موجودہ حکومت کا عوام کو سابقہ حکومت کی معاشی بدانتظامی سے آگاہ کرنا مقصود ہے لیکن یہ سب تب ہو گا جب سیاسی حکومت اعتماد سے آگے بڑھے گی کیونکہ اب اوکھلی میں سر دے دیا گیا ہے تو موسلوں سے کیا ڈرنا۔۔
عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تسلیم کریں یا نہ کریں گزشتہ چند ماہ میں پاکستان واقعی تبدیل ہو گیا ہے، میں اُس تبدیلی کی قطعاً بات نہیں کر رہی جو چار سال پہلے باقاعدہ لائی گئی تھی بلکہ گذشتہ صرف چند ماہ میں پاکستان میں وہ تبدیلی آئی ہے جو شاید کبھی کسی نے سوچی نہ تھی۔
آج سے چار سال قبل پاکستان میں طاقت کا مرکز پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ تھی۔
فیصلے اُن کی مرضی اور اُن کی ایما پر ہو رہے تھے۔ معیشت ہو یا سیاست، صحافت ہو یا معاشرت اس پر کہیں براہ راست اور کہیں بلاواسطہ اسٹیبلشمنٹ اثر انداز ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ اگست 2018 میں ایک بظاہر سیاسی جماعت آشیرباد سے پاکستان کی حکمران بنی اور اگر سیاسیات کے اصولوں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بظاہر سیاسی جماعت ایک فرقہ اور اب ایک ایسا پریشر گروپ بن چکی ہے، جسے ایک نئی اسٹیبلشمنٹ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
تحریک انصاف نے وہ کام کیا ہے جو اس سے قبل نہ کوئی سیاسی جماعت کر سکی اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ۔ تحریک انصاف طاقت کا مرکز کیسے بنی اس کا جائزہ لینا بےحد ضروری ہے۔
مارچ سے کہیں پہلے یا یوں کہیے کہ 2018 کے انتخابات کے فوری بعد اپوزیشن جماعتیں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا عہد کرتی دکھائی دیتی تھیں۔ اس دوران نواز شریف، آصف زرداری، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی، خورشید شاہ، خواجہ آصف، سعد رفیق، احسن اقبال اور کئی ایک رہنما جیل میں قید کر دیے گئے۔
خواہش تھی یا مطالبہ لیکن قومی اسمبلی کی فرنٹ کی دو صفیں خالی کر دی گئیں تاکہ من مانے فیصلے کیے جائیں، بدعنوانی کا بیانیہ مضبوط کیا جائے اور اسمبلی کے اندر کسی قسم کے دباؤ کا سامنا نہ ہو۔
پاور مینجمنٹ کے پہلے مرحلے سے پہلے ہی یعنی الیکشن سے قبل میڈیا مینجمنٹ ہو چکی تھی۔
سچ کہنے والے یا دوسری طرف کے بیانیے کو بھی متوازی وزن دینے والے صحافیوں، میڈیا کے اداروں کو یا تو سبق سکھایا جا چکا تھا یا اُنھیں مسلسل دباؤ کے زریعے کنٹرول کیا جا چکا تھا۔
سوشل میڈیا کے محاذ پر ففتھ جنریشن وار فیئر اپنی ہی سیاسی جماعتوں اور صحافیوں کے خلاف لانچ کی جا چکی تھی۔ غرض یہ کہ طاقت کے تمام مراکز عدلیہ، میڈیا اور پارلیمان کو کنٹرول میں لایا جا چکا تھا اور یوں ایک سٹیج بنا دیا گیا کہ عمران خان بغیر کسی دشواری کے مملکت کے امور چلائیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر