دسمبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستانی کرکٹ کا نوحہ:چند منتشر خیالات۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرکٹ سے مجھے محبت ہے، تھوڑی بہت کھیلی بھی، مگر اسے دیکھنا اچھا لگتا ہے ۔ پچھلے تیس پینتیس برسوں میں بے شمار میچز دیکھے، میری یاداشت میں سب سے تروتازہ حصہ 1987ورلڈ کپ کا تھا، جب سیمی فائنل میں پاکستان آسٹریلیا سے ہار گیا تھا۔ اس ورلڈ کپ کے بہت سے یاد گار لمحات آج تک یاد ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف عبدالقادر کا آخری اوور میں کورٹنی والش کو لگایا گیا چھکا۔ سری لنکا کے خلاف ویوین رچرڈ کی 181رنز کی شاندار اننگ۔ سلیم ملک کی چند عمدہ اننگز، سیمی فائنل میں سلیم یوسف کی دلیرانہ بیٹنگ وغیرہ۔
اس سے اگلا ورلڈ کپ 1992کا تھا جو میرے ایج گروپ میں سے بہت کم لوگ بھلاسکتے ہیں۔ رمضان تھے، سحری کے وقت اٹھ کر نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میںکھیلے گئے میچز دیکھنا ایک پرلطف تجربہ تھا۔ 1996ورلڈ کپ بھارت میں تھا، پاکستان کوارٹر فائنل میں انڈیا سے ہار گیا تھا۔ وہ میچ بھی نہیں بھلا سکتے۔ 1999ورلڈ کپ کے فائنل میں آسٹریلیا سے شکست بھی اچھی طرح یاد ہے، پہلے کھیلنے کے غلط فیصلے نے ورلڈ کپ ہرا دیا۔
اگلے ورلڈ کپ2003 میں پاکستان بہت بری طرح ہارا۔ وقار یونس تب کپتان تھے ، وہ ناکام ہوئے، وسیم اکرم ، ثقلین مشتاق بھی ۔ سعید انور نے بھار ت کے خلاف سنچری بنائی مگر پاکستان میچ ہار گیا۔ 2007ورلڈ کپ میں نہ صرف پاکستان پہلے راﺅنڈ میں باہر ہوگیا بلکہ کوچ باب وولمر کی موت نے عجیب وغریب فسانے بھی تخلیق کئے۔ ان دونوں ورلڈ کپس میں شکست کے بعد ٹیم میں تبدیلیاں ہوئیں۔
2011کا ورلڈ کپ پھر بھارت میں تھا، پاکستان سیمی فائنل میں انڈیا سے ہار گیا۔ یہ بھی افسوسناک شکست تھی، سچن ٹنڈولکر نے رنز کئے ۔ پاکستانی بیٹنگ ناکام ہوئی ، تب شاہد آفریدی کپتان تھے ، مصباح الحق نے میچ کو آخر تک لے جانے کی کوشش کی مگر بات نہ بنی۔ اگلا ورلڈ کپ 2015آسٹریلیا میں ہوا، وہی جس میں وہاب ریاض نے طوفانی سپیل کرایا، اگرچہ پاکستان کوارٹر فائنل ہی میں آسٹریلیا سے وہ میچ ہار گیا تھا۔ 2019ورلڈ کپ میں سرفراز احمد کپتان تھے، اس ٹورنامنٹ کے دوسرے ہاف میں ٹیم اچھا کھیلی، مگر سیمی فائنل میں نہ پہنچ سکی۔
2023ورلڈ کپ میں پاکستان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ پانچ میں سے تین میچ ہارے جا چکے ہیں۔ ابتدائی دو میچ نیدرلینڈ اور سری لنکا کو ہرا کر جیت گئے جبکہ انڈیا، آسٹریلیا اور دو دن پہلے افغانستان تک سے ہار گئے۔ ابھی چار میچز باقی ہیں۔ جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، بنگلہ دیش اور انگلینڈ کے خلاف ہیں۔ اگر ہم وہ چاروں میچز جیت گئے تو امکانات ہوسکتے ہیں کہ سیمی فائنل میں پہنچ جائیں۔ اگر چار میں سے تین میچ جیت گئے اور ایک دو میچ میں بڑے مارجن سے جیت ہوئی۔ رن ریٹ بہتر ہوا تب بھی چانس بن سکتا ہے ، اگر آسٹریلیا ، انگلینڈ وغیرہ اپنے میچز اپ سیٹ ہار جائیں۔اس وقت بھارت، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے سیمی فائنل میں جانے کے امکانات خاصے روشن ہیں، چوتھی ٹیم کے لئے آسٹریلیا ، پاکستان یا انگلینڈ میں مقابلہ ہوسکتا ہے۔
اس وقت ٹورنامنٹ میں سب سے فیورٹ ٹیم بھارت کی ہے، ہر اعتبار سے مکمل اور بیلنس ٹیم۔اس کی بیٹنگ لائن بہت مضبوط، طاقتور اور جارحانہ اندازسے کھیلنے والی ہے، فاسٹ باولرز عمدہ فارم میں ہیں اور تسلسل سے وکٹیں لے رہے ہیں، ٹورنامنٹ کے دو بہترین سپنر ان کے سکواڈ میں ہیں، پانڈیا جیسا آل راﺅنڈ بھی انہیں حاصل ہے۔ بظاہر کاغذات پر وہ فائنلسٹ ٹیم لگ رہی ہے،بشرطیکہ سیمی فائنل میں ان کا بہت ہی برا دن نہ ہوا ۔
نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں بھی مضبوط اور بیلنس ہیں۔ خاص بات یہ کہ ان کی بیٹنگ میں شعلے برساتے بلے باز ہیں، تیز جارحانہ انداز سے کھیلنے والے اور اننگ سنبھال کر چلنے والے بھی۔ جنوبی افریقہ کے تجربہ کار اوپنر ڈی کاک زبردست فارم میں ہے اور سنچری پر سنچری بنا رہا۔ کلاسن ان کا بہت خطرناک اور جارحانہ کھیلنے والا کھلاڑی ہے۔ یہ وہ ٹیم ہے جو کسی بھی میچ میں ساڑھے تین سے چار سو رنز بنا سکتی ہے۔ ان کی باﺅلنگ بھی مضبوط ، اچھے تیز باﺅلر اور عمدہ سپنر۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم بھی بیلنس اور خطرناک ہے، کانوائے جیسا جارحانہ انداز سے کھیلنے والا اوپنر، رویندرا کی صورت میں انہیں ایک بونس ہارڈ ہٹر مل گیا ہے جبکہ ان کے مڈل آرڈر میں مچلز بہت عمدہ سٹروک پلئیر ہے، چیپ مین تیزی سے رنز کر سکتا ہے،ٹام لیتھم اچھا بلے باز ہے جبکہ امید ہے کہ آخری میچز میں تجربہ کار کپتان ولیمسن بھی دستیاب ہوں گے۔باﺅلنگ میں بولٹ، ساﺅتھی ، ہنری اور سپن میں سینٹنر جیسا خطرناک سپنر اور رویندرا۔ ہر اعتبار سے مکمل پیکیج ۔
آسٹریلیا کی ٹیم کے خاصے مسائل چل رہے تھے، اوپنرز رنز نہیں کر پا رہے تھے، ڈیوڈ وارنر کی فارم اچھی نہیں تھی، مچل مارش بھی زیادہ رنز نہیں کر پا رہا تھا، ٹریوس ہیڈ ان فٹ ہے،سٹیو سمتھ جیسا بلے باز ٹورنامنٹ میں بری طرح ناکام ہوا ہے، اسی وجہ سے ابتدائی میچز میں آسٹریلیا کودھچکے لگے۔ پاکستانی باﺅلنگ نے البتہ وارنر اور مارش کو زبردست فارم دلا دی ہے۔ باﺅلنگ میں ان کے پاس ہیزل وڈ جیسا نپا تلا باﺅلر ، سٹارک جیسا تیز ، کمنز جیسا شاطر فاسٹ باﺅلر جبکہ ایڈم زمپا جیسا عمدہ لیگ سپنر اور میکسویل جیسا مفید سپنر موجود ہے۔
پاکستانی ٹیم کو اب دیکھ لیں۔ ہم آﺅٹ آف فارم اوپنرز کے ساتھ ورلڈ کپ میں گئے، یہ امید کر کے کہ شائد فخر زماں فارم میں آ جائے ، مگر کیسے ؟ فخر سے مسلسل رنز نہیں ہو رہے تو اسے ڈراپ کر دیتے ، اس کی جگہ صائم ایوب جو رنز کے انبار لگا رہا ہے، کیریبین لیگ میں اس نے چھکوں کی بارش کر دی تھی۔ اب قائداعظم ٹرافی میں ڈبل سنچری بنا دی۔ صائم ایوب کو اگر اوپننگ میں شامل کیا جاتا اور اسے پانچ میچز ملے ہوتے تو وہ پاکستان کو نہایت تباہ کن جارحانہ آغاز دے سکتا تھا۔ یہ تو پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ عبداللہ شفیق دباﺅ میں مواقع ملنے پر بھی کامیاب ہوگیا اور مسلسل رنز کر رہا ہے۔
بابر اعظم دباﺅ کا شکار رہے اور اس طرح کھل کر نہیں کھیل پا رہے۔ بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ پہلے پانچوں نمبر پر ایک ہی سٹائل کے سپیشلسٹ بلے باز ہیں جو کرکٹنگ شاٹس کھیلتے ہیں، ان میں چھکے لگانے والے کھلاڑی ہی نہیں۔ ان کا نیچرل سٹائل ہی چھکے لگانے کا نہیں۔ صرف افتخار احمد ہی ایسا کھلاڑی ہے جو چھکے لگا سکتا ہے۔ شاداب خان اور نواز تو دراصل آل راﺅنڈرز کے نام پر تہمت بن چکے ہیں، باﺅلنگ ہوتی ہے نہ بیٹنگ۔ اسامہ میر کی صورت میں ایسا لیگ سپنر لے کر گئے جس کے پاس ورائٹی ہے نہ گیندوں پر کنٹرول ۔ اوسط سے بھی کم درجے کے تین سپنر پاکستان لے کر گیا ۔ایک میچ میں بھی وہ مخالف بلے بازوں کو پریشان نہیں کر سکتے۔ وکٹ نہیں لے سکتے اور رنز روکنے کی سکت بھی نہیں۔ فاسٹ باﺅلرز میں شاہین شاہ اپنی بہترین فارم میں نہیں مگر پھر وہ بھی کچھ نہ کچھ کر رہا ہے۔ حارث رﺅف کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ بیٹنگ پچوں پر تیز گیندوں سے پٹائی زیادہ ہوگی۔ وہ مسلسل پٹ رہا ہے اور کپتان اسے بار بار شروع کے اوورز میں لگا کر پٹوار ہا ہے۔ نجانے یہ ایک دوسرے سے بدلہ لے رہے ہیں یا قوم کو ذلیل کر رہے ؟
پاکستان کی ٹیم میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ٹیم بیلنس اور مضبوط نہیں۔ پرانے سٹائل کی دفاعی کرکٹ ہم کھیل رہے ہیں، جبکہ کرکٹ اب بالکل ہی بدل چکی ہے۔ ہمارا کپتان دفاعی سوچ والا اور ڈرا ہوا کھلاڑی ہے۔ کوچ اور مینجمنٹ کو شائد ٹیم سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ ایک میچ میں بھی بہتری نظر نہیں آرہی۔ انڈیا جیسی پچوں پر ماٹھے، ایوریج سپنرز کے ساتھ ہم بڑے سے بڑا ہدف کا بھی دفاع نہیں کر سکتے۔ یہ بات میرے جیسے عام شائق سمجھ رہے ہیں ،نجانے کپتان، سلیکٹرز کوکیوں نظر نہیں آئی۔
پاکستانی ٹیم کا مسئلہ یہ نہیں کہ گروپنگ ہے، آپس کی لڑائیاں یا دل سے نہیں کھیل رہے۔ نہیں یہ مسئلہ نہیں۔ فٹ نیس بے شک ان کی مثالی نہیں، مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان میں وہ کوالٹی نہیں جو اس ورلڈ کپ کی چار بہترین ٹیموں میں سے آنے کے لئے ضروری ہے۔ مسئلہ کیپیسٹی کا ہے جو چند دنوں میں دور نہیں ہوسکتی۔
وہ سب لوگ مجرم ہیں ، جنہوں نے اس ورلڈ کپ کے لئے ایسی ٹیم بھیجی۔ایشیا کپ ہی میں ہم سب جان گئے تھے کہ ورلڈ کپ میں کیا ہوگا۔ اگر چیف سلیکٹر انضمام الحق جرات اور دیانت داری سے کام لیتے تو اپنے بھتیجے اور دیگر چلے ہوئے کارتوسوں کی جگہ ٹیلنٹڈ نسبتاً ناتجربہ کار کھلاڑیوں کو بھیج سکتے تھے۔ ایک نالائق پرانے کھلاڑی سے ایک اہل نوجوان کھلاڑی بہتر ہے۔ یہ عبداللہ شفیق نے بتا دیا ہے۔ افغانستان کے میچ میں ان کے نوجوان سپنر نورا حمد نے بھی یہ سمجھا دیا ہے۔
پاکستانی ہونے کے ناتے ہم اب بھی امید کر رہے ہیں کہ اگلے چار میچ میں پاکستانی ٹیم کوئی کرشمہ کر دکھائے۔ اللہ کرے ایسا ہوجائے، مگر قدرت کے بعض قوانین ہیں جن میں اہل ہی ہمیشہ نااہلوں پر حاوی رہتے ہیں۔ پاکستانی ٹیم کو سیمی فائنل اور فائنل تک پہنچانے کے لئے لگتا یہی ہے کہ قدرت کو اپنے نیچرل لاز توڑنے پڑیں گے۔ روٹین میں تو ہم ساتویں ، آٹھویں نمبر پر ہی آئیں گے۔

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author