مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’بچے، غریب والدین اور سنگدل مالک!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

بچہ ریاست کی ذمہ داری ہے اور بچے سے بیگار لینے پر قانون کا حرکت میں نہ آنا۔ کیا کہیں کہ قانون والے ہی قانون کو کھلونا بنائے بیٹھے ہیں۔ گھر والی انوکھی لاڈلی۔ کیسے لاگو کریں اس پہ وہ قانون جس کا سہارا لے کر اونچی کرسی پر براجمان صحیح اور غلط کے بیچ انصاف بانٹنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے؟

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تکون پرانی ہے اور بات بھی پرانی!
لیکن جج صاحب کی بیوی کے ہاتھوں بچی پہ ظلم نیا ہے سو پھر سے زخم ادھیڑے لیتے ہیں۔
کہاں سے آتے ہیں امیر لوگوں کے گھروں میں بچے؟
غریب علاقوں سے۔
ماں باپ کیوں بھیجتے ہیں؟
اس لیے کہ ماں باپ کے پاس انہیں پالنے پوسنے کا انتظام نہیں۔
پیدا کیوں کرتے ہیں؟
پتہ نہیں۔ اور ماں باپ کو بھی پتہ نہیں۔
امیر لوگ بچے کیوں رکھتے ہیں؟

جیب بھاری ہے۔ علم نہیں حلال کہ حرام۔ سو چاہتے ہیں کہ نوکر چاکر آس پاس ہوں، خدمت کریں اور ان کے غصے، بد دماغی، انتشار، اضطراب اور پاگل پن کا کوڑا دان بھی بنیں۔

کیوں؟ آخر کیوں؟

طاقت کا نشہ سر پہ چڑھ کر جب بولتا ہے تب وہ اس انسان کو انسان نہیں رہنے دیتا بلکہ حیوان بنا دیتا ہے۔ حیوان حملہ کرنے سے پہلے کب یہ دیکھتا اور سوچتا ہے کہ سامنے کون ہے؟

بچہ یا بڑا؟

بھبنبھوڑنے اور چیر دینے کی خواہش اس کے جسم میں سرسراتی ہے۔ جب تک وہ کسی مظلوم و بے کس کی ہڈی پسلی ایک نہ کردے، اس کی طبیعت بحال نہیں ہوتی۔

سڑک پہ آوارہ گھومتا پاگل کتا۔
جنگلی بھیڑیا۔
زہریلا سانپ۔
لیکن ہم نے تو سنا ہے کہ جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے۔
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے۔
‎ ( زہرہ نگاہ)

ماتم اس بات کا ہے کہ ہم ٹھہرے جنگلوں کے مکینوں سے بھی بدتر۔ جنہیں بچوں پر بھی نہیں آتا۔ نہ ان کے جسم کو تختہ مشق بنانے سے، نہ ان کے کچے ذہن کو مضروب کرنے سے۔

کیا ہی بے حس لوگ ہیں ہم!
چلیے ماتم کے ساتھ ساتھ کچھ اور باتیں بھی کر لیں۔
ماں باپ، مالک اور بچے ایک تکون ہیں اور اس تکون میں ہمیں طے کرنا پڑے گا کہ ظالم کون اور مظلوم کون؟
کلیہ ایک ہی ہے۔ طاقت!
طاقتور، طاقتور ہی اس لیے ہے کہ سامنے والا اس کا ظلم روکنے کے لیے اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔
کیوں؟
اس لیے کہ کمزور میں اتنی ہمت کہاں؟
سو کون ہے کمزور؟

تکون کا سب سے کمزور مہرہ بچیاں اور بچے۔ وہ جو اس دنیا میں ماں باپ کے بنا سوچے سمجھے بنائے گئے جنسی تعلق کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں اور پھر ان کا وجود ماں باپ کے شکم جہنم کی آگ سرد کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

کس بچے کا جی چاہتا ہے کہ وہ گھر کا آنگن چھوڑ کر کسی غیر کی چھت کے تلے مشق ستم بنے؟ کون سا بچہ ماں کی گود کی گرمی سے نکلنا چاہتا ہو گا؟

کس بچے کا بچپن کتابوں، کھیل کود، آئس کریم اور پارک میں لگے جھولوں سے علیحدہ ہونا چاہتا ہو گا؟
کون کرتا ہے ان پہ یہ ظلم؟ ان سے یہ سب چھین کر؟

ریاست؟ جو ہر طرف سے آنکھیں بند کیے رکھتی ہے۔ وقت پڑے تو ایک آنکھ کھول کر ڈنگ ٹپاؤ پالیسی بنا لیتی ہے۔

بچہ ریاست کی ذمہ داری ہے اور بچے سے بیگار لینے پر قانون کا حرکت میں نہ آنا۔ کیا کہیں کہ قانون والے ہی قانون کو کھلونا بنائے بیٹھے ہیں۔ گھر والی انوکھی لاڈلی۔ کیسے لاگو کریں اس پہ وہ قانون جس کا سہارا لے کر اونچی کرسی پر براجمان صحیح اور غلط کے بیچ انصاف بانٹنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے؟

سڑکوں پر بھیک مانگتے بچے، گھروں میں بھاگ بھاگ کر کام کرتی چھوٹی بچیاں، ٹرکوں اور چائے خانوں میں جنسی تشدد سہتے چھوٹے، ورکشاپوں میں استاد کی مار کھاتے معصوم۔ کیا سوچتے ہوں گے اس وقت جب قد، جسم اور عمر میں ان سے کہیں بڑا کوئی انسان ان کے جسم کو تڑپتا دیکھ کر اپنی شہوت کو ٹھنڈا کرتا ہو گا؟ کیا وہ اس وقت بے اختیار چلا اٹھتے ہوں گے۔ ماں۔ مجھے بچاؤ!

ہمارا سوال یہ ہے، تکون کا ظالم، تکون کے کمزور ترین کے ساتھ جو کچھ کرتا ہے، کیا آپ کا اس سے دل نہیں دہلتا؟

آپ۔
ارباب اختیار؟
مذہب کے ٹھیکیدار؟
استاد؟
دانشور؟
جج؟
پولیس؟
عسکری قوت؟

بہت سال گزرے، ایسا ہی ایک بچہ تھا، اقبال مسیح۔ بہت مار کھایا کرتا تھا کارخانے کے مالک سے۔ ننھی سی جان نے فیصلہ کیا کہ بس بہت ہو گئی، اب اور نہیں۔ آگہی کی مہم چلائی، کامیاب ہوئی مگر تکون کے ظالم نے زندگی کی صورت میں خراج لے لیا۔

کچھ عرصہ پہلے راولپنڈی میں زہرا نام کی معصوم بچی توتے اڑا دینے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دی گئی۔ اس کا بھی نوحہ لکھا تھا ہم نے۔

طیبہ تو یاد ہی ہوگی جو دو ہزار سترہ میں ایک جج کے گھر بدترین تشدد کا شکار ہوئی۔ غور کیجیے جج صاحب!

کچھ نہ کچھ مہینوں کے بعد کوئی نہ کوئی کیس رپورٹ ہو جاتا ہے ۔ بچے کی خوش قسمتی اور مالک کی بدقسمتی۔ ہر طرف شور و غوغا ہوتا ہے، انصاف کی اپیلیں اور پھر سب ختم۔

بہت سوں کے حصے میں تو یہ سب بھی نہیں آتا، گمنام مقتول بن کر وقت کی گرد میں چھپ جاتے ہیں۔
وجہ جاننا چاہتے ہیں آپ اس ظلم کی؟

ہم وہ بے حس قوم ہیں جو بنیادی طور پہ انسانی حقوق پر یقین نہیں رکھتے۔ ہمارا زعم ہمیں دنیا کی بہترین قوم کی نوید تو سناتا ہے لیکن مغرب کی سازشوں کے ہاتھوں ہمیں ہمارا اصل مقام نہیں مل پاتا۔ یہ ہے وہ سوچ جو ہر وحشت پہ پردہ ڈال کر آپ کو پرسکون رکھتی ہے۔ گریبان چاک کرنا تو دور کی بات، گریبان میں جھانکنے بھی نہیں دیتی۔ جب بدصورتی کو مانیں گے نہیں، پہچانیں گے نہیں، تو کوئی بدلاؤ کیسے آ سکتا ہے۔ سب اچھا۔ ہاں بھئی سب اچھا۔ پاکستانی غیور۔ بہادر۔ جفاکش۔

بہت سے اس پہ تڑپ اٹھیں گے کہ ہم تو ایسے نہیں۔ جی اگر آپ ایسے نہیں تو آپ کو تڑپنے کی ضرورت بھی نہیں۔

لیکن کیا کبھی ایسے ویسے کا ہاتھ پکڑ کر روکا ہے آپ نے؟ یا محض تماش بینی تک ہی محدود ہیں۔ یاد رکھیے جو ظالم کا ہاتھ نہیں پکڑتا، وہ بھی اس کے کرتوت میں کسی نہ کسی طرح شامل یعنی حصہ بقدر جثہ!

مغرب کا ایک ادارہ ہے یونی سیف۔ نہ جانے کیسے ادھر ادھر کی رپورٹیں جمع کر کے ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے۔ دو ہزار چودہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اس دس ملکوں میں شامل ہے جہاں گھریلو ملازم بچوں کو معمولی بات پہ قتل کر دیا جاتا ہے۔

جی سن لیجیے۔ قتل۔
ڈانٹ پھٹکار سا ذہنی تشدد، جنسی تشدد اور مارپیٹ جیسے جسمانی تشدد کو تو ہم اہم ہی نہیں جانتے۔
ہو جاتا ہے ۔ کیا کریں؟ غصہ آ جاتا ہے۔
جن جج صاحب کی بیگم نے مار مار کے اس بچی کا جسم توڑ پھوڑ دیا ہے، نہ جانے کہاں دبکی بیٹھی ہیں؟
سنا ہے کہ شوہر ان کے ابتر ذہنی توازن کی آڑ لیتے ہوئے منمنا رہے ہیں۔

شوہر صاحب کیا ہمیں بتائیں گے کہ انہوں نے ذہنی ابتری کی شکار عورت کے لیے ایک کمسن بچی کو ملازم کیوں رکھا؟

ذہنی ابتری کے لیے اب تک کس کا علاج کیا گیا؟

کیا ان کا علاج یہ تو نہیں سمجھا گیا کہ وہ اپنی فرسٹریشن کے تحت کسی معصوم کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں، تاکہ ان کی وحشت کی آگ بجھے۔ آخر اس قدر تشدد ایک دن کی بات تو نہیں۔

جج صاحب آپ کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہوا، آپ برابر کے قصور وار ہیں، متشدد بیوی کو موقع مہیا کرتے ہوئے، اپنی آنکھ گھر میں ایک معصوم کی طرف سے بند کرتے ہوئے۔ اور کان؟ کیا آپ کے کان میں سیسہ تو نہیں ڈال دیا تھا آپ کی زوجہ محترمہ نے کہ آپ بچی کی چیخیں نہ سن سکیں؟

قانون سے انصاف کی توقع تو ہمیں نہیں مگر آپ سب۔
آپ سب پاکستانی شہری کیا اتنا کریں گے کہ اس فیملی کا حقہ پانی بند کر دیا جائے؟
آپ سب۔
ہمسائے۔
دوست۔
رشتے دار۔
خاندان۔
رضوانہ کے لہو کا قرض ہے یہ آپ سب پر۔

اور ساتھ میں ان سب کا بھی سوشل بائیکاٹ کیا جائے جو اپنے گھر کسی بچے کو گھریلو ملازم یا ملازمہ کے طور پہ رکھتے ہیں۔

جہاں دیکھیں، جب بھی دیکھیں، انگلی اٹھا کر، باآواز بلند کہیں، یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور ہم آپ جیسے لوگوں سے تعلق رکھنا نہیں چاہتے۔

ریسٹورینٹس ان لوگوں کو داخل نہ ہونے دیں جن کے ساتھ کوئی بچہ گھریلو ملازم ہو۔
شاید۔ شاید۔ کچھ بچے بچ جائیں!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: