رضوان ظفر گورمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے لگتا ہے میں پاگل ہو رہا ہوں۔ شاید یہ شوکت نواز نیازی کے تراجم کا اثر ہے۔ ژاں پال سارتر میرے ذہن پہ قبضہ جما کے بیٹھ گیا ہے یا ہو سکتا ہے یہ اداسی ہو جو چپکے سے پنجے گاڑے بیٹھی ہو۔
مجھے آج کل نیند نہیں آتی۔ ٹھنڈے ہوادار کمرے میں گھٹن ہونے لگتی ہے۔ میں رات کو اکثر اٹھ کر باہر نکل جاتا ہوں۔ میں باہر صحن میں بیٹھ کر موبائل کا کیمرہ کھول کر بے مقصد اس کی سیٹنگ بگاڑتا ہوں اندھیرے کی تصویریں بناتا ہوں۔ پھر مجھے اچھا خاصا کھلا صحن سکڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ہمسائیوں کے گھر میں لگا نیم کا درخت بہت پرانا ہے۔ میرے ہمسائیوں کا گھر بھی پرانا ہے۔ پھر مجھے یاد آتا ہے میرا گھر بھی پرانا ہے اس گھر کو انگریزوں نے بنایا تھا۔
جب وہ پنجاب میں نہری نظام بنا رہے تھے۔ میرے والد نہروں کو رواں رکھنے کے لیے بنائے جانے والے محکمے میں ملازم ہیں۔ یہ دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے ہے دراصل یہ نہروں کا پانی بند کرنے کے محکمہ میں ملازم ہیں۔ ہمارے مغرب میں چند کلومیٹر کے فاصلے پہ دریائے سندھ بہتا ہے۔ دریا فطرت ہے یہ بہتا رہتا ہے راستے میں آنے والی نہریں جو دریا سے نکلتی ہیں وہی جنہیں انگریزوں نے بنایا ہے۔ دریا ان کی پیاس بجھاتا ہوا آگے بڑھتا رہتا تھا مگر اب ہماری حکومت نے ان نہروں پہ گیٹ لگا دیے ہیں میرے والد کا محکمہ یہ گیٹ بند کرنے کا کام کرتا ہے۔
یہ اکثر دو وجوہات کی وجہ سے بند ہوتی ہیں اک جب کوئی اس میں چھلانگ لگا کر زندگی کا خاتمہ کرتا ہے تب اس کے لواحقین افسران کی منت کرتے ہیں اور پھر نہر بند کر کے اس کی لاش نکال لے جاتے ہیں۔ لاش لے جانے سے قبل وہ افسر کا شکریہ ادا کرتے ہیں ہو سکتا ہے وہ انہیں سلیوٹ بھی مارتے ہوں۔ دوسری وجہ جب لاہور میں بیٹھے افسران یہاں حکم پہنچاتے ہیں کہ بس بہت ہو گیا۔ نہریں بند کر دو اب یہ پانی پنجاب استعمال کرے گا۔ میں اکثر سوچتا ہوں یہ ہمیں بھی پنجاب کا حصہ کہتے ہیں لیکن پھر بھی یہ پانی وسیب استعمال نہیں کرتا۔
شاید یہ بھارتی پنجاب کو پانی دیتے ہیں۔ خیر میں گھر کی بات کر رہا تھا۔ نہیں میں گھر کی نہیں گھر میں نیم کے درخت کی بات کر رہا تھا اس پہ کوے رہتے ہیں۔ رات کو جب صحن سکڑتا ہے تو ہمسائیوں کی چھت پہ دو بلیاں لڑتی ہیں وہ کریہہ آوازیں نکالتی ہیں جس پہ کوے جاگ جاتے ہیں اور وہ کائیں کائیں شروع کر دیتے ہیں۔ مجھے خوف گھیر لیتا ہے میں صحن سے باہر نکل آتا ہوں باہر میدان ہے جہاں ہم کرکٹ کھیلتے تھے اب وہاں لیکن سیوریج کا پانی کھڑا ہوتا ہے۔
ہماری بوسیدہ کالونی کے بالکل ساتھ شہر کی مہنگی اور پوش ترین کالونی متصل ہے انہوں نے ہماری طرف کھلنے والا گیٹ بند کر رکھا ہے لیکن سیوریج کا نالہ کھول رکھا ہے ان کا یہ پانی ہمارے میدان میں کھڑا ہے۔ شکایت کریں تو کہتے ہیں تم بے وقوف ہو یہ پانی قیمتی ہے تم جو سبزیاں کھاتے ہو معلوم ہے وہ اسی پانی سے اس قدر سبز اور نارنجی ہوتی ہیں۔ وہ ٹھیک کہتے ہوں گے شاید یہ پانی بہت قیمتی ہو گا لیکن مجھے قیمتی چیزوں سے نفرت ہے۔ میں ان سے نفرت کرتا ہوں کیونکہ میں قیمتی چیز کی قیمت ادا کرنے سے قاصر رہتا ہوں۔
میں رات رات بھر سڑکیں ناپتا ہوں یہ سڑکیں اس وقت بہت وسیع اور کھلی کھلی ہوتی ہیں دن میں البتہ یہاں ریڑھی والے پتھارے والے اپنا سودا بیچتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کا بہت فائدہ ہے اب یہ آواز نہیں لگاتے یہ بٹن دباتے ہیں اور سارا دن سپیکر چیختے ہیں۔ چمن والا انگور اسی روپے پاؤ۔ چتری والا کیلا چار سو روپے درجن، لاڑکانے والا امرود، کشمیر کے سیب پانچ سو روپے۔ کوئی سپیکر اوصاف بتا رہا ہوتا ہے کھٹے میٹھے فالسے کوئی فائدے بتاتا ہے کہ ڈیڑھ سو والی خوبانی سو روپے پاؤ۔ میں دل ہی دل میں ان خالی سڑکوں پہ آواز لگا کر سودا بیچنے کی ناکام کوشش کرتا ہوں میں جب واپس آتا ہوں صبح ہو چکی ہوتی ہے
آریز جاگ کر یوٹیوب پہ کارٹون دیکھ رہا ہوتا ہے وہ مجھے دیکھ کر اک کان سے ائر بڈز نکال کر پوچھتا ہے بابا آپ کہاں گئے تھے۔ میرا جواب ہوتا ہے میں واک پہ گیا تھا وہ جلدی سے ائر بڈز کان میں ٹھونس لیتا ہے شاید بس اسے یہی سننا ہوتا ہے۔
میں اکثر شام کو بھی واک پہ جاتا ہوں۔
میں گھر سے نکل کر سیوریج والا میدان عبور کر کے شہر کے سویپرز کی بستی کے بیچ میں سے ہوتا ہوا ریلوے ٹریک کے ساتھ متصل روڈ پہ نکل آتا ہوں۔
ٹریک کے اس طرف پوش کالونی کی کوٹھیاں ہے اور مغرب کی طرف آموں کے باغات ہیں۔ ہر باغ کے سامنے اک چارپائی دھری ہوتی ہے جس کی پائنتی کی طرف اک بڑا سا ڈنڈا اڑسا ہوتا ہے کبھی کبھار یہاں کمزور بینائی والے بابے بیٹھے نظر آتے ہیں یہ باغ کے راکھے ہوتے ہیں۔ ان کا کام رات کو باغ کو چوری سے بچانا ہوتا ہے۔ میں ان باغات سے آگے نکل آتا ہوں یہاں اب ٹریک کے مغرب کی طرف کا اک باغ کاٹ کر شہر کی دوسری پوش کالونی ہے اس کالونی کے سامنے کالونی والوں نے اک جنگل اگایا ہے یہ اک ہی قسم کے درخت پہ مبنی ہے مجھے اس درخت کا نام معلوم نہیں یہ ہمارا وسیبی درخت نہیں یہ باہر کا درخت ہے اس پہ پھل نہیں اگتا یہ خوشبو بھی نہیں دیتا بس یہ کالونی والوں کے سٹیٹس کا پتا دیتا ہے کہ صاحب استطاعت لوگوں کا محلہ ہے یہاں کھجور کی طرح کے درخت بھی ہیں لیکن یہ کھجور نہیں ہیں ان پہ پھل نہیں ہوتا۔
میں سوچتا جاتا ہوں کہ آج کل لوگ ملک کے شمالی علاقہ جات کی سیر کر رہے ہیں سوشل میڈیا پہ تصاویر بھری پڑی ہیں اور میں ہوں کہ جنوب کی طرف جا رہا ہوں۔ پھر میں غیر ملکی درخت کے مصنوعی جنگل کے سامنے ٹریک کے ساتھ دھرے سیمنٹ کے بلاک دیکھ کر خود کو تسلی دیتا ہوں کہ یہ لوگ صرف اندرون ملک گھوم رہے ہیں میں اس وقت ممبئی کی مرین ڈرائیو پہ ہوں۔
یہ جنگل اور کالونی کی دیوار اک ساتھ ختم ہوتی ہے تو بھینسوں کا باڑہ شروع ہو جاتا ہے ٹریک کے اردگرد سارے سال کا سوکھا گوبر اور پوش کالونی کا کچرا اک پہاڑ کی صورت دکھائی دیتا ہے یہاں کتے اپنا کھانا ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ مجھے کتے پسند ہیں میں انہیں پالتا رہا ہوں لیکن اس لمحے مجھے ادراک ہوتا ہے کہ مجھے کتوں سے ڈر لگتا ہے یا ان کتوں سے جو اک ہڈی کے لیے اک دوسرے کو لہولہان کر رہے ہوتے ہیں شاید یہاں اک کتے نے جنگ میں شہادت پائی ہے کہتے رزق کی تلاش میں آنے والی موت شہادت ہوتی ہے۔ اللہ رحم دل ہے یقیناً وہ انسانوں کے ساتھ دیگر جانداروں کو بھی اگلے جہان اچھی جگہ دے گا۔
اس مرے ہوئے کتے کی ناگوار بو برداشت سے باہر ہو جاتی ہے تو میں ٹریک کی مشرق سائیڈ پہ روڈ پہ آ جاتا ہوں۔ یہاں شہر کے بڑے جاگیر دار کا محل ہے اس محل کی دیواروں پہ لوگ وال چاکنگ کر گئے ہیں۔ میں ان اشتہارات کو پڑھتا ہوں یہ مختلف تعلیمی اداروں کے ہیں۔ یہ وال چاکنگ دعویٰ کر رہی ہے کہ آپ اپنے بچوں کو ہمارے ادارے میں لائیں ہم انہیں علم و شعور سے موتر کریں گے۔
مجھے لگتا ہے پینٹر زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا وہ معطر لکھنا چاہتا ہو گا۔
آگے اک چوک آتا ہے جہاں دو بوڑھے اور اک ادھیڑ عمر سائیکل سوار کراس کر رہے ہوتے ہیں۔ میں اتنے سارے سائیکل اک ساتھ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ ابھی بھی سائیکل وجود رکھتے ہیں اب تو مڈل کلاس کے بچے چائنہ کی بائیکوں پہ سکول آتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ ہمارے بچپن میں سائیکل کتنے اہم اور عام تھے۔ ہم نے پھیری والے ہمیشہ سائیکل پہ دیکھے تھے آج تو یہ بھی موٹرسائیکل پہ پھیری لگا کر کچے امرود سبز سیب اور کھٹا اچار ردی کے ٹکڑوں میں ڈال کر تھماتے ہیں۔ ہمارے بچپن میں سائیکل پہ قلفہ اور فالودہ بھی بکا کرتا تھا آج کل بائیک پہ لال رنگ کی پلاسٹک کی ڈبیا میں تیسرے درجے کی دو نمبر کمپنیوں کی آئس کریم بیچتے ہیں پھیری والے۔
میں سوچتا ہوا ریلوے کراسنگ والے چوک پہ پہنچتا ہوں یہاں کوئی پھاٹک نہیں پھاٹک والا بھی نہیں بس دو لوہے کے گارڈر عمودی گاڑ دیے گئے ہیں ایسے ہی اک گارڈر کے سہارے پھیری والے کی بائیک کھڑی ہے۔ میں اندر جھانکتا ہوں مجھے خستہ پاپڑ اور 7 کلاس کی اسلامیات کی کتاب نظر آتی ہے شاید یہ پھیری والا سامنے والی مسجد میں نماز پڑھنے گیا ہے شاید یہ نیک آدمی ہے شاید اسی وجہ سے اسلامیات کی کتاب لیے پھرتا ہے یا پھر یہ اسلامیات کی کتاب کے ورق پہ بچوں کو پاپڑ دیتا ہے تا کہ وہ ہماری طرح چیز کھانے کے بعد کاغذ کے اس ٹکڑے کو پڑھیں ہمیں تب حیدر جاوید سید جیسے بائیں بازو والے کافروں کی تحریریں پڑھنے کو ملا کرتی تھیں۔ یہ نیک آدمی دین پھیلا رہا ہے اسے بھی میں جہاد کی اک قسم قرار دوں گا۔
میں آگے جاتا ہوں میرین ڈرائیو والی سلیبوں پہ گوبر کے اپلے لگے نظر آتے ہیں ساتھ قبرستان ہے میں گمان کرتا ہوں کہ فرشتے اسی کی آگ سے بے ایمانوں کو قبر کا عذاب دیتے ہوں گے۔
میں آگے بڑھتا جاتا ہوں مجھے اک اور پھیری والا ملتا ہے مجھے اصلی والے کھجور کا درخت ملتا ہے میں اس کی تصویر لیتا ہوں تو اس پار جھونپڑیاں لگائے خانہ بدوش نظر آتے ہیں۔ کمبختوں نے سارا منظر خراب کر دیا۔ آگے اک ٹریکٹر ٹرالی پہ سولر ٹیوب ویل لدا جا رہا ہے شاید کسی بھی وقت پنجاب کو پانی کی ضرورت پڑے اور اس کسان کی فصل خراب نہ ہو جائے وہ چائنہ کی بائیک پہ اس کے پیچھے ٹریکٹر ٹرالی کو ہانکتا ہوا جا رہا ہے۔ لال پلاسٹک کے ڈبے میں آئس کریم والا کراس کرتا ہے میں آم کے باغ میں جاتا ہوں۔
چٹے چونسے کو ابھی دیر ہے۔ مجھے لگتا ہے یہاں سانپ ہیں میں جلدی سے واپسی کی راہ لیتا ہوں ٹریک پہ مجھے کسی غریب بچی کا اک لاکٹ نظر آتا ہے نجانے یہ کیسے گر گیا بچی کی کتنی یادیں اس سے وابستہ ہوں گی۔ امیر اس معاملے میں اچھے ہیں وہ اپنا ماضی سنبھال کر رکھتے ہیں اپنے بچوں کو دادا کی شکاری بندوق دکھاتے ہیں ساتھ ہی ڈرائنگ روم میں شکار کے لٹکے سینگ بھی۔ ان کے پاس ان یادوں کو سینت کر رکھنے کی کشادہ جگہ ہوتی ہے۔
ارے مجھے اصلی کھجوروں کے درخت پہ ہد ہد کا گھونسلہ نظر آتا ہے یہ دوسرے پرندوں کی طرح گھاس پھونس یا تنکوں سے گھر نہیں بناتا یہ پوش علاقے کے باشندوں کی طرح درخت کے تنے میں سوراخ کر کے گھر بناتا ہے طوطے اکثر ان خالی گھونسلوں میں انڈے دیتے ہیں۔ لیکن شاید قدرت کو بھی توازن پسند ہے اس لیے اکثر ان گھس بیٹھیے طوطوں کے انڈے سانپ کھا جاتے ہیں بچے کھچے انڈوں سے جب بچے نکلتے ہیں تو لڑکے بالے اندھے بچوں کو لے جاتے ہیں ان کو لگتا ہے کہ اگر طوطے کا بچہ آنکھیں کھول لے تو وہ میاں مٹھو چوری کھاتا ہے جلدی نہیں بول پاتا۔ کچھ لڑکے طوطے میاں کو میٹھی چوری کے تقاضے کے لیے مرچیں بھی کھلاتے ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے میں اداس ہوں میں تو آج کل اس کی کال کو بھی کاٹ دیتا ہوں جس کا دعویٰ ہے وہ میرے بنا زندگی نہیں کاٹ پائے گی۔ وہ دلیل دیتی ہے کہ وہ لمحے نہیں کاٹ پاتی زندگی کیسے کاٹے گی۔ وہ بھی پاگل ہے جو میسر نہیں اس کی خواہش ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے مجھے شمالی علاقہ جات جانا میسر نہیں میں اس کی طرح پاگل نہیں ہوں میں فرض کر لیتا ہوں کہ میں اس شہر میں اجنبی ہوں اور یہاں سیر کو آیا ہوں۔ میں پیدل شہر کو نکل آتا ہوں راستے میں مجھے اک شناسا مل جاتا ہے۔
اوہ شٹ۔ وہ مجھے زبردستی بائیک پہ بٹھا لیتا ہے وہ پوچھتا ہے کہاں جا رہے ہو میں ریلوے سٹیشن کا کہہ دیتا ہوں۔ سٹیشن کے باہر مجھے مزید شناسا دوست ملتے ہیں میں فٹ سے خوش باش اور مسکرانے والا ماسک چہرے پہ لگا لیتا ہوں میں کسی کو شک میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا مزید پکا کرنے کو میں اک ان کے ساتھ اک سیلفی لیتا ہوں۔ پھر میں ریلوے سٹیشن آ جاتا ہوں مجھے یاد آتا ہے میں نے کہیں نہیں جانا مگر میں ریلوے کے عملے سے ٹرین کی آمد کا وقت پوچھتا ہوں۔
ریل آنے میں اک گھنٹہ باقی ہے میں شدت سے ٹرین کا انتظار کر رہا ہوں۔ ریلوے کب سدھرے گی ٹرین اپنے شیڈول سے 15 منٹ لیٹ ہے۔ میں ادھر نگاہیں دوڑاتا ہوں کچھ طالب علم اپنی اپنی درسگاہوں میں جانے کے لیے بیگ اٹھائے موبائل استعمال کر رہے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے اس شہر میں بلکہ اس ضلع میں کوئی بڑی درسگاہ نہیں لوگ جسے یونیورسٹی کہتے ہیں۔ مجھے یہ بھی یاد آتا ہے کہ ٹھیک دو سال پہلے آج ہی کے دن اس شہر کے ایم این اے نے اک نجی یونیورسٹی لانے کا اعلان کیا تھا۔
پر کوئی عمارت نہیں بنی حالانکہ وہ وفاقی وزیر ہاؤسنگ تھے۔ میں سر جھٹک کر ان فضول خیالات سے جان چھڑا کر دوبارہ لوگوں پہ توجہ مرکوز کرتا ہوں۔ مرجھائے ہوئے چہرے خالی آنکھوں سے ارد گرد دیکھ رہے ہیں۔ اک طرف کچھ مولوی حضرات جائے نماز لوٹا تسبیح پکڑے گروپ میں ٹھہرے ہیں۔ یہ دین کی تبلیغ کے لیے نکلے ہیں میں ان کے حق میں دعا کرتا ہوں
اتنے میں گھنٹی بجتی ہے مجھے لگتا ہے جیسے سکول میں چھٹی ہو گئی ہے مگر نہیں یہ تو ریل کے آنے کا سگنل ہے۔ وہ دیکھو خراماں خراماں بد مست ٹرین دھواں ڈکارتی ہوئی آ رہی ہے۔ اک دم سے بھگدڑ مچ گئی ہے اترنے والے مسافر اور سوار ہونے والے مسافر دروازوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کم عمر لڑکے ٹرنک اٹھا کر اترے ہیں پیچھے ان کی مائیں ادھ سوئے بچوں کو بغل میں دابے تیزی سے اتر رہی ہیں۔ میں اس کی اس جلدی پہ حیران ہوتا ہوں پھر اک خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکتا ہے کہ ارے سکول میں چھٹیاں ہو گئی ہیں نانا نانی کے گھر جانے کا موسم آن پہنچا ہے ان خواتین کو ماں کے گھر اس گھر جہاں ان کا بچپن گزرا جہاں ان کی سکھیاں ہیں جہاں اس کے اپنے ہیں وہاں جانے کی جلدی ہو گی میرے بچے بھی تو نانو کے گھر جا چکے ہیں۔
میں ٹکیاں بیچتے جوانوں برگر اور چائے کے سٹالوں سے ہوتا ہوا بھیک مانگتے بچوں کو نظرانداز کرتا ہوا تیزی سے ریلوے سٹیشن کے بیرونی دروازے سے باہر آ جاتا ہوں۔ باہر ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے ارے اس شہر کا موسم تو اچھا ہے اشتہا انگیز خوشبوئیں ریلوے روڈ سے گزرنے والوں کی بھوک بڑھا رہی ہیں۔ مجھے یہ شہر پسند آیا میں اگلے چند دن اس شہر میں رکوں گا
مجھے اب جلد سے جلد درمیانے درجے کا اک ہوٹل ڈھونڈنا ہے یا کسی مسافر خانے یا سرائے کا پوچھنا ہے اک لمبے سفر نے مجھے تھکا دیا ہے۔ فی الحال میں آرام کروں گا۔ اگلے چند دن میں اس خوب صورت شہر میں رک کر اس کی سیر کروں گا۔ یہاں کی سٹریٹ فوڈ چکھوں گا یہاں کی مقامی ڈشز کھاؤں گا تصاویر بناؤں گا اور سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ کروں گا۔ آپ میرے اس سفر کا مزہ لیجیے میں اس شہر کی سیر عکس بند کروں گا اور آپ سے شیئر کروں گا مجھے لگتا ہے میں اب اچھا محسوس کر رہا ہوں۔ سیانے ٹھیک کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر ہے۔ سیاحت سے طبیعت پہ خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میں آپ سے جلد ملوں گا تب تک کے لیے اللہ حافظ
یہ بھی پڑھیں:
ملکی مسائل کا واحد حل۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
ریاستیں کیوں بنائی جاتی ہیں؟۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
تخت لہور اور سرائیکی وسیب کے سرائیکی محافظ۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
محرم کلیکشن،امام حسین کے کاپی رائٹس اور ہم سب۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی