حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترقی پسند سیاسی کارکن اور ہمارے ملتانی عزیز جمال لابر نے اپنے فیس بک اکائونٹ پر کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی و دانشور، نادر شاہ عادل کی علالت اور کسمپرسی کی مختصر پوسٹ کے ساتھ ان کی تصویر بھی شیئر کی۔ چند سطری پوسٹ اور شاہ جی کی تصویر دونوں بے بسی کا زندہ ثبوت تھے۔ نادر شاہ عادل کی علالت اور دگرگوں حالات بارے کچھ اور دوستوں نے بھی سوشل میڈیا پر آواز بلند کی
لگ بھگ 24 گھنٹے کے اندر سندھ حکومت نے ان کا سرکاری طور پر علاج کرانے کے لئے انہیں لیاری میں ان کی اقامت گاہ سے ہسپتال منتقل کردیا۔
سندھ حکومت کے محکمہ اطلاعات نے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی پوسٹوں پر نوٹس لیا یا بلاول ہائوس کے متوجہ کرنے پر نادر شاہ عادل کو کسی تاخیر کے بغیر علاج معالجے کے لئے ہسپتال منتقل کروایا جو بھی ہے خیر کا کام ہوا۔
سوشل میڈیا پر بات کرنے والے دوستوں اور بلاول ہائوس کراچی کے عملے کے ساتھ سندھ حکومت کا شکریہ کے اس نے انسان دوستی کا حق ادا کیا۔
افسوس ہے کہ صحافیوں کے وچولے لیڈر، پراپرٹی ڈیلر لیڈر اور کراچی پریس کلب کے ذمہ داران میں سے کسی کو نادر شاہ عادل کی حالت زار بارے کوئی علم نہیں تھا۔ معاملہ سوشل میڈیا کے توسط سے سامنے نہ آتا تو کیا ہوتا یہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ نادر شاہ عادل کی بطور قلم مزدور آخری ملازمت غالباً روزنامہ ایکسپریس کراچی کے ایڈیٹر کے طور پر تھی ۔
وہ نصف صدی سے صحافت کے کوچے میں قلم مزدوری کے جوہر دیکھارہے تھے۔ سندھ اور بلوچستان کی تہذیبی و سیاسی تاریخ کا انہیں حافظ کہا جاتا تھا۔ اپنی ملازمت کے آخری ادارے اور اس سے قبل وہ کراچی میں جن اخبارات سے منسلک رہے ان میں عشروں تک شائع ہونے والے ان کے سیاسی تجزیوں، ہفتہ وار سیاسی ڈائریز اور کالموں سے قارئین کے بڑے حلقے کے ساتھ ساتھ صحافت کے سنجیدہ طلباء نے بھی بھرپور استفادہ کیا۔
نادر شاہ عادل ہمارے دو استادان گرامی جناب عبدالقادر مگسی اور جناب فضل ادیب مرحوم کے منظور نظر تھے۔ سہولت سے کہیں تو اساتذہ کرام کے بااعتماد دوست اس طور وہ ہمارے لئے ہمیشہ قابل احترام ہوئے۔
جناب فضل ادیب خود بھی وسیع المطالعہ قلم مزدور تھے (حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے) وہ فرمایا کرتے تھے نادر شاہ عادل کو سندھ اور بلوچستان کے تاریخی و تہذیبی ورثے کے ساتھ سیاسی اتار چڑھائو اور جوڑ توڑ کی تاریخ ازبر ہے۔ سچ بھی یہی ہے۔
نادر شاہ عادل ایک اکل کھرے اصول پسند قلم مزدور ہیں وہ محنت کش صحافیوں کی اس نسل کی نشانی ہیں جو اپنی روشن فکری کے ساتھ صحافت کے کوچے میں آئی ۔ صحافت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ ایک رپورٹر سے اخبار کی ایڈیٹری تک کے سفر میں انہوں نے اپنے حق خدمت کے سوا کسی سے کوئی غرض رکھی نہ کبھی طمع کو قریب پھٹکنے دیا۔
یہ سوا پانچ اور پونے چھ فٹ والی صحافت 1985ء کے بعد سے شروع ہوئی۔ خیر چھوڑیئے یہ ہمارا موضوع نہیں اس پر پھر کسی دن بات کریں گے کہ سوا پانچ اور پونے چھ فٹ کی صحافت کیا ہوتی ہے ۔
ایک وقت تھا جب پاکستان میں اہل صحافت کسی نہ کسی نظریہ سے متاثر تھے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دائیں اور بائیں بازو یا قدرے آزاد خیال صحافی سبھی میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ ان میں سے کسی کو اپنے صحافتی مرتبے اور تعلقات کو معاشی حالات بہتر کرنے کا ذریعہ بنانے کا خیال تک نہیں چھوپایا۔
یہ چھوٹے موٹے ٹھیکے لینے، بلیک میل کرنے، درخواستیں اور فائلیں لے کر سرکاری دفاتر میں اٹھائے اٹھائے پھرنے والی نسل بہت بعد میں آئی۔
پی ایف یو جے کے دستور میں بھی تو قلم مزدور (صحافی) کی تعریف یہی لکھی ہے کہ صحافی وہ ہے جس کا چولہا صحافتی حق خدمت سے چلتا ہو یہ اور بات ہے کہ آجکل پی ایف یو جے کے مختلف دھڑوں کے بہت سارے لیڈران پراپرٹی ڈیلر ہیں کچھ ان سے بڑھ کر دائو پیچ کے ماہر بھی ہیں۔
صحافتی تنظیموں کو ایک سازش کے تحت برباد کرکے پہلے پریس کلبوں کو مرکزی کردار دلوایا گیا نتیجہ کیا نکلا یہ ملک بھر کے قلم مزدوروں کے سامنے ہے۔ صحافیوں کیلئے ویج بورڈ ایوارڈ کی طاقت اس وقت تک تھی جب تک این پی ٹی کے اخبارات مشرق، امروز، پاکستان ٹائمز وغیرہ رہے یہ اخبارات جس انجام سے دوچار ہوئے وہ کہانی سیاہ اوراق سے بھری پڑی ہے۔ این پی ٹی کے اخبارات کے بہت سارے ’’بڑے‘‘ این پی ٹی کے اخبارات سے ملازمت کا حق خدمت وصول کرنے کے ساتھ ساتھ اس وقت کے دو بڑے میڈیا گروپوں سے ماہانہ نذرانہ بھی وصول فرماتے رہے یہ نذرانہ انہیں اپنے اداروں این پی ٹی کے اخبارات کو تباہ کرنے کے لئے دیا جاتا تھا کیونکہ میڈیا گروپوں کے مالکان یہ سمجھتے تھے کہ جب تک این پی ٹی کے اخبارات موجود ہیں ویج بورڈ کے مطابق تنخواہیں و دیگر سہولتیں فراہم کرنا پڑیں گی۔
پہلے ان اخبارات کا جو کارکن صحافیوں کا مضبوط مورچہ تھے بندوبست کیا گیا پھر پی ایف یو جے کا انتظام ہوا اور اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ کارکن صحافیوں کے نام نہاد لیڈروں سے پوچھ لیجئے کہ آخری ویج بورڈ ایوارڈ کب آیا تھا اور اس کے مطابق کتنے میڈیا ہائوس کارکن صحافیوں کو تنخواہیں اور سہولتیں دیتے ہیں۔
جواب مل جائے تو ہمیں بھی آگاہ کیجئے گا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نادر شاہ عادل کی بے سروسامانی کی کہانی سوشل میڈیا پر آگئی۔ آواز سے آواز ملی سندھ حکومت نے سن لی۔ ابھی ہفتہ دس دن قبل لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی سید علی جاوید نقوی نے ’’10روپے میں کفن‘‘ والی ایک سچی کہانی سوشل میڈیا کے اپنے فیس بک اکائونٹ پر لکھی۔ یہ لاہور کے ہی ایک معروف صحافی کے سفر آخرت کی کہانی تھی جس کے کفن دفن کے لئے دس دس روپے چندہ جمع کیا گیا تھا۔ صحافیوں کی اکثریت کا حال یہی ہے آج بھی درجنوں اداروں میں ویج بورڈ تو کیا حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم ماہانہ اجرت سے 35سے 40 فیصد کم تنخواہ دی جاتی ہے۔
آپ کے جب تک ہاتھ پائوں اور دماغ چلتے ہیں ملازمت کرتے رہیں۔ جس دن اعصاب جواب دیں ملازمت ختم نہ کوئی مدد نہ پنشن وغیرہ۔ قلم مزدوروں کی اکثریت اخبارات کے مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دیتی ہے۔
آپ کو صرف رپورٹرز اور نمائندگان دیکھائی دیتے ہیں۔ نیوز، ایڈیٹوریل، میگزین سیکشنز اور روزانہ کی بنیاد پر شائع ہونے والے رنگین صفحات میں کام کرنے والے قلم مزدور نہیں۔
آپ پی ایف یو جے کے مختلف دھڑوں کے لیڈروں اور قائدین پریس کلبوں کی سماجی حیثیت کو ہی حرف آخر نہ سمجھ لیجئے۔
قلم مزدوروں کی اکثریت کے شب و روز نادر شاہ عادل کے حالات جیسے ہی ہیں۔ مالکان اور ہر حکومت وقت نے ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کیا۔ آزادی صحافت اصل میں مالکان کے مفادات کا نام ہے اس سے آگے کچھ ہے تو پراپرٹی ڈیلر لیڈروں کا کاروبار یا ایجنسیوں کے لئے خدمات سرانجام دے کر ناموری پانے والوں کا رہن سہن۔
ایک قلم مزدور جس نے نصف صدی کچھ کم یا اوپر اپنے نظریات کے عین مطابق زندگی بسر کرنے کو مقدم سمجھا ہو صحافتی حق خدمت کے سوا اِدھر اُدھر کی ماردھاڑ نہ کی ہو یہاں تک کے اس کے ادارے نے اسے سوشل سکیورٹی میں رجسٹر بھی نہ کرایا ہو ملازمت ختم ہونے پر کن حالات سے دوچار ہوتا ہے اس پر سر کھپانے سے پہلے یہ سوچئے کہ جو قلم مزدور منشی گیری، میڈیا منیجری، مخبری اور پراپرٹی ڈیلری نہیں کرتے ان کی محنت کا معاوضہ ویج بورڈ کے مطابق بھی نہیں ملتا وہ زندگی کی گاڑی کیسے کھینچتے ہوں گے؟
مکرر عرض ہے نادر شاہ عادل کے معاملے میں سوشل میڈیا پر بھرپور مہم نے سندھ حکومت کو متوجہ کردیا۔ اخبارات و چینلز کے مراکز بنے ہوئے شہروں میں درجنوں نہیں سینکڑوں نادر شاہ عادل ہیں کسی صحافتی تنظیم، پریس کلب اور دوسرے کو ان کی کوئی فکر نہیں۔
چلیں وفاقی حکومت کے ساتھ وہ صوبائی حکومتیں جنہوں نے ماضی میں اپنے صوبوں میں صحافی کالونیاں بنوائی تھیں ، صوبائی سطح پر ایک ایک جے آئی ٹی بنواکر تحقیقات کروالیں کہ کیا صحافی کالونیوں میں سوفیصد پلاٹ واقعی قلم مزدوروں کو ہی ملے تھے ؟
لیکن اس سے پہلے پی ایف یو جے کے مختلف دھڑے بتائیں کہ ویج بورڈ کا اطلاق کیوں نہیں ہوپاتا۔ اللہ نہ کرے کہ ہم سبھی کو پھر کسی نادر شاہ عادل جیسے حالات کا شکار بزرگ دوست کے لئے آواز بلند کرنا پڑے، بہتر ہوگا کہ آپ خود اپنی آواز بنیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر