رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر کار اہلِ یقیں کو اچھی خبریں دیکھنے اور پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ جنہیں اس نظام پر ہمیشہ کی طرح اندھا اعتماد ہے وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ خیر ہمیں تو یہ معلوم نہیں کہ کوئی پھول جائے تو اس کی کیفیت کیا ہوتی ہے کہ ہم زمینی مخلوق حالات و واقعات کو کچھ مختلف زاویوں سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ ہم تو یہ سن کر بھی مطمئن ہوجاتے ہیں کہ کچھ لوگ خوش ہیں‘ نئی رنگ سازی ہورہی ہے اور یہ کہ رنگ ساز تو بہت ہی شادمان ہیں۔ ہمارے دل میں بھی نرم‘ گداز خوشی کی ہلکی ہلکی لہر اٹھتی ہے کہ بجلی چور پکڑے جارہے ہیں‘ تقسیم کار کمپنیوں کے چوری میں معاونت کرنے والے ملازمین کے خلاف انکوائریاں شروع ہوچکی ہیں‘ ملکی دولت لوٹنے والوں کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ یہ تو کچھ عرصہ بعد ہی پتہ چلے گا‘ اگر چل سکا اور ہم تب تک زندہ رہے‘ کہ ہزاروں میں سے کتنے سو کے خلاف چھان بین ہوئی‘ کتنے اس جرم میں ملوث پائے گئے اور کتنے نوکری سے فارغ ہوئے۔ اگر آپ اس ملک میں رہتے ہیں اور ارد گرد دھیان رکھتے ہیں تو آپ کو بجلی چوروں کا علم ہوگا۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ چوری بہت سینہ زوری سے کی جاتی ہے۔ دروغ بر گردنِ راوی لیکن چوری اور ضائع ہونے والی توانائی کی قیمت زیادہ وہ اداکرتے ہیں جن کا اپنا استعمال بہت کم ہے۔
چند ہفتے قبل اپنے آبائی علاقے میں گیا تو کچھ ملنے والوں نے بجلی چوروں کے نام اس طرح گنوانا شروع کردیے جیسے وہ دو کا پہاڑا سنا رہے ہوں۔ سوال کرنے سے تو ہم باز نہیں آتے۔ پوچھ بیٹھے کہ ان کے افسروں میں ایس ڈی او اور ایکسین بھی تو ہوں گے۔ ان کو معلوم نہیں کہ چوری کون کرا رہا ہے اور کون کررہے ہیں ؟ جس سماج میں سب کچھ ہی الٹ پلٹ ہو‘ کوئی کل سیدھی نہ ہو‘ وہاں کوئی بے موقع سوال کر بیٹھے تو دوست کہتے ہیں کہ پتہ نہیں آپ کس دنیا میں رہتے ہیں۔بالکل درست۔ معاشرے میں ایسی ہوائیں چل رہی ہوں تو کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ بھی مسرور کن بات ہے کہ مقتدر طبقے کو کچھ نگران مخبروں نے اطلاع دی ہے کہ ملک میں بجلی کی چوری اتنی بڑھ چکی ہے کہ بجلی گھروں اور میٹروں کے درمیان چالیس فیصد بجلی غائب ہوجاتی ہے۔ یہ دنیا میں سب سے مہنگی بجلی کی سب سے زیادہ ضائع ہونے کی مقدار ہے۔ آپس کی بات ہے‘ یہ ضائع نہیں ہوتی‘ تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین چوری کرتے اور کرواتے ہیں۔ ہمارے لوگ جن میں امیر غریب اور متوسط طبقے کے سب لوگ شامل ہیں‘ اخلاقی گراوٹ کی سب حدیں پار کرچکے ہیں۔ لائن مینوں کو بھتہ دیتے ہیں اور موقع ملے تو سینہ زوری بھی کرتے ہیں۔ ہمارے جنوبی پنجاب سے ایک سابق ایم پی اے کے بارے میں خبر آئی ہے کہ اُنہیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا ہے۔ ویسے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ جس طرح مقدمات کی بھرمار ہے کہیں یہ بھی کسی معتوب جماعت سے تعلق نہ رکھتے ہوں۔ یہ بھی غلط نہیں کہ مقامی طور پر طاقتور افراددھونس‘ دھاندلی اور ضرورت پڑنے پر کچھ نوٹ پھینک کر ایسے کام کرنا اور کرانا اپنی شان سمجھتے ہیں۔ وہ اس پر مطلق نادم یا شرمسار نہیں ہوتے‘ بلکہ یہ ان کے لیے نظریۂ ضرورت کی ایک قسم ہے۔ سنا ہے کہ گیس بھی چوری کی جارہی ہے۔ یہ بھی ابھی معلوم ہوا ہے۔ اونچے برجوں میں رہنے والوں کو صرف آسمان پر تیرتے بادل‘ بارش کی ٹھنڈی پھوار اور مارگلہ کی سرسبز پہاڑیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ نیچے زمین کی طرف حکمرانوں کی نظر جاتی نہیں تو انہیں ہم مورد ِالزام کیسے ٹھہرا سکتے ہیں کہ گزشتہ چالیس برس سے گیس اور بجلی چوری ہوتے دیکھتے رہے اور خموشی سے اپنے فروغ‘ روزگار اورٹھنڈے ملکوں میں مستقبل کے سنہری خواب بُنتے رہے۔ تو کیا اس چوری کا واقعی کسی کو پتہ نہیں تھا؟ یہ بھی کسی کو معلوم نہیں تھا اور نہ اب ہے کہ اس ملک کی دولت لوٹ کر بیرونی کرنسیوں میں تبدیل کروا کے باہر لے جانے والے کون تھے‘ کون ہیں اور اقتدار کی باریاں لیتے ہوئے وہ کتنی بڑی گدیوں پررونق افروز ہوتے رہے؟ جس دن گزشتہ وزیراعظم کو عہدے کا حلف لینے کے لیے ایوانِ صدر مدعو کیا گیا‘ اُن پر منی لانڈرنگ کے الزام میں فردِ جرم عائد ہونی تھی۔ خبر رکھنے والے کہتے ہیں کہ شواہد اتنے ٹھوس تھے کہ مضبوط سے مضبوط دفاع کو بھی ریزہ ریزہ کر سکتے تھے۔
یہ بھی کس کو معلوم نہیں لیکن ابھی تک تو یہی خبر ہے کہ گزشتہ 16 ماہ میں قانون پہ قانون اور ترمیم پہ ترمیم اس زمرے میں تھی کہ جن کے خلاف ہزاروں اربوں کی کرپشن کے مقدمات ہیں اور جس عرق ریزی‘ محنت اور پیشہ ورانہ مہارت سے کام لیتے ہوئے کچھ ناقابلِ فروخت افسروں نے یہ مقدمات بنائے تھے‘ انہیں کیسے ختم کیا جائے ؟ نیب اب وہ نیب نہیں رہا۔ اگر عدالت عظمیٰ‘ جس میں ایک قیدی نے مقدمہ درج کررکھا ہے اور فیصلہ آنا باقی ہے‘ اسے ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکتی تو گزشتہ اڑتیس سالوں سے قائم مقدمات‘ الزامات‘ کارروائی اور کچھ فیصلے داخلِ دفتر ہو جائیں گے۔ یہ ہوئی ناں بات کہ اقتدار میں آجائیں تو ثبوت گم‘شواہد گم‘حساب کتاب کی دستاویزات ایسے ٹھکانے لگیں کہ سچ بات کرنے والوں کے منہ بند ہو جائیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ قانون کو اپنے حق میں بگاڑ کر لوگوں اور بڑی عدالت کی نظروں میں کبھی صاف ہوں گے یا نہیں‘ کچھ کہنا مشکل ہے۔
دل شاد ہے کہ اب منی لانڈرنگ کے کاروباری حلقوں اور ایران اور افغانستان کی سرحدوں سے سمگلنگ کرنے والوں کا پتہ چلایا جا رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے لاچار عوام اور اس مظلوم ملک کی آواز بھی سنی جائے گی اور اس تباہ کن کاروبار کی سرپرستی کرنے والوں کو بھی کہیں دور جیل میں ہمیشہ کے لیے بند کر کے پاکستان کی صنعت اور معیشت کو مزید نقصان سے بچایا جائے گا اور چوروں کو واقعی چور سمجھا جائے گا۔ گزشتہ چالیس‘ پچاس سال بلکہ اس سے بھی زیادہ کے دوران سمگلنگ مافیا کے بارے میں سنا ہے کہ وہ اتنا طاقتور ہے کہ اپنے پسندیدہ سینیٹرز منتخب کرانے کے لیے سرمایہ کاری بھی کرتا ہے۔ اس کے بارے میں اوپر کے حلقوں تک خبر پہنچ چکی ہے۔ کوئی بات نہیں کہ سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے ہیں۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ ہوش کا یہ عرصہ دائمی ہے یا عارضی۔
کسٹم کے محکمے کے ہوتے ہوئے‘ جن کے افسروں کو ہمارا غریب طبقہ پالتا آیا ہے‘ یہ اربوں ڈالرز کی سمگلنگ کیسے ممکن ہوئی ؟ کیا ان سے کوئی یہ سوال کرپائے گا؟ ویسے اگر چاہیں تو مقتدر لوگ اس محکمے کے کچھ ریٹائرڈ افسروں کی دولت کی چھان بین کر کے دیکھ لیں‘جواب مل جائے گا۔ کس کس کی ناجائز دولت کے بارے میں کوئی بات کرے‘ لیکن اگر ہاتھ صرف بجلی چوروں اور گیس چوروں کے خلاف ہی اُٹھ سکتا ہے اور بڑے چور بیرونی دنیا کے محلوں میں رہیں اورملک میں آتے ہی اقتدار کے نسل در نسل وارث بنتے رہیں تو خوش ہونے والے بے شک خوش ہوتے رہیں بلکہ شاعر کا وہ مصرع کچھ دیر کے لیے دہرائیں کہ یہ چمن یوں ہی رہے گا اور جو اُڑنے والے ہیں اُڑ کر جہاں جی چاہے چلے جائیں‘ اور پھرواپس آکر مسندِ اقتدار سنبھال لیں۔ ہمیں بھی ان اچھی خبروں پر مبارک باد پیش کرنے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ مبارک ہو‘ قدم بڑھائو‘ قوم آپ کے ساتھ ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر