شہریارخان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردار جی نے بیٹی سے رات کے کھانے کے بعد پانی مانگا، بیٹی نے گلاس تھمایا اور اونچی آواز میں بولی کل ساڈے اچوں کوئی اک بندہ نئیں ہونا (کل ہم میں سے ایک بندہ نہیں ہو گا)۔۔ سب حیران ہو گئے۔ صبح معلوم ہوا کہ وہ لڑکی گھر سے بھاگ گئی تھی۔ سردار جی نے ناشتہ کرتے ہوئے اپنی زوجہ سے کہا اک گل تے ہے، کڑی ساڈی اللہ والی سی، انہے کہیا سی کل اک بندہ نئیں ہوئے گا، ویکھ لے ہن اک جی گھٹ اے۔ (ایک بات ہے، ہماری بیٹی، اللہ والی تھی، اس نے کہا تھا کل ایک بندہ نہیں ہو گا اور دیکھ لو ایک بندہ کم ہو گیا ہے)
ایسے ہی عمران خان کو سب پتا ہے۔ بہت اللہ والا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ جاپان اور جرمنی کے بارڈر ملتے ہیں۔ وہ یورپ کو یورپ سے زیادہ جانتا ہے۔ وہ مغرب کو بھی مغرب والوں سے زیادہ سمجھتا ہے۔ وہ کرکٹر بھی ایسا تھا کہ سب میچز کا رزلٹ اسے معلوم ہوتا تھا، اسی لیے سالے نے میچز پر جوا کھیلا اورعمران نے بتایا کون جیتے گا؟ ہرمیچ پر ڈھیروں ڈھیر روپیہ کمایا اور اس سے اپنا قرض اتارا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ حکومت سے نکالا جائے گا۔ وہ نکالا گیا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی گندی گندی آڈیوز اور ویڈیوز آنے والی ہیں، اس میں سے اب تک صرف آڈیو والی پیشگوئی درست ثابت ہوئی ہے لیکن اگر کپتان نے کہا ہے کہ ویڈیوز بھی آئیں گی تو سب دیکھ لینا ویڈیوز بھی آئیں گی۔
ارشد شریف کو ملک میں کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن عمران نے سیکورٹی تھریٹ جاری کروایا، وہ ملک چھوڑ کر جانے کو تیار نہیں تھا، اسے ملک سے بھگایا اور دیکھ لیں کینیا جیسے محفوظ ملک میں ارشد شریف کے ساتھ وہی ہوا جس کا خدشہ میرا کپتان پاکستان میں ظاہر کر چکا تھا۔
عمران خان نے لانگ مارچ شروع کیا اور بتایا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے، اسے قتل کرنے کی سازش ہو چکی ہے۔ وہ پھر بھی ڈٹ کر کھڑا رہا۔ کنٹینر پر کھڑا تھا کہ ایک جنونی شخص نے فائر کیا، ایک یا دو فائر ہوا میں گئے کہ اسے ایک نوجوان نے قابو کر لیا، گولی کی آواز سنتے ہی ڈرے بغیر میرا کپتان نیچے بیٹھ گیا مگر جیسا کہ کپتا ن نے کہا تھا کہ اسے نشانہ بنایا جائے گا۔ وہ نشانہ بن جاتا اگر وہ نہ بیٹھتا۔ چار گولیاں تو عمران اسماعیل کے کپڑوں میں سے بحفاظت گزر گئیں۔ شکر ہے عمران اسماعیل اس وقت ان کپڑوں میں نہیں تھے۔ ظاہر ہے کپڑے ہینگر پر ہی ہوں گے۔
عمران کا کہنا ہے سنائپر نے انہیں نشانہ بنایا۔ ایک نہیں دو یا تین نشانے باز تھے جو تربیت یافتہ تھے مگر ان کی گولیاں کپڑوں میں سے گزرتی گئیں الحمد للہ۔ لگی بھی تو کنٹینر کی لوہے کی موٹی چادر کو۔ لوہے کی موٹی چادر کے چند ٹکڑے عمران خان کی ٹانگ میں لگ گئے۔ اب لوگ جو مرضی کہیں اگر عمران نے کہا کہ وہ گولی نہیں گولیاں تھیں دھاتی ٹکڑے نہیں تو وہ گولیاں ہی ہوں گی، کیونکہ گولی کو بھی عمران سے زیادہ کوئی اور نہیں جانتا ہے۔
اب دیکھ لیں عمران بالکل درست کہتا ہے کہ اسے گرفتار کرنے کی مکمل تیاری ہے، اگر عمران نے کہا ہے تو درست کہا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اسے گرفتار کرنے کے بعد بلوچستان لے جایا جائے گا اور وہ کیا جائے گا جو اعظم سواتی اور شہباز گل کے ساتھ ہوا تھا۔ اب معلوم نہیں یہ پیشگوئی ہے یا خواہش ہے لیکن اگر عمران نے ایسا کہا ہے تو ایسا ہی ہو گا لیکن ایک سوال ہے کہ اگر یہی کچھ کرنا ہے تو پھر بلوچستان لے جانے کی کیا ضرورت ہے؟۔
یہ کام تو میانوالی کی جیل میں بھی ہو سکتا ہے، بنوں یا دادو بھیج دیا جائے وہاں بھی ہو جائے گا۔ پھر بلوچستان کا ہی کیوں انتخاب کیا جا رہا ہے؟ مگر میرے عمران نے اگر ایسا کہا ہے تو پھر ایسا ہی ہونے والا ہے، اسی لیے اس کے کارکن اسے گرفتار نہیں ہونے دیں گے۔
عمران خان نے یہ بھی کہا تھا یہ لوگ اسے نااہل کروانا چاہتے ہیں، اگر اس نے یہ کہا ہے تو یہ بھی سچ ہو گا کیونکہ نااہلی کو عمران سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اگر لوگوں کو عدالت کے باہر لے جایا جائے تو عدالت کبھی نااہل نہیں کرتی، عدالت فرد جرم بھی نہیں سناتی۔ عدالت ضمانت بھی منظور کر لیتی ہے کیونکہ عدالتوں کو بھی عمران سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔
اس بات کے ہم سب قائل ہو چکے ہیں کہ وہ سب جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کس موقع پر کارکنوں کو کیا کہنا ہے، اپنے پارٹی ٹکٹ امیدواروں کو کب کیا پیغام دینا ہے، ثاقب نثار کو کب کیا کہنا ہے، عارف علوی سے کب کیا کہنا ہے؟ ٹی وی اینکرز سے کیا کہنا ہے؟ یو ٹیوبرز سے کیا کہلوانا ہے؟ ضمانت کے فیصلے میں کیا لکھوانا ہے؟ اسے سب معلوم ہے۔
بس نہیں معلوم تو یہ نہیں معلوم کہ وہ جس ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے، اس مدینہ کی ریاست کا کوئی بھی خلیفہ کبھی اپنے اوپر لگائے گئے الزام پر برہم نہیں ہوا بلکہ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا، وہ اس خوف میں مبتلا نہیں ہوئے کہ انہیں دوران نماز قتل کر دیا جائے گا، اس خوف سے انہوں نے مسجد جانا نہیں چھوڑا۔ اس لیے ہر کام میں ان کی مثال دینا چھوڑیں، مثال کسی اپنے ہم عصر کی دیں، آپ کو تو نیلسن منڈیلا کی مثال دیتے ہوئے بھی احتیاط کرنی چاہئے کہ اس شخص نے تو ستائیس سال جیل کاٹی مگر عدالت پر حملہ آور نہیں ہوا۔
آپ سب جانتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ شیر آیا شیر آیا کہنا آسان ہے مگر جب شیر آیا تو لگ پتا جائے گا۔
بشکریہ :وی نیوز ڈاٹ پی کے
یہ بھی پڑھیے:
یارب مجھے صحافی کیوں بنایا؟۔۔۔ شہریارخان
مزید صحافتی حجام۔۔ شکریہ چوہدری صاحب۔۔۔ شہریارخان
م اور ش ۔۔ ف اور چ کی کہانیاں اور بااختیار وزیر اعظم۔۔۔ شہریارخان
بشکریہ:شہریاریاں ڈاٹ کام
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر