عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے سوشل میڈیا پہ نسلی عصبیت کا ایسا شاندار مظاہرہ شاید اس سے قبل اس پیمانے پر نہیں ہوا تھا۔ مذہبی اور علاقائی نفرت کے اظہار کے لیے ہمیں کسی سیزن کی ضرورت نہیں ہوتی ہم سارا سال نفرت کا یہ بازار گرم رکھتے ہیں۔
حکم ہے کہ یا تو افغانستان واپس چلے جائیں یا پاکستانی حکام کے ہاتھوں گرفتاری اور پھر ملک بدری کا سامنا کریں۔
خانہ جنگی کے ستائے افراد کی ہجرت صرف تنہا پاکستان کے حصے میں نہیں آئی۔ ترکی اس وقت قانونی اور غیر قانونی شامی پناہ گزینوں سے بھرا پڑا ہے۔ جرمنی میں بھی شامی، کردش، عراقی پناہ گزینوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
امریکہ اور کئی یورپی ممالک ایرانی اور افغان پناہ گزینوں کو پناہ دیے ہوئے ہیں۔ جنگ و جدل کے متاثرین کی نئی کھیپ یوکرینی پناہ گزینوں کی ہے جو روس یوکرین جنگ کے بعد یورپ کے مختلف ممالک میں بطور پناہ گزین نئی زندگی کی تلاش میں ہیں۔
پاکستان خانہ جنگی جیسی صورت حال سے نہیں گزر رہا لیکن ہمارے مخدوش معاشی حالات کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی غیر قانونی راستوں سے یورپ منتقل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ پاکستانی جن کشتیوں میں بیٹھے ہوتے ہیں ان میں جنگ کے متاثرہ شامی یا افغان ان کے ہم سفر ہوتے ہیں۔ اب سوچ لیں کہ جن حالات میں خود پاکستانی باہر جانے کے لیے جان کی بازی لگانے کو تیار ہوں، اسی پاکستان میں پناہ لینے والے کس مجبوری کا شکار ہوں گے؟
افغان پناہ گزینوں کو پاکستان کا نمک یاد دلانے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ افغانستان کے داخلی معاملات میں پاکستان کا کردار ان افغان پناہ گزینوں کی فرمائش یا درخواست پہ نہیں ہوا۔
پاکستان نے 40 سال پہلے افغان پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے ثواب کمانے کے لیے نہیں کھولے تھے۔ افغان پناہ گزینوں کو قبول کرنا ہمارا ریاستی فیصلہ اور علاقائی پالیسی کا حصہ تھا۔
ہم عالمی معاہدوں میں فریق بنے تھے، ہم پناہ گزینوں کی آبادکاری کے لیے عالمی فنڈنگ کا گڑھ ہوا کرتے تھے۔ انجلینا جولی یہاں ہمارے سیاست دانوں کے ساتھ ڈنر کرنے نہیں آئی تھیں، ان ہی پناہ گزینوں سے ملنے آئی تھیں۔
حکومت پاکستان کے مطابق اس وقت ملک میں تقریباً 40 لاکھ افغان شہری پناہ گزین ہیں، جن میں سے 14 لاکھ رجسٹرڈ اور 26 لاکھ غیر رجسٹرڈ ہیں۔
ان غیر رجسٹرڈ کو رجسٹرڈ بنانا، ان کی آبادکاری کرنا، انہیں ٹیکس نیٹ میں لانا، ان کے کاروبار کو رجسٹر کرنا اور جرائم پیشہ افغان باشندوں کو پکڑ کر ملک بدر کرنا یہ سب ریاست پاکستان کی ذمہ داری تھی۔
ہم نے افغان شہریوں کو پہلے اندھا دھند آنے دیا، آگئے تو انہیں سنبھالنے کا کوئی مناسب بندوبست نہیں کرسکے۔ یہ قابو سے باہر ہوگئے تو جیسے آنے دیا تھا، ویسے ہی بغیر کسی منصوبے کے ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک چھوڑ جائیں۔
رہی یہ بحث کہ سارے افغان عسکریت پسند، شرپسند، جہادی، منشیات فروش اور جرائم پیشہ ہیں تو ایسی ہی نسلی پروفائلنگ مغربی ممالک میں ہم مسلمانوں کی اجتماعی طور پر کی گئی ہے، جن میں خود ہم پاکستانی بھی شامل ہیں۔
سکالرز نے مقالے لکھے، صحافی آگے آئے، تنظیمیں بنیں جو لوگوں کو صرف اتنا بتانے سمجھانے کا کام کرتی رہیں کہ سب مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتے۔
بالکل ایسے ہی پاکستانیوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ خانہ جنگی میں ترک وطن کرنے والے افغان خود شرپسندوں کے متاثرین ہیں، یہ خود مظلوم ہیں۔
اور ساتھ یہ مغالطہ بھی ذہن سے نکال دیں کہ پاکستان میں دہشت گردی صرف اس لیے ہو رہی ہے کیونکہ یہاں افغان پناہ گزین رہتے ہیں۔
وہ افغان شہری جو پیدا پاکستان میں ہوا، وہ افغان شہری جس کی ماں یا باپ میں سے ایک پاکستانی ہیں، یا وہ افغان جو آج افغان سے زیادہ خود کو پاکستانی سمجھتا ہے، افغانستان سے زیادہ کراچی تا گلگت پاکستان کے راستوں کو جانتا ہے، اسے پولیس اہلکار صرف اس وجہ سے پکڑ لے کہ وہ افغان شہری ہے، یہ دلوں میں نفرتوں کے بیج بونے کے مترادف ہے۔
مذہب، کسی حد تک زبان اور علاقائی جڑیں ایک ہونے کے باوجود پاکستان میں مقیم افغانوں کی دوسری تیسری نسل کی پاکستانائزیشن ہوئی، نہیں ہوئی، ہونی چاہیے تھی یا نہیں ہونی چاہیے تھی، ان سماجی و سائنسی سوالات پہ ہم نے کبھی کام کیا نہیں، کیونکہ یہاں بات آٹے نمک سے آگے نہیں بڑھ پائی۔
افغانوں کو پاکستانی نمک کا قرض یاد دلانے سے زیادہ ضرورت ہے کہ پاکستان ان عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو یاد دلائے کہ مغرب کے جنگی ہیجان کا خمیازہ افغان پناہ گزین اور پاکستان کیوں بھگتیں؟
اب کی بار ’ڈو مور‘ کہنے کی باری پاکستان کی ہے۔ پاکستان جو خود معاشی گرداب میں گھرا ہوا ہے، اسے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کو یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان کو اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو سنبھالنے کے لیے مزید تکنیکی اور مالی امداد کی ضرورت ہے۔
ساتھ ہی وہ مغربی ممالک جنہوں نے افغانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں اپنے ملک میں پناہ دیں گے، وہ بھی آگے آئیں، پاکستان انہیں جوابدہ کرے۔
پاکستان، جسے افغان پناہ گزینوں کے معاملے پہ دنیا سے جواب طلب کرنا چاہیے تھا، آج اپنی ’اچانک اینٹی پناہ گزین پالیسی‘ کے باعث دفاعی تاویلیں دے رہا ہے۔
پاکستان میں افغانوں کی تیسری نسل جوان ہو رہی ہے، ہزاروں وہ ہیں جو بحالت مجبوری پہلی بار پاکستان آئے۔ یہ افغان شہری ہمارے خطے کے سماجی، ثقافتی اور سیاسی تانے بانے کا حصہ ہیں، جلد بازی میں ان سے کسی نہ کسی طرح پیچھا چھڑانے کی پالیسی مستقبل میں صرف نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرے گی۔
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر