نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان پالیسی: غیر سیاسی سوچ کے قبرستانی ہیولے (1)۔۔۔|| وجاہت مسعود

جولائی 1977 میں ضیا الحق کو ہر فوجی آمر کی طرح دو بنیادی سوالات کا سامنا تھا۔ اپنی حکومت کا قانونی جواز اور اپنی آمریت کی تاحد نگاہ طوالت۔ جسٹس انوار الحق کو چیف جسٹس مقرر کر کے ضیا الحق نے پہلا ہدف تو حاصل کر لیا لیکن بیرونی دنیا میں اپنی حیثیت تسلیم کروانا کار دارد تھا۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

12 جولائی کی صبح بلوچستان کے شمال مشرقی ضلع ژوب میں مذہبی دہشت گردوں کے قابل نفرین حملے کی مزاحمت کرتے ہوئے نو فوجی جوانوں نے وطن پر جان نچھاور کر دی۔ اسی روز صوبے کے مشرقی ضلع سوئی میں ایک اور حملے میں تین جوان شہید ہوئے۔ دونوں واقعات میں 5 دہشت گرد واصل جہنم ہوئے۔ رواں برس کے پہلے چھ ماہ میں دہشت گرد کارروائیوں میں 80 فیصد اضافہ ہوا ہے اور کل ملا کے 280 حملوں میں 500 سے زائد پاکستانی شہری شہید ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں دو نکات تشویش ناک ہیں۔ دہشت گرد فوجی اہداف اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ پاکستان کے باقاعدہ فوجی جوانوں اور دہشت گردوں میں اموات کا تناسب قریب قریب یکساں ہے۔ گویا اس غیر متناسب لڑائی میں دہشت گردوں کی لڑاکا صلاحیت بہتر ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے یہ ہمارے جوانوں کی بہادری کا معاملہ نہیں، فیصلہ سازوں کی ناقص پالیسیوں کا تاوان ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کبھی ہموار نہیں رہے۔ بہت پیچھے جائیے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کا سوال زیر غور تھا۔ پاکستان کے لیے مکمل رکنیت کی حمایت کرنے والا پہلا ملک بھارت تھا اور افغانستان نے سب سے آخر میں بادل نخواستہ پاکستان کے حق میں رائے دی تھی۔ اس قضیے کی جڑیں 19 ویں صدی میں روس اور برطانیہ کی نام نہاد گریٹ گیم سے ملتی ہیں۔ زار روس افغانستان میں پیش قدمی کر کے برطانوی ہند کی سرحد تک پہنچنا چاہتا تھا۔ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے وائسرائے ہند نے Mortimer Durand نامی سفارت کار کو افغانستان بھیجا۔ طویل مذاکرات کے بعد برطانوی ہند اور امیر افغانستان عبدالرحمن خان میں ڈیورنڈ لائن کے نام سے 1893 میں سرحدی حد بندی طے پا گئی اور روس کو بتا دیا گیا کہ اس سرحد کی خلاف ورزی کو براہ راست برطانیہ پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد ڈیورنڈ لائن پاکستان کے حصے میں آئی اور اقوام عالم نے اسے پاکستان کی بین الاقوامی سرحد تسلیم کیا۔ تاہم افغانستان کا موقف تھا کہ برطانوی راج کے ختم ہونے کے بعد ڈیورنڈ لائن کی قانونی حیثیت ختم ہو گئی ہے اور پاکستان میں پختون علاقوں پر افغانستان کا حق دعویٰ موجود ہے۔ افغانستان کا یہ یک طرفہ موقف کبھی بین الاقوامی پذیرائی حاصل نہیں کر پایا۔ افغانستان کو سمندر تک رسائی کے لیے پاکستان کی ضرورت پڑتی ہے۔ دوسری طرف سرحد کے دونوں جانب موجود افغان قبائل میں تاریخی، ثقافتی اور معاشی روابط موجود رہے ہیں۔ چنانچہ جون 1947 میں پختون قبائل نے بنوں قرارداد کے ذریعے آزاد پختونستان کا مطالبہ کیا تاہم کلیمنٹ ایٹلی کی لیبر حکومت نے یہ مطالبہ ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ صوبہ سرحد میں کانگرس اور سرخ پوش تحریک کی مخلوط حکومت کے باعث صوبائی اسمبلی میں پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور ہونا مشکل تھا۔ اس مسلم اکثریتی منطقے کا مجوزہ بھارتی یونین سے جغرافیائی اتصال بھی موجود نہیں تھا چنانچہ صوبہ سرحد میں استصواب رائے منعقد ہوا جس میں مسلم لیگ کو واضح برتری حاصل ہوئی۔

اس پیچیدہ صورت حال میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سرد جنگ کی حرکیات بھی شامل ہو گئی۔ بھارت، قوم پرست پختون عناصر اور سوویت یونین میں مفادات کا نامیاتی تعلق موجود تھا جبکہ پاکستان نے واضح طور پر مغربی بلاک میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ سرد جنگ میں سرمایہ دار دنیا کے بیانیے میں مذہب کے نام پر سیاست بھی شامل تھی چنانچہ پاکستان کی ریاست اور قوم پرست سیکولر پختون آبادی میں تناﺅ پیدا ہو گیا۔ 1971 میں بنگلہ دیش الگ ہونے کے بعد بچے کھچے پاکستان میں علیحدگی پسند عناصر کا خوف بڑھ گیا۔ 1973 میں بلوچستان پر فوج کشی سے حالات مزید مخدوش ہو گئے۔ پاکستان میں وفاق کی اکائیوں پر اعتماد کی بجائے اسی مذہبی سیاست پر تکیہ کیا گیا جو مشرقی اور مغربی پاکستان کو متحد رکھنے میں ناکام رہی تھی۔ جارج بش کے مشیر پیٹر ٹامسن کے مطابق گل بدین حکمت یار 60 ءکی دہائی کے اواخر میں بھی امریکی ایجنٹ تھا اور ہر ماہ اپنا بھتہ وصول کرنے اسلام آباد آتا تھا۔ افغانستان، پاکستان کے انتہا پسند پختون قوم پرستوں کی سرپرستی کر رہا تھا تو پاکستان بھی سرکاری ہیلی کاپٹروں میں حکمت یار، ربانی اور سیاف جیسے عناصر کو اپنے ہاں لا کر تربیت دے رہا تھا۔ اس کے باوجود اگست 1976 میں سردار داﺅ د پاکستان آئے تو انہوں نے ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم بیس برس بعد پاکستان کی پروردہ طالبان حکومت نے یہ کہہ کر ڈیورنڈ لائن کو ماننے سے انکار کر دیا کہ مسلمان ممالک کے درمیان سرحدوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ البتہ طالبان نے بین الاقوامی سرحدوں کے تعین میں ایران سے اس اسلامی رشتے کا تذکرہ نہیں کیا۔

جولائی 1977 میں ضیا الحق کو ہر فوجی آمر کی طرح دو بنیادی سوالات کا سامنا تھا۔ اپنی حکومت کا قانونی جواز اور اپنی آمریت کی تاحد نگاہ طوالت۔ جسٹس انوار الحق کو چیف جسٹس مقرر کر کے ضیا الحق نے پہلا ہدف تو حاصل کر لیا لیکن بیرونی دنیا میں اپنی حیثیت تسلیم کروانا کار دارد تھا۔ 25 دسمبر 1979 کو سوویت یونین نے افغانستان میں تین ڈویژن فوج اتاری تو ضیا الحق کو امید کی کرن نظر آئی۔ جمی کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر bigniew Brzezinski نے 12 مئی 1979 کو امریکی صدر کے نام ایک یادداشت میں لکھا کہ سوویت یونین پاکستان کے راستے بحیرہ ہند کے گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا ہے۔ یہ رائے حقائق کے قطعی منافی تھی کیونکہ پہلی عالمی جنگ کے دوران روس اپنے شمال مشرقی شہر Murmansk کی بندرگاہ تعمیر کر چکا تھا جو سارا سال جہاز رانی کے لیے دستیاب تھی۔ Brzezinski کی یہ رائے پاکستان میں جنرل جیلانی، جنرل فضل حق اور جنرل مجیب الرحمن جیسے طالع آزما کرداروں کے لیے بے حد مفید ثابت ہوئی۔ خود ضیا الحق نے گرم پانیوں تک پہنچنے کے از کار رفتہ نظریے کو اس تواتر سے دہرایا گویا لیونڈ بریژنیف کراچی کے ساحل پر گرم پانیوں میں حمام کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ (جاری ہے )

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author