ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”میں اب تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا، مجھے لگتا ہے تمہیں صرف میرے ساتھ رہنے کے لیے پیدا کیا گیا تھا لیکن ہمیں ایک دوسرے سے ملنے میں دیر ہو گئی اب ہمیں ایک دوسرے کو اپنانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے“ ان ملاقاتوں میں امثال کی کوشش ہوتی کہ بوس و کنار کیا جائے جس پہ ثانیہ کبھی مزاحمت کرتی اور کبھی ہتھیار ڈال دیتی۔ ڈراپ سین تب ہوا جب ایک دن چھت پہ نبیل نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور غصے میں پاگل ہو کر امثال سے گتھم گتھا ہو گیا۔
جب لڑتے لڑتے دونوں تھک گئے تو امثال نے نبیل کو بتایا کہ اس سب میں ثانیہ کا کوئی دوش نہیں وہی ثانیہ سے محبت کرنے لگا ہے۔ لیکن اب وہ وعدہ کرتا ہے کہ نبیل کے گھر آنا چھوڑ دے گا۔ اس وعدے کے بعد بھی امثال آرام سے نہیں بیٹھتا اور اعزاز کو نبیل کے گھر بھیجتا ہے کہ وہ حالات کا جائزہ لے کر اسے بتائے۔ اعزاز کے آنے کا مقصد ثانیہ بھانپ لیتی ہے اور اس پہ یہ بھی ظاہر کر دیتی ہے کہ وہ جانتی ہے کہ اعزاز بھی اس فہرست میں شامل ہے جو ثانیہ سے عشق کرنا چاہتے ہیں۔
اعزاز اس الجھی ہوئی کہانی کی تفصیلات انور کو سناتا ہے اور یہ بھی کہ اتنا کچھ ہو جانے پر بھی امثال اور ثانیہ نے ملنا نہیں چھوڑا۔ سب کچھ سننے پر انور کا خیال ہے کہ امثال اور ثانیہ کے تعلقات اس طرح کے ہیں جیسے اکھاڑے میں اترے ہوئے دو پہلوانوں میں ہوتے ہیں دونوں ایک دوسرے کو چت کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے اور الجھتے جا رہے ہیں۔ انور اعزاز سے سنی ہوئی سب باتوں کا ذکر مدیحہ سے کرتا ہے جو بتاتی ہے کہ وہ یہ سب کچھ ثانیہ کے منہ سے سن چکی ہے۔ بلکہ بہت سی ایسی باتیں بھی ثانیہ نے کہی ہیں جن کا مطلب مدیحہ کو سمجھ نہیں آیا، جیسے کسی دیوانے کی خود کلامی ہو۔ ثانیہ کا کردار کسی نہ کسی طرح معاشرے کی ہر عورت کا پر تو ہے۔ ہر عورت زندگی کے کسی بھی مرحلے پر کیا سوچتی ہے، اسے ثانیہ نے کسی نہ کسی صورت حال میں الفاظ کا روپ دے دیا ہے۔ اس طرح یہ ناول کسی ایک عورت کی کہانی نہیں بلکہ سینکڑوں یا لاکھوں عورتوں کی ان کہی کو زبان دیتا ہے۔ ثانیہ کو جس چکی میں اوائل عمری میں جھونکا گیا تھا اس نے اسے ایک ایسی شکستہ عورت میں بدل دیا ہے جو اپنی بے وقعتی کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔
وہ کہتی ہے۔ ”میں مقتول ہوں اور قاتل بننا چاہتی ہوں۔ میں مردوں کو ویسے ساتھ رکھنا چاہتی ہوں جس طرح وہ عورتوں کو رکھتے ہیں کیونکہ میں نے یہ بات جان لی ہے کی مرد اور عورت کے درمیان برابری کے تعلقات نہیں ہو سکتے۔ ملاقات کے فوراً بعد ایک قاتل بن جاتا ہے اور دوسرا مقتول اور اگر ایسا نہیں ہو پاتا تو تعلقات ختم ہو جاتے ہیں یا ان میں ایک ایسا فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے جو ریل کی دو پٹریوں کے درمیان ہوتا ہے۔ دونوں پٹریاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں لیکن ایک دوسرے سے مل نہیں پاتیں“ ۔
ثانیہ مردوں کی دنیا میں رہ کر وہ سب سیکھ چکی ہے جس سے مرد عورت کو زیر کرتے ہیں۔ اب وہی حربے وہ مردوں پر آزما کر بازی پلٹنا چاہتی ہے، یہی ایک طریقہ ہے جس سے اس کے اندر اٹھتی ٹیسوں کو کسی طور قرار آ سکتا ہے۔ مدیحہ کے یہ پوچھنے پر کہ اگر نبیل کو علم ہو گیا کہ اس کے اور امثال کے بیچ قربت پیدا ہو رہی ہے تو وہ کیا کرے گی؟ ثانیہ جواب میں کہتی ہے۔ ”کیا کرے گا وہ؟ عورتوں کی طرح روئے گا پھر میں اسے مناؤں گی جیسے مرد دوسری عورتوں سے تعلقات پر اپنی بیویوں کو مناتے ہیں، انہیں نئے کپڑے دلاتے ہیں، زیور دلاتے ہیں اور انہیں جسمانی طور پر خوش کرتے ہیں اور اگر وہ بہت شور کرے گا یا گڑ بڑ کرے گا تو میں اسے مجبور کر دوں گی کہ وہ مجھے چھوڑ دے۔ میں اگر چاہوں گی تو نبیل بھی مجھے نہیں چھوڑے گا اور اگر میں چاہوں گی تو امثال بھی مجھے اپنانے پر تیار ہو گا ”ثانیہ پدرسری نظام میں طاقت کے محور کو بدلنا چاہتی ہے جو مرد کو اجازت دیتا ہے کہ وہ عورت کو ایک ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرے اور اس کی کمر بھی ٹھونکتا ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ اسے بھی یہی کچھ مرد کے ساتھ کرنا چاہیے تاکہ وہ بھی اس درد سے گزر کر دیکھے جو عورت سہتی ہے اور جس کا اندازہ مرد کو ہوتا ہی نہیں۔
اگلے مرحلے میں نبیل مدیحہ سے اس بات کی تصدیق کرواتا ہے کہ امثال ان دونوں کی زندگی میں شامل ہے اس کے لئے وہ مدیحہ کو قرآن پہ ہاتھ رکھنے کو کہتا ہے۔ یہاں پر یہ بات حیران کرتی ہے۔ نبیل ثانیہ اور امثال کو چھت پر اپنی آنکھوں سے ہم بستر دیکھ چکا ہے اور دیکھنے کے بعد بھی شکوک کا شکار ہے یا شاید ایک بہانہ چاہتا ہے کہ مدیحہ اگر انکار کر دے تو وہ اپنے آپ کو جھٹلا دے۔ مدیحہ اس کے خدشات کی تائید کر دیتی ہے۔ اس مرحلے پر لگتا ہے کہ ثانیہ نبیل کو نبیل سے زیادہ جاننے لگی ہے اسی لیے جب نبیل ثانیہ سے پوچھتا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے؟
تو ثانیہ بے نیاز رہتے ہوئے کہتی ہے کہ نبیل جو بھی فیصلہ کرے اسے قبول ہو گا۔ یہاں لگتا ہے اب شادی ثانیہ کے لیے وہ بندھن نہیں رہا جو ہونے پر اکساتا ہے اور ٹوٹنے سے ڈراتا ہے، اتنا ڈراتا ہے کہ عورت ہر بات کو سہنے اور برداشت کرنے پر رضا مند ہو جاتی ہے۔ لیکن ثانیہ کو اپنے زندگی میں کسی مرد کے داخل ہونے یا نکلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نبیل اسے طلاق دے دیتا ہے۔ اور انتہائی تعجب کہ طلاق دینے کے بعد بھی اس رات وہ اسی کے ساتھ سوتا ہے اور ثانیہ کو بھی اس پر اعتراض نہیں۔
اگلے دن ثانیہ اپنی ماں کے گھر چلی جاتی ہے۔ اب ثانیہ بھائیوں اور بہنوئیوں کے ساتھ رہ کر گھر والوں کی ضروریات پوری کرنے میں مصروف ہے۔ وہی ضروریات جو وہ نبیل اور اس کی بھائی کی پوری کرتی تھی۔ یہاں پہ ایک بات غور کرنے کے قابل ہے کہ جب پیٹ کا سوال آتا ہے تو عورت کی عزت اور مرد کی غیرت کے سب پیمانے ایک طرف رکھ دیے جاتے ہیں۔ عورت کو اپنی عینک سے دیکھنا بھی ضروری ہے اور اگر عورت فائدہ پہنچا رہی ہو تو کچھ دیر کے لیے عینک کے شیشے دھندلے کر لیے جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔
یہ ہے وہ منافقت جو ہر قدم پر نظر آتی ہے اور جس سے ثانیہ لڑ رہی ہے۔ ثانیہ اور امثال ملتے رہتے ہیں۔ اس اثنا میں ثانیہ ایک بار اور دلہن بنتی ہے اور دلہن بننے کی یہ تقریب کسی دباؤ کا نتیجہ نہیں۔ یہ دولھا کی فرمائش ہے اور وہ شادی تو رسوم کے ساتھ کرنا چاہتا ہے لیکن قانونی طور پر نہیں۔ اب اپنے اس عمل پر ثانیہ کا تبصرہ دیکھیں : ”ہر شادی سودے بازی ہی تو ہوتی ہے کبھی لمبا سودا کبھی چھوٹا۔ فرق ہے تو اتنا کہ اس میں مولوی کا حصہ نہیں ہو گا۔
میری طرح میرے گھر والوں کی بھی ضرورتیں ہیں آخر اور لوگ بھی تو اپنی ضروریات کے لیے نوکری کرتے ہیں اور انہیں یہ نوکری کرنا برا نہیں لگتا۔ بس میری بھی یہ نوکری ہے سو برا کیوں لگے؟ ”شادی کے فلسفے کی دھجیاں ادھیڑ کر رکھ دی ہیں ثانیہ نے۔ لیکن دیکھا جائے تو ایسا کچھ غلط بھی نہیں۔ یہی تو ہوتا ہے کہ دو فریق ملتے ہیں اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اکٹھے زندگی گزارتے ہیں
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر