نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

احمد پوری دوستوں کے روبرو۔ (وسیب یاترا 6) ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سئیں اکبر انصاری ایڈووکیٹ کے چیمبر میں مقامی اخبار نویس ساتھیوں سے گفتگو کے علاوہ ہماری وسوں (سرائیکی وسیب) کے معروف شاعر اور دانشور شاہد عالم شاہد سے بھی حال احوال ہوا۔ شاہد عالم شاہد نے مادری زبان سرائیکی کو اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ایک ایسے وقت میں جب زبان، تاریخ و تمدن اور مقامیت کے دشمن ہر طرف اجاڑ کے درپے ہوں، مادری زبان میں اظہار خیال خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔

سرائیکی شاعری کا سفر بہت طویل اور بلند قامت معتبر حوالوں سے عبارت ہے۔ شاہد عالم شاہد بھی آج کی نسل کا معتبر حوالہ ہے۔ اس کی شاعری تھپک تھپک کر سلائی گئی نسل کو بیدار کرنے کے ساتھ انہیں حصول منزل کی راہ دیکھاتی ہے۔

سرائیکی دانش کے روشن فکر دوست سئیں رفعت عباس اور عبدالباسط بھٹی جس کی شاعری اور اجلی فکر کی تحسین کریں یقیناً وہ پڑھے جانے، ملاقات اور مکالمے کے لئے بہترین انتخاب ہوگا۔

وقت کے دامن میں گنجائش ہوتی تو شاہد عالم شاہد سے الگ سے مجلس جماتے انکی دانش سے فیض پاتے اور شاعری سے روح کو گرماتے۔ انہوں نے محبت کے ساتھ اپنی دو کتب ’’ گوپے دے وچ قصے ‘‘ اور ’’چندر درسال تے‘‘ طالب علم کو عنایت کیں۔

مقامیت سے جڑا ہمارا یہ شاعر کہتا ہے

’’شاہد ہم عالم ہم ۔ روہی کا کوئی موسم ہم، ہم سینت سنبھال کر رکھے گئے غم ہیں۔ ہر پل کا دم بھی ہم ہیں (ترجمہ)

اگلے دنوں میں ان کے دونوں شعری مجموعوں کامطالعہ واجب ہوا ہے۔

اکبر انصاری سئیں اور دیگر دوستوں سے اجازت لے کر رخصت ہونے لگو تو احمد پور شرقیہ کے معروف سیاسی کارکن محمد خالد چوہان نے اپنے لئے بنائے گئے وسیلہ رزق کے مقام پر چلنے کی دعوت دی۔

چوہان صاحب ہماری طرح کے ادھیڑ عمر ہیں لیکن جب انہوں نے یہ کہا کہ

’’سئیں میں نکا ہوندا ہم جنڈنر روز نامہ ’’مساوات‘‘ اچ تہاڈے کالم پڑھداہم‘‘ تو اس پر ہم نے بے ساختہ کہا، "چوہان صاحب یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم زمانہ قدیم کی نشانیوں میں سے ہیں”

اس پر دوستوں کے قہقہے نے لوگوں کو ہماری طرف متوجہ کیا۔ محمد خالد چوہان سفید پوش سیاسی کارکنوں کی بچ رہنے والی نشانیوں میں سے ہیں۔

احمد پور شرقیہ میں پیپلزپارٹی کے بانی ارکان میں شمار ہوتے ہیں نصف صدی کی سیاسی جدوجہد کے دوران ریاستی جبروتشدد اور قیدوبند کی صعوبتیں انہوں نے خندہ پیشانی سے برداشت کیں ان کی وجہ سے ان کے خاندان کو جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں خاصی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

سیاسی کارکن کسی بھی جماعت کا ہو سیاسی عمل کے لئے سرمایہ ہے۔

ان سے رخصت لی اور عزیزم سید علی رضا کاظمی کی قیام گاہ کی جانب روانہ ہوئے۔ علی رضا کاظمی چھوٹے بھائی اور دوست ہیں مطالعہ ان کا بہت وسیع ہے۔ خود ہم بھی اگر کبھی کسی حوالے سے دو آراء کا شکار ہوجائیں تو اولاً بھائی جان سید منظر نقوی سے اور ثانیاً علی رضا کاظمی کو درست حوالہ جات کے لئے زحمت دیتے ہیں۔

ان کے خاندان نے مقامی سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا خود بھی بزرگوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے شہر کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں شریک رہتے ہیں۔ ترقی پسند شعور کے حامل ہیں دوستوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ ان کی قیام گاہ پر معروف قوم پرست اعجاز الرحمن کے علاوہ ہمارے مشترکہ دوست محمد ظفر خان بھی تشریف لے آئے۔

یہاں بھی ڈیڑھ دو گھنٹے خوب محفل جمی۔ اعجازالرحمن اور محمد ظفر خان احمد پور شرقیہ میں مختلف اخبارات کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔

اعجاز صداکار بھی ہیں۔ ریڈیو پاکستان بہاولپور کے لئے پروگرام کرتے ہیں۔ اصلی شہرت ان کی قوم پرست ہونا ہے۔ سرائیکی قومی تحریک کے رہبر مرحوم تاج محمد لنگاہ کے ابتدائی مداحین و معاونین میں شامل تھے۔

علی رضا کاظمی کی رہائش گاہ پر دیگر موضعات کے ساتھ کتابوں پر بھی بات ہوئی وہ ہمیں حال ہی میں خریدی گئی چند کتب دیکھاکر اکساتے رہے۔ ان کی لائبریری میں شاندار کتابیں ہیں وسیع مطالعے کے ساتھ ان کی یادداشت بھی بہت اچھی ہے۔

گردن تک مسائل میں دھنسے ہمارے سماج میں مطالعے اور مکالمے کے جتنے شوقین بچ رہے ہیں وہ غنیمت ہیں۔

محمد ظفر خان سوالات کی پٹاری کھولنے لگے تو عرض کیا مسافروں کے پاس وقت کم اور ان کا سفر زیادہ ہے کچھ دوست بہاولپور میں ہمارے منتظر ہیں اس کے باوجود انہوں نے سرائیکی قوم پرست سیاست کے مستقبل، ملک کی معاشی صورتحال میں اصلاح کی گنجائش اور پیپلزپارٹی کے حوالے سے سوالات ہمارے سامنے رکھ دیئے۔

ہم نے مدد کے لئے اپنے دوست اور ہمسفر عابد راو کی طرف دیکھا انہوں نے اطمینان سے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے کہا

’’شاہ جی، ’’شاہ جی تہاڈے کم تسیں نبیڑو‘‘۔

پھر بولے ” پیپلزپارٹی کو کارکن سازی کے ساتھ نچلی سطح تک تنظیموں کو فعال کرنے پر توجہ مرکز کرنا ہوگی اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اور دوسرے درجہ کی قیادت عوامی رابطہ مہم کے ساتھ دستیاب کارکنوں سے بھی رابطہ میں رہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پرنٹ و الیکٹرانک اور اب سوشل میڈیا پر پیپلزپارٹی کے خلاف پروپیگنڈے کا دلیل و شواہد کے ساتھ منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے اس کےساتھ ساتھ لوگوں کو یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ وہ پیپلزپارٹی کی حمایت کیوں کریں اور اسے ووٹ کیوں دیں۔ ہر دو باتوں کی وضاحت منشور کے ذریعے ہوگی ” ۔

ہم نے عرض کیا اس کے ساتھ ساتھ پپلزپارٹی کو اسٹیبلشمنٹ اور انتہا پسندی کے علاوہ پڑوسیوں سے تعلقات کے حوالے سے اپنا موقف مزید وضاحت کے ساتھ عوام کے سامنے رکھنا ہوگاکیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی مدعی پی پی پی نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے نام پر اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دینے میں تعاون کیا۔

ظفر خان بولے، لیکن عدم اعتماد تو جمہوری عمل کا حصہ ہے‘ عرض کیا بالکل ہے جمہوری عمل کا حصہ ہے البتہ میں پچھلے ڈیڑھ سال سے تواتر کے ساتھ یہ سوال اٹھارہا ہوں کہ اگر مزید ڈیڑھ سال عدم عدم اعتماد کی تحریک نہ لائی جاتی تو کون سا قیامت ٹوٹ پڑتی۔

آئی ایم ایف سے معاہدہ کی خلاف ورزی اور افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کے انخلا کے وقت طالبان پروری والی پالیسی جس سے افغان طالبان کابل پر قابض ہوئے تھے دونوں باتوں نے جس سفارتی تنہائی اور معاشی ابتری سے دوچار کردیا تھا ان کی وجہ سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کا منہ کے بل گرنا لازم تھا۔

عرض کیا کہ میرے بہت سارے دوست اور پی پی پی و پی ڈی ایم کے ہمدرد و کارکنان گو اس سے اتفاق نہیں کرتے وہ اپنی قیادت کی طرح یہی کہتے ہیں ملک بچانا ضروری تھا اس کے ساتھ وہ اگلے دس برسوں کے عمرانی نظام کا خاکہ پیش کرکے یہ ڈر بیچتے ہیں

کہ اگر عمران حکومت نہ جاتی تو فیض حمید کو آرمی چیف بناکر عمران خان مارچ و اپریل میں انتخابات کرادیتا۔ فیض حمید کی قیادت میں نتائج اس کے لئے مینج کئے جاتے اور پھر دو تہائی اکثریت سے آئینی ترامیم کرکے صدارتی نظام لے آتے۔

اتفاق کہہ لیجئے ایک طالب علم اور قلم مزدور کی حیثیت سے میں ’’ڈر‘‘ کے اس سودے کا خریدار ہوں نہ اس سے متفق ہوں۔ معاشی ابتری اور سفارتی تنہائی کا شکار ملک میں اس طرح کے فیصلے اور اقدامات گلے پڑسکتے تھے۔

بہرطور یہ میری رائے ہے لازم نہیں کہ عدم اعتماد لانے کے حامی اس سے اتفاق کریں۔ ہم دو مسافروں (مجھے اور عابد راو صاحب) کو چونکہ بہاولپور ہائیکورٹ بار میں منتظر راو صاحب کے دوست میاں کاشف ایڈووکیٹ سے ملاقات کرکے بہاولپور میں قیام کے لئے منتظر عزیزان شہزاد شفیع اور صہیب گورمانی تک پہنچنا تھا اس لئے احمد پور شرقیہ سے ہم سیدھا ہائیکورٹ بار بہاولپور بنچ پہنچے۔

میاں کاشف ایڈووکیٹ سے خوب دلچسپ نشست رہی۔ بار کی مروجہ سیاست، مصنفین کی قانونی ’’صلاحیت‘‘ کے علاوہ یہاں بھی چولستان کے معاملات زیربحث آئے۔ میزبان نے لگی لپٹی کے بغیر مختلف امور پر اپنی رائے دی۔

یہ محفل اس وقت تک برپا رہی جب یہ اطلاع ملی کہ عزیزم شہزاد شفیع مسافروں کو وصول کرنے کے لئے عمارت کے باہر پہنچ چکے ہیں۔ (جاری ہے)…….

یہ بھی پڑھیں:

About The Author