر کوئی ایکشن نہ لیا، ابصارعالم کی کسی نے مدد نہیں کی، آپ پر تو کوئی پریشر نہیں ہے تو حقائق بتا دیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا اگر آپ جواب نہیں دیں گے تو ہم سخت حکم دیں گے، آپ کو بار بار موقع دے رہے ہیں کہ بتا دیں کس کے کہنے پر نظرثانی درخواست دائر کی، یہ کوئی گیم نہیں کہ عدالت کے ساتھ ایسے کھیلی جائے، چیئرمین پیمرا صاحب کچھ کہنا ہے تو بتائیں ورنہ ہم اپنا حکم جاری کریں گے۔سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا میرے آپ سے کچھ سوالات ہیں، آپ نے جو وزیراعظم کو خط لکھا اس میں کوئی اور شکایت کی، آپ نے کہا میڈیا میں کچھ غلط عناصر ہیں، آپ کے خط پر وزیراعظم کیا ایکشن لیتے؟ابصارعالم نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت میڈیا حکام کے پاس کچھ ایجنسیوں کے لوگ جاتے تھے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہ آپ کے خطوط کے جوابات دیے گئے یا نہیں؟ ابصار عالم نے کہا میرے خطوط کا جواب نہیں دیا گیا۔چیف جسٹس نے ابصار عالم سے استفسار کیا آپ وزیراعظم ہوتے تو کیا کرتے؟ جس پر ابصار عالم کا کہنا تھا دھمکی آمیز کال میرے ماتحت افسر کو آئی جو میں نے نواز شریف اور آرمی چیف کو فارورڈ کی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ کو کال کس نے کی تھی اور وزیراعظم اس میں کیا کر سکتا تھا، جس پر ابصار عالم نے کہا جو کال مجھے کی گئی اس میں کوئی نمبر نہیں تھا، چیف جسٹس پاکستان بولے ایف آئی اے یا پولیس کال ریکارڈ پر کارروائی کر سکتی تھی، وزیراعظم کوئی تحقیقاتی افسر نہیں ہوتا۔سابق چیئرمین پیمرا نے کہا دھمکی آمیز کال پیمرا میں ریکارڈ ہوئی، جسٹس اطہرمن اللہ کے ماضی کے اور موجودہ میرے حوالے سے کلمات زندگی کا سرمایہ ہیں، نگران وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی تمام صورتحال سے آگاہ کیا تھا، ایجنسی کا حکم نہ ماننے پر میرے خلاف 3 درخواستیں عدالتوں میں دائر ہوئی تھیں، مجھے کچھ عرصے بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، عدالتی حکم پر سچ سامنے لایا ہوں۔چیف جسٹس نے ابصار عالم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا عدالت پر کچھ نہ ڈالیں، آپ آرام سے گھر بیٹھیں، جو باتیں آپ کہہ رہے ہیں اس کا ریکارڈ بھی دیں، آپ کہہ رہے اگر بلایا ہوتا تو پیش ہوتا اس سے تو عدالت بُری بن رہی ہے، ہم نے آپ کو نہیں بلایا آپ خود آئے ہیں۔۔۔۔جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ابصار عالم صاحب، آپ کے الزامات بہت سنجیدہ ہیں، جب آپ چیئرمین پیمرا تھے تب بھی یہ سب باتیں کرنی چاہیے تھیں۔ابصارعالم نے کہا جیو پر شو کرنے والے نجم سیٹھی کے خلاف کارروائی کیلئے فیض حمید نے دباؤ ڈالا، نجم سیٹھی نے جیو پر پروگرام میں اسٹبیلشمنٹ کیلئے ادارہ جاتی کرپشن کا لفظ استعمال کیا، نجم سیٹھی کا پروگرام بند نہ کرنے پر مجھے عہدے سے ہٹایا گیا، چیف جسٹس نے پوچھا کیا آپ کو ہٹانے کی وجہ یہی تھی؟ جس پر ابصار عالم نے جواب دیا یس مائی لارڈ۔جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا آپ کے بعد چیئرمین پیمرا تعینات ہونے والے صاحب تو کہہ رہے ہیں ان پر کوئی دباؤ نہیں، موجودہ چیئرمین پیمرا اُسی دورمیں تعینات ہوئے لیکن کہتے ہیں ان کے کام میں کبھی مداخلت نہیں ہوئی، جس پر ابصار عالم کا کہنا تھا موجودہ چیئرمین پیمرا خوش قسمت آدمی ہیں، ٹی وی چینلز کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر فیض حمید نے انتقام کا نشانہ بنایا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کسی کی پیٹھ کے پیچھے بیان نہیں دیتے، اگر کمیشن بنا آپ وہاں بولیں گے؟ جن پر آپ الزام لگا رہے ان کو بھی بلایا جائے پھر آپ ان کے سامنے بیان دیں، جس پر ابصار عالم نے کلمہ پڑھ کر جواب دیا میں ان کے سامنے یہی بیان دوں گا، مجھے کہا جاتا تھا کہ ایجنسیوں کا بندہ ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ کے خلاف جو مقدمات ہوئے ان کی تفصیل ہمیں دے دیں، سابق چیئرمین پیمرا نے جواب دیا جیو اور ڈان کو نمبروں سے ہٹایا گیا تو میں نے بحال کر دیا تھا جو میرا جرم بن گیا، میں اپنی حد تک صفائی دینا چاہتا ہوں بطور چیئرمین پیمرا اپنی ذمہ داری پوری کی، چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ صفائی نہ دیں، ہم نے پیمرا کو کہا تھاعدالت کے حکم پر عمل کیا جائے۔۔۔۔ آرڈر لکھوانے کے دوران چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے استفسار کیا کہ آپ کا پورا نام کیا ہے۔جس پر چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ میرا نام محمد سلیم ہے۔چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ پھر ہر جگہ سلیم بیگ کیوں بتایا ہے؟ آپ کو اپنا نام ہی نہیں پتہ؟چیئرمین پیمرا کی توجہ پیمرا قانون کے سیکشن 5 کی جانب دلاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کی مہر پر نام کے ساتھ بیگ موجود نہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکم نامے سے بھی بیگ کا لفظ ہٹانے کی ہدایت کر دی اور سوال کیا کہ آپ کی مہر کے ساتھ حکومتِ پاکستان بھی لکھا ہے، آپ حکومت کیسے ہیں؟ سلیم بیگ آپ کچھ پڑھے لکھے تو ہیں ناں؟ آپ کچھ تو بتائیں، آپ کو اپنا نام بھی پتہ نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین پیمرا سے پوچھا گیا کہ انہوں نے نظرِ ثانی درخواست کیوں دائر کی،سلیم صاحب آپ خود بتا دیں اس کے جواب میں کیا لکھیں، چیئرمین پیمرا نظرِ ثانی کی درخواست دائر کرتے وقت کسی اور کے ہاتھوں پپٹ بنے ہوئے تھے۔ ۔۔۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت 15 نومبر تک ملتوی کر دی۔

About The Author