رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے پیمانے پر ہونے والی اس لوٹ مار کی رپورٹ نے وزیراعظم عمران خان کی آنکھیں تو کھول دیں لیکن انہیں علم نہ تھا کہ انہیں اس رپورٹ کو پوری قوم سے چھپانا ہو گا۔ اگر ان کے اپنے لاڈلے وزیر پاور سیکٹر میں اس ڈاکے میں شامل نہ ہوتے تو وہ ٹی وی پر گھنٹوں بیٹھ کر پوری قوم کو تفصیل سے بتاتے کہ شریفوں کی حکومت میں چینی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کیا تباہی مچائی گئی۔ سب سے بڑا انکشاف تو یہ تھا کہ شریفوں کے دو قریبی عزیزوں نے ساہیوال اور کراچی میں کوئلہ پلانٹس لگانے میں بڑا کرتب دکھایا اور اپنی نسلیں سنوار لیں۔ آنے والے برسوں میں جس طرح کا ٹیرف انہیں نیپرا نے دیا اس کے سامنے قارون کا خزانہ بھی کچھ حیثیت نہیں رکھتا‘ لیکن عمران خان کے اپنے ڈونرز بھی اس کھیل میں شامل تھے‘ جن کی پاور کمپنیوں کو فائدے ملے۔ خسرو بختیار ہوں یا ندیم بابر یا چوہدری صاحبان یا رزاق داؤد‘ سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور اس میں دو بیوروکریٹس نے بڑا اہم کردار ادا کیا جنہوں نے نیپرا میں اپنا ایسا بندہ لگایا جس کے ذریعے وہ مرضی کا ٹیرف لے کر نکل گئے۔ سرکاری بابوز نے محض اپنی پوسٹنگ اور عہدے کے چکر میں قوم کو گروی رکھ دیا جس کا خمیازہ قوم نے آنے والے سالوں میں بھگتنا تھا۔ اب وہی ہو رہا ہے‘ پچھلے ماہ کے بلوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں کیونکہ فی یونٹ بجلی کی قیمت ساٹھ روپے تک جا پہنچی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ قیمت اکتوبر میں مزید بڑھ جائے گی۔ سیکرٹری پاور ڈویژن راشد لنگڑیال نے کچھ دن پہلے صحافیوں کو جو بریفنگ دی تھی کہ بجلی کے بلز کیوں زیادہ آئے ہیں‘ اس میں وہ ہنستے ہنستے یہ بھی کہہ گئے کہ ابھی تو اکتوبر کا مہینہ آنا ہے اور بل مزید اوپر جا سکتے ہیں۔
عمران خان کو بھی ویسی ہی صورتحال کا سامنا تھا جیسی 2015ء میں نواز شریف دور میں سامنے آئی تھی جب بجلی کے پلانٹس لگانے پر حکومت کے وزیر ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ اس لڑائی میں خواجہ آصف‘ شہباز شریف اور پھر احسن اقبال بھی کود پڑے اور ایک دوسرے کو خوب سنائیں۔ خواجہ آصف دو سال سے اپنے اوپر دباؤ کے باوجود خاموش تھے کہ ان کی وزارت کو پانچ‘ چھ لوگ مل کر چلا رہے تھے اور وہ بے بسی سے سب کچھ دیکھنے پر مجبور تھے۔ خواجہ آصف کو علم تھا کہ شہباز شریف ‘ حمزہ شہباز اور ایک بینک کے مالک جن کا اپنا بھی پاور پلانٹ تھا‘ وہ لمبے چکر میں ہیں‘ ورنہ شہباز شریف پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا کام چھوڑ کر کیوں بجلی اور پانی کی وزارت چلاتے؟ خواجہ آصف نے ایک دن اپنی خاموشی توڑتے ہوئے نندی پور پاور پراجیکٹ پر کچھ باتوں کی نشاندہی کی تو اس پر شہباز شریف بھڑک اٹھے کیونکہ نندی پور کے تکنیکی مسائل پر سوالات اٹھانے کا مطلب شہباز شریف کی چینیوں کے ساتھ مہنگی ترین ڈیل پر سوال اٹھانا تھا۔ شہباز شریف کی کوشش تھی کہ نندی پور کا سارا ملبہ پیپلز پارٹی کی حکومت پر ڈالا جائے جس نے اس منصوبے کو تاخیر کا شکار کیا کیونکہ پی پی پی کے کچھ وزیر بھی اس مسئلہ پر آپس میں لڑ رہے تھے اور یوں یہ فائل دب کر رہ گئی۔ پی پی پی دور میں اس وقت کے بجلی و پانی کے وزیر چاہتے تھے کہ اس پراجیکٹ کے پی سی ون میں جو بے ضابطگیاں ہیں انہیں وزارتِ قانون کلیئر کرکے کلین چٹ دے دے تاکہ وہ 22 ارب روپے کامعاہدہ کر لیں۔ لیکن وزیرِ قانون بابر اعوان کا مؤقف تھا کہ وہ کیوں اپنا سر اس سکینڈل میں پھنسائیں۔ غلطیاں وزارتِ بجلی و پانی کی تھیں اور ملبہ سارا وزارتِ قانون پر گرے گا۔ بات یہاں تک بڑھ گئی کہ پی پی پی کے وزیر یہ معاملہ صدر آصف علی زرداری تک لے گئے کہ آپ بابر اعوان کو کہیں کہ وہ فائل کلیئر کریں لیکن صدر کی مداخلت کے باوجود بابر اعوان تیار نہ ہوئے۔ اُن دنوں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بہت ایکٹو تھے اور ہر بات پر سو موٹو لے رہے تھے۔ بابراعوان کو خدشہ تھا کہ اگر انہیں ہلکی سی بھی بھنک پڑ گئی کہ وزارتِ قانون نے نندی پور پاور پراجیکٹ میں ہونے والی بے ضابطگیوں کو کلیئر کر دیا ہے تو انہیں عدالت بلا لیا جائے گا۔ بابر اعوان اور افتخار محمد چودھری کے درمیان پہلے ہی سخت اَن بن تھی۔ چیف جسٹس چاہتے تھے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جنیوا میں آصف زرداری اور بینظیر بھٹو پر ساٹھ ملین ڈالرز کے منی لانڈرنگ کے مقدمے دوبارہ کھلوائیں۔ وہ مقدمہ مشرف دور میں بینظیر بھٹو کے ساتھ ہونے والے این آر او کے تحت اُس وقت کے اٹارنی جنرل جسٹس قیوم نے خط لکھوا کر بند کروا دیا تھا اور یہ کام مشرف کی منظوری سے ہوا تھا۔ پرویز مشرف کے اس این آر او سے دس ہزار ملزمان نے فائدہ اٹھایا ۔ سب سے زیادہ فائدہ ایم کیو ایم کو ہوا جس کے کراچی میں ہزاروں ورکرز‘ جو مختلف جرائم میں قید تھے‘ کو رہا کیا گیا اور اگر کسی کو مالی طور پر اس این آر او سے سب سے بڑا فائدہ ہوا تھا تو وہ آصف زرداری اور بینظیر بھٹو تھے۔ آصف زرداری کے وہ 60 ملین ڈالرز بچانے کی ذمہ داری اب یوسف رضا گیلانی اور بابر اعوان پر تھی اور وہ دونوں اس وقت آصف زرداری کیلئے In the line of fire تھے۔ زرداری صاحب بھی اُن دونوں کو وزیراعظم اور وزیر قانون بنانے کا پورا پورا صلہ لے رہے تھے۔ اور وہی ہوا‘ آصف زرداری کو بچاتے بچاتے گیلانی نہ صرف گھر گئے بلکہ پانچ سال کیلئے نااہل بھی ہوگئے۔ بابر اعوان بھی بھٹو ریفرنس کیس میں بطور وکیل پیش ہوئے تو انہیں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ پہلے وزارتِ قانون سے استعفیٰ دیں پھر یہاں آکر دلائل دیں کہ بھٹو کے عدالتی مقدمے کا ٹرائل دوبارہ شروع کیا جائے۔
بابر اعوان کا خیال تھا کہ شاید وہ وزارت چلانے کے ساتھ وکالت بھی کر لیں گے لیکن افتخار محمد چودھری تلے بیٹھے تھے۔یوں اب بابر اعوان کو کہا جا رہا تھا کہ وہ نندی پور پاور پراجیکٹ کی فائل فوراً کلیئر کریں تاکہ چینی اس پر کام کر سکیں۔ بابر اعوان کو شک تھا کہ اس ڈیل میں پی پی پی کے کچھ وزیر تگڑا پیسہ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ کچھ عرصہ پہلے نندی پور پاور پراجیکٹ کا تخمینہ 12 ارب روپے لگایا گیا تھا اور اب اسے 12سے 22 ارب کر دیا گیا ۔ یہ تو ہو نہیں ہوسکتا تھا کہ وزیر یا بیوروکریٹ 12 سے 22 ارب کا پراجیکٹ کر دیں اور اپنی چونچیں گیلی نہ کریں۔ جتنا دبائو بابر اعوان پر ڈالا جارہا تھا اتنا ان کا شک بڑھ رہا تھا کہ اس میں کوئی لمبی گیم اور لمبا پیسہ ہے۔ وہی ہوا‘ جب کچھ عرصہ بعد پی پی پی حکومت جاتے ہی شہباز شریف نے جس پراجیکٹ میں سب سے پہلے ہاتھ ڈالا وہ نندی پور ہی تھا۔ جو پراجیکٹ کچھ عرصہ پہلے 22 ارب میں مکمل کرنے پر چینی کمپنی راضی تھی اسے دو تین سال بعد چین جا کر 57 ارب پر done کیا گیا۔ جس پاور ایکسپرٹ نے وہ نندی پور پراجیکٹ تیار کیا وہ چلاتا رہ گیا کہ دو‘ تین سال میں جتنی بھی مہنگائی ہو جائے اس پراجیکٹ کی لاگت 37 ارب سے زیادہ نہیں ہوسکتی تھی۔ اس پراجیکٹ ڈائریکٹر نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا‘لیکن اس کے باوجود شہباز شریف نے 57 ارب پر ڈیل کی‘ جو بڑھتے بڑھتے 100 ارب روپے کراس کر گئی۔ شہباز شریف کی نندی پور پراجیکٹ کے ساتھ دل لگی تھی۔اس لیے جب خواجہ آصف نے اس پراجیکٹ کے کچھ پہلوئوں پر تنقید کی تو شہباز شریف خم ٹھوک کر میدان میں آگئے۔ اس کے ساتھ ہی احسن اقبال بھی اس زبانی فائر ورک میں کودپڑے۔اب نواز شریف کے وزیر بھی نندی پور پراجیکٹ پر ویسے ہی لڑ رہے تھے جیسے کبھی پیپلز پارٹی کے وزیروں کی لڑائی دنیا نے دیکھی تھی۔ آخر اس میں ایسا کیا تھا کہ ماضی اور حال کے وزیر اور بیورو کریٹس نندی پور پرتلواریں نکال کر آمنے سامنے آگئے ؟(جاری)
عمران خان کو بھی ویسی ہی صورتحال کا سامنا تھا جیسی 2015ء میں نواز شریف دور میں سامنے آئی تھی جب بجلی کے پلانٹس لگانے پر حکومت کے وزیر ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ اس لڑائی میں خواجہ آصف‘ شہباز شریف اور پھر احسن اقبال بھی کود پڑے اور ایک دوسرے کو خوب سنائیں۔ خواجہ آصف دو سال سے اپنے اوپر دباؤ کے باوجود خاموش تھے کہ ان کی وزارت کو پانچ‘ چھ لوگ مل کر چلا رہے تھے اور وہ بے بسی سے سب کچھ دیکھنے پر مجبور تھے۔ خواجہ آصف کو علم تھا کہ شہباز شریف ‘ حمزہ شہباز اور ایک بینک کے مالک جن کا اپنا بھی پاور پلانٹ تھا‘ وہ لمبے چکر میں ہیں‘ ورنہ شہباز شریف پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا کام چھوڑ کر کیوں بجلی اور پانی کی وزارت چلاتے؟ خواجہ آصف نے ایک دن اپنی خاموشی توڑتے ہوئے نندی پور پاور پراجیکٹ پر کچھ باتوں کی نشاندہی کی تو اس پر شہباز شریف بھڑک اٹھے کیونکہ نندی پور کے تکنیکی مسائل پر سوالات اٹھانے کا مطلب شہباز شریف کی چینیوں کے ساتھ مہنگی ترین ڈیل پر سوال اٹھانا تھا۔ شہباز شریف کی کوشش تھی کہ نندی پور کا سارا ملبہ پیپلز پارٹی کی حکومت پر ڈالا جائے جس نے اس منصوبے کو تاخیر کا شکار کیا کیونکہ پی پی پی کے کچھ وزیر بھی اس مسئلہ پر آپس میں لڑ رہے تھے اور یوں یہ فائل دب کر رہ گئی۔ پی پی پی دور میں اس وقت کے بجلی و پانی کے وزیر چاہتے تھے کہ اس پراجیکٹ کے پی سی ون میں جو بے ضابطگیاں ہیں انہیں وزارتِ قانون کلیئر کرکے کلین چٹ دے دے تاکہ وہ 22 ارب روپے کامعاہدہ کر لیں۔ لیکن وزیرِ قانون بابر اعوان کا مؤقف تھا کہ وہ کیوں اپنا سر اس سکینڈل میں پھنسائیں۔ غلطیاں وزارتِ بجلی و پانی کی تھیں اور ملبہ سارا وزارتِ قانون پر گرے گا۔ بات یہاں تک بڑھ گئی کہ پی پی پی کے وزیر یہ معاملہ صدر آصف علی زرداری تک لے گئے کہ آپ بابر اعوان کو کہیں کہ وہ فائل کلیئر کریں لیکن صدر کی مداخلت کے باوجود بابر اعوان تیار نہ ہوئے۔ اُن دنوں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بہت ایکٹو تھے اور ہر بات پر سو موٹو لے رہے تھے۔ بابراعوان کو خدشہ تھا کہ اگر انہیں ہلکی سی بھی بھنک پڑ گئی کہ وزارتِ قانون نے نندی پور پاور پراجیکٹ میں ہونے والی بے ضابطگیوں کو کلیئر کر دیا ہے تو انہیں عدالت بلا لیا جائے گا۔ بابر اعوان اور افتخار محمد چودھری کے درمیان پہلے ہی سخت اَن بن تھی۔ چیف جسٹس چاہتے تھے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جنیوا میں آصف زرداری اور بینظیر بھٹو پر ساٹھ ملین ڈالرز کے منی لانڈرنگ کے مقدمے دوبارہ کھلوائیں۔ وہ مقدمہ مشرف دور میں بینظیر بھٹو کے ساتھ ہونے والے این آر او کے تحت اُس وقت کے اٹارنی جنرل جسٹس قیوم نے خط لکھوا کر بند کروا دیا تھا اور یہ کام مشرف کی منظوری سے ہوا تھا۔ پرویز مشرف کے اس این آر او سے دس ہزار ملزمان نے فائدہ اٹھایا ۔ سب سے زیادہ فائدہ ایم کیو ایم کو ہوا جس کے کراچی میں ہزاروں ورکرز‘ جو مختلف جرائم میں قید تھے‘ کو رہا کیا گیا اور اگر کسی کو مالی طور پر اس این آر او سے سب سے بڑا فائدہ ہوا تھا تو وہ آصف زرداری اور بینظیر بھٹو تھے۔ آصف زرداری کے وہ 60 ملین ڈالرز بچانے کی ذمہ داری اب یوسف رضا گیلانی اور بابر اعوان پر تھی اور وہ دونوں اس وقت آصف زرداری کیلئے In the line of fire تھے۔ زرداری صاحب بھی اُن دونوں کو وزیراعظم اور وزیر قانون بنانے کا پورا پورا صلہ لے رہے تھے۔ اور وہی ہوا‘ آصف زرداری کو بچاتے بچاتے گیلانی نہ صرف گھر گئے بلکہ پانچ سال کیلئے نااہل بھی ہوگئے۔ بابر اعوان بھی بھٹو ریفرنس کیس میں بطور وکیل پیش ہوئے تو انہیں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ پہلے وزارتِ قانون سے استعفیٰ دیں پھر یہاں آکر دلائل دیں کہ بھٹو کے عدالتی مقدمے کا ٹرائل دوبارہ شروع کیا جائے۔
بابر اعوان کا خیال تھا کہ شاید وہ وزارت چلانے کے ساتھ وکالت بھی کر لیں گے لیکن افتخار محمد چودھری تلے بیٹھے تھے۔یوں اب بابر اعوان کو کہا جا رہا تھا کہ وہ نندی پور پاور پراجیکٹ کی فائل فوراً کلیئر کریں تاکہ چینی اس پر کام کر سکیں۔ بابر اعوان کو شک تھا کہ اس ڈیل میں پی پی پی کے کچھ وزیر تگڑا پیسہ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ کچھ عرصہ پہلے نندی پور پاور پراجیکٹ کا تخمینہ 12 ارب روپے لگایا گیا تھا اور اب اسے 12سے 22 ارب کر دیا گیا ۔ یہ تو ہو نہیں ہوسکتا تھا کہ وزیر یا بیوروکریٹ 12 سے 22 ارب کا پراجیکٹ کر دیں اور اپنی چونچیں گیلی نہ کریں۔ جتنا دبائو بابر اعوان پر ڈالا جارہا تھا اتنا ان کا شک بڑھ رہا تھا کہ اس میں کوئی لمبی گیم اور لمبا پیسہ ہے۔ وہی ہوا‘ جب کچھ عرصہ بعد پی پی پی حکومت جاتے ہی شہباز شریف نے جس پراجیکٹ میں سب سے پہلے ہاتھ ڈالا وہ نندی پور ہی تھا۔ جو پراجیکٹ کچھ عرصہ پہلے 22 ارب میں مکمل کرنے پر چینی کمپنی راضی تھی اسے دو تین سال بعد چین جا کر 57 ارب پر done کیا گیا۔ جس پاور ایکسپرٹ نے وہ نندی پور پراجیکٹ تیار کیا وہ چلاتا رہ گیا کہ دو‘ تین سال میں جتنی بھی مہنگائی ہو جائے اس پراجیکٹ کی لاگت 37 ارب سے زیادہ نہیں ہوسکتی تھی۔ اس پراجیکٹ ڈائریکٹر نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا‘لیکن اس کے باوجود شہباز شریف نے 57 ارب پر ڈیل کی‘ جو بڑھتے بڑھتے 100 ارب روپے کراس کر گئی۔ شہباز شریف کی نندی پور پراجیکٹ کے ساتھ دل لگی تھی۔اس لیے جب خواجہ آصف نے اس پراجیکٹ کے کچھ پہلوئوں پر تنقید کی تو شہباز شریف خم ٹھوک کر میدان میں آگئے۔ اس کے ساتھ ہی احسن اقبال بھی اس زبانی فائر ورک میں کودپڑے۔اب نواز شریف کے وزیر بھی نندی پور پراجیکٹ پر ویسے ہی لڑ رہے تھے جیسے کبھی پیپلز پارٹی کے وزیروں کی لڑائی دنیا نے دیکھی تھی۔ آخر اس میں ایسا کیا تھا کہ ماضی اور حال کے وزیر اور بیورو کریٹس نندی پور پرتلواریں نکال کر آمنے سامنے آگئے ؟(جاری)
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر