اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کے جلو میں عشرہ محرم با عافیت گزر گیا، موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پہ پابندی اور بعض اضلاع میں موبائل فون سروس بندش سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پہ خیبر پختون خوا میں، جہاں گورننس کے مسائل پیچیدہ و گھمبیر ہیں، شہریوں کی تکالیف دو چند تھیں تاہم طوعاً و کرہاً اس جبریت کو بسر و چشم قبول کر لیا گیا۔ خیبر پختون خوا کی روایات ہی دراصل انتظامی اتھارٹی کے مزاج کا تعین کرتی ہیں، انہی روایات کے تقاضوں میں یہ شامل ہے کہ اختیارات اور وسائل پہ تصرف کا حق تو انتظامی افسران کا ہو گا لیکن قیام امن کی ذمہ داری اس سفید پوش اشرافیہ کے کندھوں پہ ہو گی جو معمول کے دنوں میں پولیس اور انتظامیہ سے وابستگی کے ذریعے معاشرے میں اپنی حیثیت استوار رکھتی ہے۔
دور غلامی کی یادگار ”ڈیارکی“ سے مماثل یہ بندوبست سابق فاٹا میں تو کافی گہری جڑیں رکھتا تھا، چنانچہ اب قبائلی علاقوں کو ضم کرنے کے پانچ سال بعد بھی وہاں کے عمائدین آج بھی خود کو اس وقت تک باوقار نہیں سمجھتے جب تک وہ خود کو انتظامیہ سے وابستگی کا اہل ثابت کرنے کے لئے رضا کارانہ طور پہ وہ ذمہ داریاں اپنے سر نہ لاد لیں جن کے وہ اصولاً مجاز ہیں نہ اس کام کی انہیں کوئی اجرت ملتی ہے، اسی سے ملتی جلتی روایات خیبر پختون خوا کے بندوبستی اضلاع کے انتظامی ڈھانچہ میں بھی پائی جاتی تھیں اور اب بھی موجود ہیں۔
تاہم جنرل مشرف کے ابتدائی ایام میں بندوبستی اضلاع میں ڈپٹی کمشنر کے منصب کو غیر موثر کر کے امن عامہ کا اختیار پولیس کو تفویض کرنے کے بعد ان سماجی روایات کی بنیادیں ہل گئیں، ایک تو پولیس کے پاس انتظامی امور چلانے کی وہ مہارت نہیں تھی جو ڈی ایم جی آفیسرز کا خاصہ تھی، اگر پولیس سے کوئی شہری انسانی حقوق اور فوجداری قوانین پہ بحث و مباحثہ یا دلائل دینے کی جسارت کرے تو تھانیدار کا ہاتھ غیر ارادی طور پہ پستول کی طرف اٹھتا ہے کیونکہ اسے صرف قوت کا استعمال سکھایا گیا، یہاں فن حکمرانی کے لئے درکار وہ ذہنی لچک معدوم ہے جو انتظامی اتھارٹی کا جوہر سمجھی جاتی ہے، دوسرے سوشل میڈیا کی حرکیات نے اس نفسیاتی حصار کو توڑ ڈالا جو کبھی انتظامیہ کی رٹ کو برقرار رکھنے میں بالواسطہ طور پہ اہم کردار ادا کرتا تھا چنانچہ پولیس کی لاٹھی کے سہارے کھڑا چوتھا مارشل لا بری طرح ناکام ہو کر نہایت تیزی سے فورسز کو عوام کے مقابل لے آیا۔ حالانکہ ڈیرہ اسماعیل خان کی حد تک تو یہی کام یعنی موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پہ پابندی یا موبائل فون سروس کا تعطل، جو محرم الحرام پہ کیا گیا، بہتر طریقہ سے بھی سرانجام دیا جا سکتا تھا، پولیس اگر مقامی سیاسی لیڈر شپ، علماءکرام، عمائدین شہر اور تاجروں کی لیڈرشپ کو بلا کر ان سے تجاویز مانگتی اور انہی کے تعاون سے ایسے ناگزیر اقدامات پیشگی عوام کے علم میں لا کر انہیں ذہنی طور تیار کر لیتی تو ان پابندیوں کے نفاذ کو عوام بخوشی قبول کر لیتے اور شہری و ریاست کے مابین عمرانی معاہدہ متاثر نہ ہوتا۔
خوش قسمتی سے اس عشرہ محرم میں یہاں جس طرح اہل سنت کے علماءکرام اور عمائدین نے امام بارگاہوں پہ جا کر اہل تشیع کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا، مذہبی رواداری کے اس مثبت عمل کے نتائج کو دیر پا بنانے کا تقاضا یہی تھا کہ ماحول کو ہموار اور فضا کو خوشگوار رکھا جائے مگر افسوس کہ بغیر کسی حکمت عملی کے اچانک سختیاں کر کے دونوں مکاتب فکر کے شہریوں کو بھڑکا دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے قبل فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاؤں کی کامیابی کا انحصار چو نکہ سول بیوروکریسی کی مہارت پہ استوار تھا اس لئے عوام اور مقتدرہ کے درمیان کشن کا کام کرنے والی بیوروکریسی اپنی منیجمنٹ کی مہارت سے شہریوں کے بنیادی حقوق، سماجی آزادیوں اور معاشرتی روایات کو متاثر ہونے سے بچا کر عوام اور فوج کے مابین وفاداری کا رشتہ برقرار رکھ لیتی تھی، جس سے مملکت کا انتظامی ڈھانچہ مضبوط، معاشرہ مربوط اور پولیس سمیت دیگر فورسز کو عوام سے براہ راست ڈیلنگ کے جنجال سے نجات مل جاتی۔
سول انتظامیہ کا یہی منظم ڈھانچہ پچاس سالوں تک مارشل لاؤں کو قابل برداشت بنانے کے علاوہ شہری زندگی اور معاشرتی نظام کو ریگولیٹ کرتا رہا۔ اگر ہم پلٹ کے دیکھیں تو انگریز کا عہد بھی کوئی جمہوری دور نہیں تھا بلکہ گوروں نے تو مارشل لاء سے بھی زیادہ سنگین آمریت قائم رکھی لیکن اپنی حاکمیت کو عوام کے لئے قابل قبول بنانے کے لئے انہوں نے بتدریج سول بیوروکریسی کا ایسا منظم ڈھانچہ تعمیر کیا جو عوام اور ریاست کے مابین کمیونیکیشن کا موثر وسیلہ بن گیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ 1757 میں جب پہلی بار ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کا انتظام سنبھالا تو وہاں ٹیکس اکٹھا کرنے کی خاطر ڈپٹی کلیکٹر (ڈی سی) کا عہدہ تخلیق کیا گیا جس کے پاس ٹیکس جمع کرنے کا فقط ایک اختیار تھا، بعد میں جب کچھ لوگ ٹیکس دینے سے انکاری ہوئے تو برٹش پارلیمنٹ نے ڈی سی کو ٹیکس نادہندہ کو گرفتار کرنے کا دوسرا اختیار تفویض کیا، بعد میں یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ گرفتاری کے باوجود بھی اگر نادہندہ ٹیکس دینے سے انکاری ہو تو اسے ڈسپوز آف کیسے کیا جائے؟
چنانچہ ایسے میں ڈی سی کو پہلے ایک ماہ، پھر دو ماہ اور آخرکار ملزم کو تین ماہ تک قید رکھنے کا اختیار مل گیا، یوں 1857 تک پورے سو سال میں بتدریج کم و بیش ایک سو بارہ اختیارات تفویض کر کے ڈپٹی کمشنر کا وہ طاقتور انسٹیٹیوشن استوار کیا گیا جس نے عظیم ہندوستان پہ گورنمنٹ کی رٹ قائم رکھنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ 2001 تک ڈپٹی کمشنر کا یہ ادارہ پوری آب و تاب کے ساتھ گورنمنٹ کا چہرہ اور ریاستی املاک کا جائز وارث (سرکار خاطر مدار) بنا رہا لیکن جنرل مشرف نے چودہ اگست 2000 کی شام صرف ایک اعلان کے ذریعے دو سو سال کے تجربات پہ محیط نظام کو گرا کر نیا شہری سسٹم مسلط کر دیا، جو وقت کی صرف ایک کروٹ کے ساتھ ناکارہ ہو گیا، اگر وہ چاہتے تو اس نئے نظام کو چاروں صوبوں کے ایک ایک ضلع میں نافذ کر کے پہلے آزماتے اور عملی تجربات کے ذریعے خامیوں کو دور کر کے بتدریج اس کے نافذ کا دائرہ عمل بڑھا سکتے تھے لیکن وہ چونکہ فوجی جنرل تھا اس لئے مہارت اور تجربات کی بجائے طاقت کے بل بوتے مسخر کرنے کے جوش میں آزمودہ اور مربوط نظام کو تحلیل کر کے مملکت کو حالات کے ایسے منجدھار میں چھوڑ گیا جہاں سے وہ واپس پلٹ نہیں سکتی۔
ڈپٹی کمشنر کا موثر عہدہ ختم کر کے شہری انتظام کو پولیس فورس کے سپرد کرنے کے نتیجہ میں عملاً گورنمنٹ کا وجود معدوم ہو گیا اور پورا معاشرہ، سول و ملٹری فورسز کی (Cursive power) قوت قہرہ کے درمیان پسنے لگا۔ پولیس فورس حکمت اور مہارت کی بجائے ڈنڈے سے شہریوں کو ڈیل کرنے لگی تو ریاست کے ساتھ عوام کی وفاداری کا تعلق کمزور اور باہمی ہمدردی کا جذبہ کم ہوتا گیا، جس سے گورننس بتدریج کمزور ہوتے ہوتے اس مقام تک آ پہنچی کہ اب اگر حکومت صرف تجاوزات ہٹانے کے جسارت کرے تو بغاوت کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔
انگریز دور کے قائم کردہ تقسیم اختیارات کے مضبوط ڈھانچہ ٹوٹنے کے بعد اختیارات کی کھنچا تانی میں ڈی سی، ایس پی، عدالتیں اور فورسز سمیت ہر ادارہ اپنی قانونی حدود و قیود گنوا بیٹھا، اس وقت کوئی ادارہ درست طور پہ اپنا کام کرے نہ کرے لیکن دوسرے محکموں کی حدود میں مداخلت کے ذریعے بگاڑ پیدا کرنے میں آزاد ہے۔ انتظامی مہارتیں دراصل قیادت کی منظم شکل ہیں اور انتظامی قیادت، جو شہریوں پر اثرانداز ہونے کا وہ عمل ہے، جو ان کی کوششوں کو مقاصد اور اہداف کے حصول کی طرف لے جاتی ہے۔
یہی کام ڈسٹرک منیجمنٹ ڈھائی سو سال تک سر انجام دیتی رہی، یہ ڈپٹی کمشنر تھا جو کاشتکاری کے لئے حقوق آبپاشی سے لے کر حیوانات کے تحفظ، بازاروں کی تجارت، خرید و فروخت کی منڈیوں اور صنعتی ڈھانچوں کو ریگولیٹ کر کے پیداواری عمل کو نتیجہ خیز بناتا تھا اور اسی انتظامی و سماجی عمل کے دوران پیدا ہونے والے مسائل کے حل کی خاطر نئے آئیڈیاز تخلیق کر کے ایسی فعالیت کو مہمیز دیتا جو پیداواریت اور کارکردگی کو بہتر بناتی تھی۔ ڈیرہ جات جیسے ان دامانی علاقوں میں رود کوہی نظام آبپاشی کی تخلیق اسی اپچ کی کلاسیکی مثال ہے، جہاں پینے کا پانی تک میسر نہیں تھا۔ ڈی سی نئی پالیسیوں اور طریقہ کار کے ساتھ مستقبل کے مسائل کو روکنے کی صلاحیت سے بھی بہرہ ور تھا۔
یہ بھی پڑھیے:
کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان
اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان
پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان
افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان
عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر