ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چچا سام نہیں، چچا لفتھانسا! چچا لفتھانسا کا بس نہیں چلتا تھا کہ بڑھیا کو کچا چبا جائیں۔ بھئی حد ہوتی ہے۔ دن مہینے گزرتے چلے جا رہے ہیں اور بڑی بی کے مزاج ہی نہیں ملتے کہ معاملہ ختم کریں۔ چچا کی بڑبڑاہٹ ہم تک پہنچ رہی تھی ان خطوں کے ذریعے جو ہر دوسرے دن کمپیوٹر کے لیٹر بکس میں پائے جاتے تھے۔ جب کسی بھی طرح ہم نے کان نہ دھرا تو وارننگ کا خط آ گیا کہ بس بی بی بس۔ اب ہم کھاتہ بند کیے دے رہے ہیں، تم آرام سے گھر بیٹھو!
اوئی ماں، اتنا نقصان۔ اتنا مہنگا ٹکٹ! علم ہے کہ آپ بال نوچنے والے ہوں گے کہ کدھر کی ہانکے چلی جا رہی ہے بڑھیا؟ بتاؤ تو سہی کہ بات کیا تھی؟ بات شروع ہوئی مارچ دو ہزار بائیس میں جب کچھ دوستوں نے ہائیڈل برگ جرمنی میں فیمنزم پہ ہونے والے سیمینار میں ہمیں مدعو کیا۔ قیام و طعام میزبان کے ذمے اور ٹکٹ پلے سے۔ سوچا ہائیڈل برگ جانے کے لیے یہ کڑوا گھونٹ بھرے لیتے ہیں۔ جرمنی کی ائر لائن لفتھانسا سے ستمبر میں ہونے والی کانفرنس کا ٹکٹ خرید لیا گیا لیکن نہ جانے کس کی نظر لگی کہ جانے سے پہلے بڑھیا پاؤں ہی تڑوا بیٹھی۔
ہار ماننی تو کبھی سیکھی نہیں۔ سوچا کہ پلاسٹر چڑھے پاؤں کے ساتھ ہی جاؤں گی۔ ائر لائن سے بات کر لی۔ وہ وہیل چئیر لے کر حاضر۔ لیکن کمند اس کے بعد ٹوٹ گئی۔ کیسے؟ اسے چھوڑیے۔ بہر حال ائرلائن نے میڈیکل گراؤنڈز پہ ہمیں یہ سہولت دی کہ ہم سیٹ تبدیل کر سکتے ہیں مگر پیسے واپس نہیں ملیں گے۔ خیر کچھ دوستوں سے بات ہوئی تو ان کے خیال میں ہمیں آٹھ مارچ کو فرینکفرٹ ہونا چاہیے تاکہ عورت مارچ کا نظارہ یورپ میں ہو سکے۔
مان لی تجویز اور لفتھانسا چاچا کو سیٹ بدلنے کے لیے کہہ دیا۔ آٹھ مارچ دو ہزار تئیس کی تیاری میں مصروف تھے کہ علم ہوا پروگرام کو پھر کسی مہربان کی نظر لگ گئی۔ اب کیا کریں؟ ٹکٹ ضائع ہونے دیں یا پھر جرمانہ بھریں؟ خیر دوبارہ بات کی اور کافی ناک بھوں چڑھانے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ ہم تاریخ بدل سکتے ہیں مگر منزل نہیں۔ ٹکٹ پہ جو لکھا ہے وہیں اترنا ہو گا اور واپسی بھی ٹکٹ کے مطابق۔ یہ خبر کچھ اچھی نہیں تھی کہ آٹھ مارچ کا ٹکٹ دوبارہ سے بک کرتے ہوئے پیرس بھی شامل کر لیا گیا تھا۔
ہماری میزبان کا خیال تھا کہ ایک پروگرام فرینکفرٹ اور ایک پیرس اور ہماری واپسی پیرس سے ہو۔ ایسا کرتے ہوئے بھی ہمیں کچھ رقم مزید نذرانے کے طور پہ دینی پڑی تھی۔ اب کیا کریں؟ فرینکفرٹ ٹھہریں؟ یا پیرس سے واپس آئیں؟ کیا مزید رقم بھر کر کہیں اور جائیں؟ سوال کافی ٹیڑھا تھا۔ فرینکفرٹ؟ مائیک ملر کا فرینکفرٹ؟ نہیں بھئی۔ فرینکفرٹ نہیں۔ ہم پانچویں کلاس میں پڑھتے تھے جب اردو ڈائجسٹ کی بدولت فرینکفرٹ سے آشنائی ہوئی۔
نکلے تیری تلاش کا مائیک ملر اور بطخیں۔ پڑھ کر ہم کافی دیر سوچتے رہے، یہ کیا بات ہوئی، جھٹ سے ان صاحب نے چار لڑکیوں کو بطخ بنا دیا۔ کیا لڑکیوں کی شکل پہ کمنٹ کرنا اتنا آسان ہے کہ جو مرضی کہہ کر ہنسی اڑاؤ۔ کیا خبر لڑکیاں مائیک ملر کو چوہے جیسا سمجھ رہی ہوں؟ اب لکھنے والے بھی چونکہ مائیک ملر کی برادری سے تعلق رکھتے تھے سو کیسے لکھتے کہ مائیک ملر خود کیسا دکھتا تھا؟ مرد ادیبوں کے لئے عورت کے رنگ و روپ، چال ڈھال اور عادات کا مذاق اڑا کر مزاح کا روپ اوڑھانا کبھی بھی مشکل نہیں رہا۔
چاہے یوسفی ہوں یا کوئی اور۔ برسوں کے احتجاج کے بعد مرد کو اب سمجھ آیا ہے کہ عورت کے پاس انا بھی ہے اور اس انا کو ضرب بھی پہنچتی ہے۔ سو طنز و مزاح کی شاعری اور نثر کے لیے کچھ اور سوچا جائے تو بہتر ہے۔ کر دیا ہم نے فرینکفرٹ کو رد۔ ویسے کچھ عرصہ پہلے ہم فرینکفرٹ میں کچھ گھنٹے گزار چکے تھے جب ہما فلک اور ان کے شوہر عارفی ہمیں ائرپورٹ ملنے آئے اور جب علم ہوا کہ اگلی فلائٹ شام کو ہے، تب ہمیں فرینکفرٹ یاترا کروائی گئی۔
ان کے ساتھ گزرا ہوا وہ دن ہم کبھی نہیں بھولیں گے جب ہم نے ڈھیروں گپیں ماریں، کافی پی، کھانا کھایا اور پھر مل کر گانے گائے۔ ہما اور عارفی کافی حیران بلکہ پریشان تھے کہ سوشل میڈیا پہ اتنی سڑو نظر آنے والی جھوم جھوم کر گانے کیسے گا سکتی ہے؟ ہائے ہم کہاں گم ہو گئے؟ لفتھانسا چاچا انتظار میں ہیں بھئی۔ جب کچھ اور ممکن نہیں تو پھر وہی روٹ سہی۔ یہ سوچ کر کہہ تو دیا لفتھانسا کو کہ کر لیں گے بھئی ٹکٹ استعمال مگر ہمیں ذرا چھری تلے دم تو لینے دو، چھٹی کے مطابق تاریخ ڈلوائیں گے ٹکٹ پر۔
اسی فیصلے میں ہوئی کچھ دیر اور لفتھانسا نے ڈال لیں ماتھے پہ پھر شکنیں کہ بی بی جلدی کرو۔ اب بی بی بے چاری بھی ہیں سرکاری ملازم، سو سرکار اجازت دے گی تو قدم اٹھائیں گی نا۔ خیر جب ہم نے لفتھانسا کا صبر کافی آزما لیا، تب سیٹ بک کروا ہی لی۔ جانا فرینکفرٹ سے اور واپسی پیرس سے۔ مگر درمیان کے دنوں میں کیا کریں؟ کیا کریں؟ کیا کریں؟ ہائیں بی بی، بھول گئیں بچپن سے ٹھنڈی سانسیں بھر رہی ہو ہائے قرطبہ ہائے غرناطہ۔
اور وہ ہاتھ ہلا ہلا کر نیشنل سینٹر کے سٹیج پر طارق بن زیاد کی تقریر کے جملے۔ جلا دو ان کشتیوں کو، ہم واپس جانے کے لیے نہیں آئے۔ تو بی بی اب کیا مشکل ہے؟ جلا دو باقی سب آپشنز کو۔ واقعی۔ کیا مشکل ہے؟ کوئی مشکل نہیں اور اگر کوئی ہوئی بھی تو دیکھ لیں گے۔ چلیے لفتھانسا چاچا آپ کر دیں بک۔ آگے کا ہم خود دیکھ لیں گے۔ لفتھانسا کی پیشانی پر بل کچھ کم ہوئے۔ اور ہم لگے پاسپورٹ اور ویزا کھنگالنے۔ جرمنی نے جو ویزا دیا تھا وہ تو اپنی مدت گزار چکا۔
اوہ اب پھر سے ویزے کی بھیک مانگنے قطار میں جا لگیں؟ ہرا پاسپورٹ دیکھ کر لوگ دور ہی سے چوکنے ہو جاتے ہیں کہ یہ جو بی بی چلی آر ہی ہیں، لہراتی بل کھاتی، پاس آنے پر کہیں بٹن نہ دبا دیں۔ خیر اومان سے یورپ کا ویزہ لگوانا مشکل نہیں اگر حکومت اومان کے ملازم ہوں آپ۔ ہرے پاسپورٹ کو اومانی حکومت کی چادر اوڑھا دی جاتی ہے۔ لیکن جناب کاغذی کارروائی یا کمپیوٹر کارروائی تو کرنی ہی پڑتی ہے۔ چلیے پھر اب سپین کی ایمبیسی چلتے ہیں۔
جن کی سرزمین دیکھنے کا چاؤ ہے، دروازہ بھی انہی سے کھلوانا چاہیے نا۔ سب کاغذات وغیرہ جمع کرواتے وقت خیال آیا کہ کہہ دیں ہمیں ویزہ کی خواری اکثر اٹھانی پڑتی ہے کہ پاؤں میں چکر ہے سو آپ مہربانی کیجیے اور اپنے دروازے سے داخلے کا پرمٹ دو سال کے لیے عطا کر دیجیے۔ جس کسی نے ہمارا خیال سنا، کہا۔ کہاں دیں گے یورپ والے دو سال کا شینگن ویزا؟ مانگنے میں کیا حرج ہے؟ ہم نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔ بچے سالانہ چھٹی پہ گھر آئے ہوئے تھے، کہنے لگے امی ہمارا پاسپورٹ بھی ساتھ جمع کروا دیجیے، امریکہ سے آتے جاتے یورپ راستے میں تو پڑتا ہے، آسانی ہو جائے گی اگر جی چاہے کہ کبھی کچھ دن بیچ میں رک جائیں۔
لیجیے جناب، چار پاسپورٹ جمع ہوئے بمعہ فنگر پرنٹنگ کے۔ عام حالات میں ویزہ ایک ہفتے میں آ جاتا ہے لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ دو ہفتے گزر گئے اور کوئی خیر خبر نہیں۔ ایک آدھ بار جا کر پوچھا تو علم ہوا کہ پروسس میں ہے۔ اسی اثنا میں بچوں کے واپس جانے کے دن آ گئے۔ پاسپورٹ واپس لینے کے لیے دے دی درخواست۔ ہم نے اپنا بھی واپس لے لیا۔ نہ جانے کس قسم کی جانچ پڑتال ہے جو ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ بچے واپس چلے گئے۔
ہم لاہور جا پہنچے ایل ایل ایف میں شرکت کرنا تھی۔ اس بھاگم دوڑ میں بھول ہی گئے کہ کسی قسم کی درخواست کر رکھی ہے مگر وہ کہاں بھولنے دیتے تھے۔ آ گیا ایک دن ایمبیسی سے فون کہ آ کر ویزہ لگوا لیجیے اور وہ بھی دو سال کا۔ ہرے، مل گیا نا۔ نہ کہتے تو ملتا بھی نہیں۔ اگلے دن ہی ایمبیسی جا پہنچے۔ کاؤنٹر پہ جو صاحب تھے وہ شکل اور حلیے سے تو یورپین مگر زبان کھولتے ہی علم ہو جاتا کہ اہل عرب میں سے ہیں۔ وہ واقعی عراقی نکلے۔
ہمارا ویزا لگانے کے بعد پوچھنے لگے، کدھر ہیں باقی پاسپورٹ؟ اڑ گئے سب کے سب۔ تم لوگوں نے دیر ہی اتنی لگا دی۔ ہم نے تنک کر جواب دیا۔ اوہ، اصل میں کرسمس کے دنوں میں بہت رش ہو جاتا ہے اور سٹاف بھی چھٹی پہ چلا جاتا ہے۔ تمہاری ٹائم سلیکشن اچھی نہیں تھی، وہ مسکرائے۔ اب کیا کیا جائے؟ ہم نے پوچھا۔ ویزے تو میرے پاس ہیں، پاسپورٹ چاہئیں کہ میں ان پر لگا سکوں۔ ہمیں دے دو، ہم خود پاسپورٹ کے ایک صفحے پر چپکا لیں گے۔
یہ سن کر وہ زور سے ہنسے کہ کس ناداں ( بے وقوف) سے پالا پڑا ہے۔ پاسپورٹ پر ویزہ چپکا کر ایک مہر بھی لگائی جاتی ہے۔ وہ مہر تم کہاں سے لگاؤ گی؟ دل ہی دل میں کہا، مہر بھی دے دو بھائی، تمہارا کیا جائے گا بھلا؟ پھر کیا کریں؟ دل کو قابو میں کرتے ہوئے پوچھا۔ ویزے سنبھال کے رکھ لیتا ہوں، جب بچے آئیں، پاسپورٹ لے کر آ جانا، میں لگا دوں گا۔ واہ واہ۔ سپین ایمبیسی تو بہت ہی یوزر فرینڈلی نکلی۔ بچوں کو یہ قصہ سنایا تو خوب ہنسے۔
کہنے لگے ہماری امی اونٹ کی اس نسل سے تعلق رکھتی ہیں جو خیمے میں پہلے پاؤں گھسانا ہے پھر پورا کا پورا گھس جاتا ہے۔ اہل خیمہ دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں کہ ہوا کیا؟ خیر جناب، ہمارا کام اب ختم ہوا۔ باقی کی تیاری ہماری بڑی صاحبزادی کے کندھوں پہ جو آخری منٹ میں کام کرنے کی عادی ہیں۔ ہم کچھ دنوں بعد یاددہانی کرواتے، سپین کے ٹکٹ اور قیام۔ یاد سے بک کروا دینا، بھولنا نہیں۔ اور وہ کندھے اچکا کر کہتی، کہا ہے نا، آپ کو جانے سے پہلے سب کچھ مل جائے گا۔
ارے بٹیا، ہمارا دل تو ہولتا رہتا ہے نا۔ آپ کے دل کو تو شوق ہے ہولنے کا۔ اسے سنبھالیے۔ لیجیے کیا کریں؟ دل کو سنبھالنے کا نسخہ بھی بتا دو بٹیا رانی۔ ہماری فرینکفرٹ تک فلائٹ تیس اگست کو تھی اور فرینکفرٹ سے آگے۔ کچھ علم نہیں۔ اور جب ہمیں علم نہیں تو آپ کو کیا بتائیں؟ چلیے چپکے بیٹھے رہیے آپ بھی ہمارے ساتھ۔ تب تک جب بٹیا رانی کو ترس نہ آ جائے۔ ویسے جلال بھی آ سکتا ہے، خبردار رہیے گا۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر