نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مریم نواز کا جلسہ اور تگڑم دستوری کا دعویٰ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعر کرہ ارض تگڑم دستوری نے دعویٰ کیاہے کہ حماس کا اسرائیل پر حملہ لاہور کے علاقے ٹھوکر نیاز بیگ میں مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر و چیف آرگنائزر محترمہ مریم نوازشریف کے فقیدالمثال جلسہ سے لوگوں اور ذرائع ابلاغ کی توجہ ہٹانے کے لئے ہے۔

ان کے بقول محترمہ مریم نواز کے جلسوں میں عوام کی والہانہ شرکت اور قائد انقلاب میاں محمد نوازشریف کی وطن واپسی کے اعلان سے جس طرح عوام کے سوکھے چہرے مسرت کے گلابوں سے کھلنے لگے ہیں اس سے گھبراکر سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے وکیل سردار عبداللطیف کھوسہ کی معرفت حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو پیغام بھجوایا تھا ’’بھائی کچھ کرو ورنہ نوازشریف آجائے گا‘‘۔

سردار لطیف کھوسہ نے جونہی اسماعیل ہانیہ کو امید مسلم امہ کا پیغام پہنچایا انہوں نے فوراً سائفر سازش کے بانی مبانی امریکی سامراج کے لاڈلے اسرائیل کو سبق سیکھانے کے لئے پانچ ہزار راکٹ مروادیئے۔

تگڑم دستوری مزید بھی کچھ کہہ رہے ہیں لیکن اسے یہاں نقل کرنا بھوترے ہوئے انقلابیوں معاف کیجئے گا (ن) لیگیوں سے پنگا بڑھانے کے مصداق ہے۔ ہم ٹھہرے صلح جو قسم کے بندے پھر ان دنوں مسلم دنیا مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر کچھ جذباتی بھی ہے اس لئے بچ بچا کے سفر طے کرنے میں ہی عافیت ہے۔

البتہ تگڑم دستوری کی اس بات سے پچاس فیصد اتفاق کرنا بنتا ہے کہ حماس کا اسرائیل پر حملہ محترمہ مریم نوازشریف کے ’’تاریخ ساز‘‘ جلسہ کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے ہے۔

اب دیکھئے نہ خدا جانے استاد مشتاق احمد کو کسی نے کچھ کہا ہی ہوگا جبھی تو انہوں نے سندھ میں کچے کے ڈاکوئوں کی وجہ سے سانس لیتی پیپلزپارٹی پر نیم خودکش حملہ کرنا ضروری سمجھا۔ چلیں خیر استاد جی کے جیالے دوست ان سے خود ہی نبڑ لیں گے۔ استاد ہمارے لائق احترام دوست ہیں پیپلزپارٹی اور باچا خانیوں کے بڑے ویری ہیں۔

خیر اس قصے کو یہیں چھوڑیئے ہم ٹھوکر نیاز بیگ لاہور میں علاقے کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسہ کے انعقاد پر بات کرتے ہیں۔ لائٹنگ و دیگر انتظامات میں تحریک انصاف کی سنت پر عمل کیا گیا۔

عزیزم سید بدر سعید (لاہور کے معروف صحافی ہیں) نے اس جلسہ کے حوالے سے اپنا چند نکاتی تجزیہ اپنی فیس بک وال پر لکھا ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ان کی فیس بک وال پر جاکر پڑھیں اور ثواب دارین حاصل کریں۔

ان (سید بدر سعید) کے بقول

’’بظاہر ایسا لگتا تھا کہ جلسے کی انتظامیہ نے حمزہ شہباز کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ یہ جلسہ مریم نواز اور میاں نوازشریف کا تھا۔ کسی پینا فلیکس پر شہباز شریف اور حمزہ کی تصویر نہیں تھی۔ سیاسی جلسہ کے اندازمیں کرسیاں سیدھی قطاروں میں لگانے کی بجائے شادی بیاہ کی تقریبات کی طرح رائونڈ ٹیبل تھیں۔ منتظمین کا دعویٰ تھا کہ 10 ہزار کرسیاں لگائی گئیں۔ دس ہزار افراد کے کھانے کا انتظام تھا۔ جلسہ لاہور کے ایک حلقہ کا تھا لیکن لوگ مضافاتی علاقوں اور قریبی شہروں سے بھی آئے۔ ٹھوکر نیاز بیگ کے اندرونی تنگ راستوں پر قافلوں کی بسوں اور ویگنوں نے رش کا سماں باندھ دیا‘‘۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے سید بدر سعید کی رپورٹ کے نکات کا حوالہ کیوں دیا۔ اس لئے دیا کہ بدر سعید صحافت کو صحافت سمجھتے ہیں میڈیا منیجری نہیں سادہ لفظوں میں کہہ لیجئے، اطمینان اور اعتماد بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

لاہور کے علاقہ ٹھوکر نیاز بیگ جہاں گزشتہ شام یہ جلسہ تھا تنگ راستوں والا گنجان آباد علاقہ ہے برادریوں کی سیاست میں یہاں اور ملحقہ علاقوں میں کھوکھر برادری خاصی بااثر اور طاقتور ہے اس برادری کا بڑا دھڑا ہمیشہ سے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ رہا اور ہے۔

چند موثر لوگ تحریک انصاف میں بھی گئے ماضی میں کچھ لوگ پیپلزپارٹی میں بھی ہوتے تھے ان میں سے ایک ظہیر عباس 2002ء میں جنرل پرویز مشرف کی دست بوسی کرکے محب وطن ہوگئے تھے۔

ایک یا دو حلقہ ہائے انتخاب کے مشترکہ جلسہ کے لئے 10 ہزار کرسیاں رائونڈ ٹیبل اسٹائل میں لگوانے کا مقصد ظاہر ہے کہ وسیع جگہ پر لوگوں کی موجودگی دیکھانا تھا۔ تیز لائٹوں وغیرہ کے انتظامات نے تصاویر اور ویڈیوز میں بہرحال سماں باندھ دیا تھا۔ اچھا علاقائی جلسہ تھا۔ لگ بھگ 90 فیصد کرسیوں پر سامعین موجود تھے۔

مضافاتی علاقوں اور قریبی شہروں سے ہم خیال لوگوں کو جلسہ میں لانا مجھے تو اس میں کوئی برائی نہیں دکھتی سیاسی جماعتیں ایسا کرتی رہتی ہیں۔ ماڈریٹ جلسوں کی بانی تحریک انصاف کے ایک رہنما سینیٹر فیصل جاوید خان نے تو اپنی ہی جماعت کے جلسوں جلوسوں کے لئے بندے بندیاں فراہم کرنے کے لئے باقاعدہ کمپنی قائم کررکھی تھی۔

اس کمپنی کے لئے اجرت پر کام کرنے والے مردو خواتین پشاور سے کراچی اور کوئٹہ سے مظفر آباد تک کے جلسوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔

مریم نواز شریف کے جلسہ کے لئے اگر کھوکھر برادری نے علاقائی برادریوں اور تعلق داروں کی معرفت جلسہ کے لئے لوگ بلوائے تو اس میں برائی بھی کوئی نہیں۔

یہ جلسہ اصل میں لاہور کے دوسرے کونے پر واقع شاہدرہ کے علاقے میں پچھلے ہفتے منعقد ہونے والے مریم نوازشریف کے فلاپ شو اور بعدازاں لاہور میں شہباز شریف اور حمزہ کے الگ الگ کامیاب جلسوں کا جواب تھا۔

سچ یہ ے کہ جواب شاندار انداز میں دیا گیا جلسہ کی لائیو نشریات اور تصاویر کے لئے روایتی فوٹو گرافروں اور ویڈیو بازوں پر رہنے کی بجائے جدید خطوط پر انتظامات کئے گئے اس میں میزبان برادری کے ساتھ خود محترمہ مریم نوازشریف کے ذاتی عملے کی محنت بھی شامل ہے۔

اپنے چچا اور چچازاد کو انہوں نے سیاسی طور پر سمجھا دیا ہے کہ وہ سیاسی سرگرمیوں کے لئے ان کی مرہون منت نہیں بلکہ نوازشریف کی صاحبزادی اور جانشین کے طور پر اپنا الگ مقام رکھتی ہیں۔

لیگی حلقے دعویدار ہیں کہ جلسہ میں 20 سے 25 ہزارلوگ تھے زیادہ تعداد پر مبنی اس دعوے کو مان لینے میں بھی امر مانع کیا ہے؟ یہاں پانچ پانچ ہزار کرسیوں پر دو اڑھائی لاکھ شرکاء والے جلسے ہوتے رہے اور میڈیا مانتا بھی رہا۔ اب دس ہزار کرسیوں پر اگر 20سے 25 ہزار لوگوں کے جلسہ کی بات کہی جارہی ہے تو کسی کے گلے میں پنھدہ نہیں پڑجانا چاہیے۔

اب آیئے محترمہ مریم نوازشریف کے خطاب کی طرف جو ظاہر ہے ان کے سیاسی استاد (اتالیق) پرویز رشید کی نگرانی میں تیار کیا گیا اور تیاری کرائی گئی ہوگی۔ اپنے خطاب میں محترمہ مریم نواز نے کہا کہ

” 4 برس جوکروں کی حکومت تھی (یہاں ہم اتحادی حکومت کے 3 ماہ پچھلے دور میں ڈال کر اتحادیوں کو جوکر کہنے پر کھلا احتجاج کرتے ہیں) عوام کی خدمت خاک کرنا تھی۔

نوازشریف کے بغیر پاکستان رل گیا اب وہ واپس آکر ٹھیک کرکے دیکھائے گا۔ دکھوں میں اللہ کے بعد نوازشریف یاد آتا ہے۔ (باپ سے والہانہ محبت کرنے والی بیٹی کے یہی جذبات ہوتے ہیں)

عوام کی خاطر اقتدار کم اور مشکلات زیادہ دیکھیں (مشکلات میں سرور پیلس جدہ اور لندن میں سابقہ مشرفی دور کا قیام اور حالیہ علاج معالجے کے لئے لندن میں قیام بھی یقیناً شامل ہوگا) محترمہ مریم نوازشریف نے یہ بھی کہا کہ نواز کے سوا کوئی حکمران ایسا نہیں آیا جس نے قیمتیں نہ بڑھنے دی ہوں۔

21 اکتوبر کو عوام اپنے محسن اور قائد کا ایسا استقبال کریں گے کہ دنیا حیران رہ جائے گی ” ۔

اپنے خطاب میں انہوں نے اور بھی بہت کچھ کہا نقل کئے گئے جملے خطاب کا "اصل” ہیں۔

مریم نواز کے والد بزرگوار اور مسلم لیگ (ن) کے قائد خیر خیریت سے 21 اکتوبر کو وطن تشریف لائیں ان کے دشمنوں کا منہ بند ہو کہ میاں صاحب آخری لمحے میں پروگرام بدل دیں گے۔

وطن واپسی سے قبل قائد محترم سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور ایک اطلاع کے مطابق ترکی بھی جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ وہ سفر کی یہ زحمت اپنے ہم وطنوں کےلئے ہی برداشت کریں گے۔ بہرحال پاکستان میاں صاحب کا منتظر ہے۔ وہ آئیں اور مہنگائی ختم کریں۔ روزگار کے نئے ذرائع پیدا کریں۔ ووٹ کو عزت دو کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر ہی ڈالیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author