نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاریخ کا مذہب نہیں ہوتا۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکرر عرض کیئے دیتا ہوں سیاسیات عالم اور تاریخ کے حوالے سے جذباتی بیانیہ بنانے اور اس کی بنیاد پر رائے عامہ ہموار کرنے کی بجائے ہمیں حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔

اقوام کی برادری میں عصری شعور کے ساتھ قومی مفادات کا تحفظ اور آگے بڑھنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

ممالک کے درمیان تعلقات مذہب و عقیدے کی بنیاد پر استوار ہونے لگیں تو پھر لادین چین سب سے زیادہ قرضہ اہل کتاب امریکہ کو نہ دے۔

امریکہ ہندو دھرم کی جنم بھومی بھارت کی بجائے یورپی ممالک پر مہربان ہو۔

خود ہمارے بعض مہربان مسلم ممالک نے پچھلے چند برسوں کے دوران بھارت سے لگ بھگ 3سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کئے۔

یہ معاہدے ملائشیائ’ انڈونیشیا’ ترکی اور پاکستان سے کیوں نہ کئے گئے؟۔

چین نے سی پیک کے نام پر جو سرمایہ کاری اور قرضے پاکستان کو دئیے یا مزید دینے ہیں اس کے لئے اس نے کسی لا دین ملک کا انتخاب کیوں نہ کیا۔

یہ اور دوسرے بہت سارے سوالات ہمارے سامنے ہیں۔

ان سوالوں کا جواب تلاش کرکے رائے بنانا ہر شخص کا حق ہے لیکن سوالات پر ہی قدغن لگا دی جائے یہ مناسب نہیں ہوگا۔

ہمیں تاریخ کو انسانی تاریخ کے مختلف ادوار کے تناظر میں دیکھنا سمجھنا ہوگا۔

مثال کے طور پر جب ایران کے سائرس اعظم نے بابل کو فتح کیا تو اس نے بابل میں قیدی بنائے گئے یہودیوں کو آزاد کرکے ان کے مقدس شہر یروشلم جانے کی اجازت کیوں دی؟

 

بابل کی فتح سے تو یہ قیدی اس کے ہاتھ لگے تھے’

بخت نصر کے نالائق جانشینوں کو نہ صرف سائرس اعظم کے مقابل شکست ہوئی بلکہ بابل حکومت کی قید میں موجود یہودیوں کو آزادی مل گئی۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قیدیوں میں اللہ کے پیغمبر حضرت دانیالؑ بھی شامل تھے۔

یہ ایک مثال ہے ایسی درجنوں سینکڑوں مثالیں انسانی تاریخ کا حصہ ہیں۔

مصر سے یمن اور اردن سے حجاز (اب سعودی عرب) تک میں پھچلی ہزاری (ایک ہزار سال یا اس سے اوپر) کے دوران جن تاریخ نویس اور محققین نے تاریخ نویسی میں شہرت حاصل کی ان میں سے کسی نے سلطان صلاح الدین ایوبی اورمسیحی لشکروں کے درمیان ہوئی جنگوں کو صلیبی جنگ کہاں لکھا؟۔

عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ عرب تاریخ نویسوں کے برعکس متحدہ ہندوستان میں تاریخ کے موضوع پر جس بھی مسلمان نے قلم اٹھایا اس نے تاریخ کو اسلامی و غیر اسلامی ادوار کی شناختیں کیوں دیں؟

اسی ہندوستان میں تزک بابری سمیت مغل بادشاہوں کے سوانح نگاروں نے جو کتابیں لکھیں ان میں مسلم حکمران کی اصطلاح استعمال کیوں نہ کی گئی۔

سادہ جواب یہ ہے کہ مسلم یا اسلامی تاریخ کی شناخت برصغیر پر برطانوی سامراج کے تسلط کے زمانہ میں سامنے آئی۔

پچھلے ڈیڑھ دو سو سال سے ہم لکیر کے فقیر بنے اس سے مطالعہ کا رزق اٹھانے پر مجبور ہیں۔

اس کا فائدہ کیا ہوا اور نقصان کیا اس پر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے جس بات کو ہم نظر انداز کرتے چلے آرہے ہیں وہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں ابھرنے والی تحریکوں’ نئی جغرافیائی حد بندیوں’ نئے مذاہب اور پھر ان کے بطن سے جنم لینے والے عقائد تاریخ میں جگہ پاتے ہیں لیکن تاریخ کو محض ان سے منسوب کردینا درست نہیں ہوگا۔

کیا ہم بنو امیہ پر بنو عباس کی فتح اور بنو عباس کی خلافت کے کھنڈرات پر استوار ہوئی خلافت عثمانیہ کو اسلام کی نشاط ثانیہ کے طور پر دیکھیں سمجھیں گے یا ان ادوار کے سیاسی حالات میں در آئی تبدیلیوں کے حوالے سے؟۔

لاریب بنو امیہ’ بنو عباس اور عثمانی مسلمان تھے لیکن ان کے ادوار حکومت میں کیا اسلام مکمل ضابطہ حیات و نظام تھا یا اس کا نظام ہائے حکومت میں مناسب حصہ تھا؟

 

طالب علم کی رائے میں اس سوال کا جواب تلاش کرکے آگے بڑھنے سے ہمیں اپنے قریب کے ادوار کی صورتحال اور دیگر امور کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

مثال کے طور پر بر صغیر کے مسلم مغل حکمرانوں کے ادوار کو ہمارے تاریخ نویسوں میں سے بعض اسلامی حکمرانی کے ادوار کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ یہ پورا دور ماسوائے اورنگزیب عالمگیر کے اصل میں سیکولر نظام سے عبارت ہے وجہ وہی ہے کہ اکثریت کے ساتھ رہنے کے اصول حکمران سمجھتے تھے اس لئے کبھی بھی وہ قوانین نافذ نہیں ہوئے جو کسی اسلامی ریاست میں ہونے چاہئیں تھے۔

تاریخ کی اپنی سچائیاں ہیں۔

مکرر عرض ہے ماضی کی تاریخ میں مختلف ادوار کے حالات و واقعات کا رقم ہونا بنیادی طورپر تاریخ نویسی کے اصول سے عبارت ہے۔

یہ صرف متحدہ ہندوستان اور اب تقسیم شدہ برصغیر کے مسلمانوں کا مسئلہ اور المیہ ہے کہ وہ تاریخ کو بھی مذہب اور عقیدے کی آنکھ سے دیکھتے جیتے ہیں۔

مزید سادہ لفظوں میں بات یوں ہوگی کہ مذاہب و عقائد کی تاریخ ہوتی ہے کیونکہ یہ جاری تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں لیکن تاریخ کا مذہب اور عقیدہ نہیں ہوتا۔

یہی سچائی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

آپ ماضی کے ادوار کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے۔ بنو امیہ’ بنو عباس اور عثمانی یا فاطمی خلافتوں کے ادوار میں پڑوسی ممالک سے تعلقات کن بنیادوں پر تھے۔

یہ تعلقات دین کی بنیاد پر تھے یا سیاسی و معاشی بنیادوں پر؟۔

دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ آخر عصری عالمی سیاست یا ماضی کو مذہب و عقیدے کی آنکھ سے دیکھنے میں

بر صغیر پاک و ہند کے مسلمان ہمیشہ پیش پیش کیوں رہتے ہیں؟

خود بلاد عرب یا دوسرے غیر عرب مسلم ممالک میں یہ فہم رواج کیوں نہیں پاسکی۔

باردگر عرض ہے کہ عصری سیاسی شعور معیشت و سفارتکاری کہیں بھی آپ سے اپنا مذہب یا عقیدہ ترک کردینے کو نہیں کہتے۔

مذہب و عقیدہ خالصتاً انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔

سیاسی شعور’ معیشت و سفارتکاری ریاست کے اجتماعی مفادات کا حصہ ہوتے ہیں۔

پتہ نہیں کچھ جنونی کیوں سب گڈ مڈ کرکے لوگوں کو زندگی کی صداقتوں سے محروم رکھنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author