نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان میں اقلیتی مادری زبانیں||زبیر توروالی

"محّب وطن" حلقوں کی طرف سے مسلسل کوشش کے باوجود اردو کو وہ مقام نہیں دیا سکا جس کا ذکر آئین اور تعلیمی حکمت عملیوں میں بار بار کیا گیا۔ تاہم اس عمل کا اثر دوسری لسانی اکائیوں پر بہت برا ہوا۔ ریاست کی جانب سے مسلسل انکار کی بدولت ان اکائیوں کی شناخت اور زبانیں ختم ہونے لگیں۔ ان زبانوں میں اکثریت اب معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں اور کئی ایک تو پہلے سے ہی مٹ چکی ہیں۔

زبیرتوروالی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پاکستان میں 70 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مگر "قومی زبان” اردو اور "صوبائی زبانوں” پشتو، سندھی، پنجابی اور بلوچی کے علاوہ دیگر زبانوں کا علم کم ہی لوگوں کو ہوگا۔ بہت سارے لکھاری اور ماہرین ان دیگر زبانوں کو زبان ماننے کو بھی تیار نہیں۔ وہ ان کو ‘لہجے’ یا پھر ‘بولی’ ہی کہتے ہیں۔ حالنکہ یہ بولیاں یالہجے نہیں بلکہ زبانیں ہیں۔

پاکستان میں کئی اور مسئلوں کی طرح زبان اور لسانی شناخت کا مسئلہ شروع دن سے رہا ہے۔ پاکستان میں "ثقافتی اور لسانی تکثیریت” کے بجائے "یکسانیت” پر ہمیشہ زور دیا گیا ہے اور جن لوگوں نے اس نکتہ نظر سے اختلاف کیا ان کو غدّار قرار دیا گیا۔

"محّب وطن” حلقوں کی طرف سے مسلسل کوشش کے باوجود اردو کو وہ مقام نہیں دیا سکا جس کا ذکر آئین اور تعلیمی حکمت عملیوں میں بار بار کیا گیا۔ تاہم اس عمل کا اثر دوسری لسانی اکائیوں پر بہت برا ہوا۔ ریاست کی جانب سے مسلسل انکار کی بدولت ان اکائیوں کی شناخت اور زبانیں ختم ہونے لگیں۔ ان زبانوں میں اکثریت اب معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں اور کئی ایک تو پہلے سے ہی مٹ چکی ہیں۔

پاکستان میں بولی جانے والی ستّر میں سے پینتیس زبانیں شمالی پاکستان (کشمیر,گگت۔بلتستان,پوٹھوہار,ہزارہ اور ملاکنڈ ڈویژن)میں بولی جاتی ہیں۔ ان زبانوں میں انڈس کوہستانی، کھوار، کلاشہ، پلولہ، شینا، وخی، بروشسکی، بلتی، دمیلی، گوجری,پہاڑی,پوٹھوہاری,گاؤری اور توروالی وغیرہ شامل ہیں۔ دو پاکستانی زبانیں حالیہ سالوں میں مٹ چکی ہیں۔ ڈوماکی گلگت بلتستان میں بولی جاتی تھی جبکہ اشوجو سوات کے بشیگرام وادی میں بولی جاتی تھی۔

یہ زبانیں اپنے بولنے والوں کی طرح کئی مسئلوں سے دوچار ہیں۔ تقریباً ساروں میں کوئی standardized رسم الخط موجود نہیں اور اسکی وجہ سے ان زبانوں کو لکھنے کا رواج عام نہیں ہوا۔ ان زبانوں میں البتہ لوک ادب اپنی ہر صورت میں موجود ہے تاہم یہ ادب سینہ بہ سینہ نسلوں میں منتقل ہوتا ہے۔ لکھائی کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے مقامی حکمت اور تاریخ کے یہ خزینے معدوم ہوتے جارہے ہیں۔

ان کمیونیٹیوں میں "لسانی تبدیلی” یعنی language shift کا عمل تیز تر ہے کیونکہ ریاستی عدم دلچسپی کی وجہ سے لوگ اپنی زبانوں کو ترقی میں رکاوٹ سمجھ رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی زبان بھی اسکولوں میں ذریعہ تعلیم نہیں اور نہ ہی مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے ۔ اسی وجہ سے بچّوں اور نوجوانوں میں اپنی زبان چھوڑنے کا عمل تیز ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author