مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاست میں گالی کیسے داخل ہوئی؟۔۔۔|| وجاہت مسعود

ہماری سیاسی تاریخ میں پارلیمنٹ کے فلور پر پہلی بار وزیر اعظم لیاقت علی نے حسین شہید سہروردی کو گالی دی تھی۔ ناظم الدین کابینہ میں غلام محمد اور وزیر تجارت فضل الرحمن کی گالی گلوچ زبان زد عام تھی۔ عبدالحمید دستی اور مشتاق گورمانی کا کوئی جملہ گالی سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ غلام محمد کی خوش بیانی پر قدرت اللہ شہاب گواہ ہیں۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ تو جانتے ہیں کہ بات مشاہدہ حق ہی کی کیوں نہ ہو، گو سب کو بادہ و ساغر بہم نہیں بھی ہو، اردو شعر و ادب سے چراغِ شب حزیں روشن کرنے کے قرینے سے اغماض کم سے کم ہم سے نہیں ہو گا۔ اب دیکھیے گالی گفتار کا موسم ہے، مرد و زن، پیر و جوان، بدنام اور گمنام سب بد زبانی کے جوہر دکھا رہے ہیں، علم مسہری کی تفصیلات میں اپنے درک کا نقارہ سرِ بازار پیٹ رہے ہیں۔ ایسے میں آپ کے نیاز مند کو کون یاد آیا، انشا اللہ خان انشاؔ۔ کیا خوب فرمایا:

اختلاط آپ سے اور مجھ سے کہاں کا ایسا

واہ جی جان نہ پہچان، یہ گالی دینا

اب اٹھارہویں صدی کے انشا صاحب کو کون سمجھائے کہ اکیسویں صدی میں گالی کے لیے جان پہچان کی شرط اُٹھ چکی۔ بالشت بھر کی ایک لاسلکی کل پر ہاتھ ہے۔ انگشت ہائے دشنام کو اذن عام ہے۔ جسے چاہے سودا کے اتباع میں ’شرم کی آنکھیں بند اور بے حیائی کا منہ کھول کر وہ بے نقط سنائے کہ شیطان بھی امان مانگے‘۔ اساتذہ نے ایک نکتہ بیان کر رکھا ہے، گالی کی بدرو اور تہذیب کے آبِ صفا کے بیچ معاشرت کی توانائی کا چشمہ بطور حد فاصل بہتا ہے۔ معاشرت معیشت سے مرتب ہوتی ہے۔ کیا ہی مناسب ہو کہ آئی ایم ایف کی جبہ سائی سے قطع نظر، ملکی معیشت کے کچھ چیدہ نکات پر ایک نظر ڈال لی جائے۔

پاکستان کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا 2.83 فیصد ہے، جب کہ ہمارا رقبہ دنیا کے کل زمینی رقبے کا 0.7 فیصد ہے۔ 2023 میں پاکستانی فوج دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے، جب کہ صرف 3 برس قبل 2020 میں پاکستانی کی فوج کا عالمی درجہ 15 تھا۔ ہتھیاروں کی خرید میں بھارت دنیا میں پہلے اور پاکستان نویں نمبر پر ہے۔ معاشی ترقی کے حقائق یہ ہیں کہ گزشتہ 10 برس میں عالمی معیشت نے 35 فیصد ترقی کی ہے، تاہم عالمی معیشت میں پاکستان کا حصہ صرف 1.1 فیصد ہے اور یہ ہندسہ بھی انفارمل اکانومی یعنی غیر دستاویزی معیشت کو شامل کر کے حاصل ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں انفارمل معیشت کل داخلی پیداوار کا 35.6 فیصد ہے۔ عالمی خوشحالی کے اشاریے میں رواں برس پاکستان 167 ممالک میں 136 نمبر پر ہے۔ بنگلا دیش، نیپال، بھارت اور سری لنکا جیسے ممالک ہم سے بہت آگے ہیں۔ انسانی ترقی کے اشاریے میں پاکستان صرف ایک مالی برس 2021۔ 2022 میں سات درجے نیچے آ کر 192 ممالک میں 161 نمبر پر آ گیا ہے۔ ٹھیک 12 برس قبل 2010 میں پاکستان 169 ممالک میں 125 ویں درجے پر تھا۔

کسمپرسی اور بدحالی کے ان اعداد و شمار کی فہرست طویل ہے۔ صرف ایک اشاریہ اور دیکھ لیجیے۔ Global Innovation Index میں کل 132 ممالک کا ڈیٹا دستیاب ہے اور پاکستان کا نمبر 99 ہے۔ Innovation کا اردو مفہوم ہے اختراع، جدت اور ایجاد۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی مدد سے کسی ملک کی معیشت دوسرے ممالک سے سبقت لیتی ہے۔ اس فہرست میں پہلے پانچ ممالک سوئٹزر لینڈ، امریکا، سویڈن، برطانیہ اور ہالینڈ ہیں۔ جب کہ جرمنی آٹھویں، چین گیارہویں، جاپان تیرہویں اور بھارت چالیسیوں نمبر پر ہے۔ کسی قوم کے نوجوانوں کی اختراعی صلاحیت اس ملک کے معاشی مستقبل کی خبر دیتی ہے۔ ہماری اختراعی صلاحیت اور جدت نظر جاننا ہو تو ایک نظر اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں پر ڈالیے۔ اگر وہاں القادر یونیورسٹی سے پھوٹتی روحانی شعاعوں کی تاب لانا مشکل ہو، ادب، فلسفہ اور تاریخ کے نام پر ریاکار حیلہ سازی سے اختلاج قلب کا اندیشہ ہو تو سیاسی، صحافتی اور تمدنی شخصیات کی گندہ دہنی، دشنام طرازی اور فحش گوئی پر توجہ فرمایے۔

ہماری سیاسی تاریخ میں پارلیمنٹ کے فلور پر پہلی بار وزیر اعظم لیاقت علی نے حسین شہید سہروردی کو گالی دی تھی۔ ناظم الدین کابینہ میں غلام محمد اور وزیر تجارت فضل الرحمن کی گالی گلوچ زبان زد عام تھی۔ عبدالحمید دستی اور مشتاق گورمانی کا کوئی جملہ گالی سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ غلام محمد کی خوش بیانی پر قدرت اللہ شہاب گواہ ہیں۔ تاشقند مذاکرات میں ایوب خان نے بھٹو صاحب کو غیر ملکی زعما کے سامنے گالی دی۔ یحییٰ، گل حسن اور عبداللہ نیازی کی گل فشانیاں تاریخ کا حصہ ہیں۔ بھٹو صاحب جلسہ عام میں گالی دیتے تھے۔ روایت ہے کہ میاں محمود قصوری سے اختلافات پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی بدتمیزی سے شروع ہوئے تھے۔ ضیا الحق کی نثار عثمانی جیسے صحافیوں سے دریدہ دہنی تو عام تھی، جنیوا مذاکرات کے ضمن میں وزیر خارجہ زین نورانی کو ان کی بہ ورقِ نقرہ پیچیدہ گالی اُن کے ذہنِ کثافت رسا کا شاہکار تھی۔ نواز شریف صحافیوں سے فرمائش کیا کرتے تھے کہ شیخ رشید کی زبان درازی لفظ بلفظ اخبارات میں شائع کی جائے۔ پرویز مشرف کی بد زبانی تو بیرون ملک کینیڈا اور برطانیہ تک جا پہنچی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد پراجیکٹ عمران کی بنیاد رکھی گئی تو بھاڑے پر بھرتی کیے سوشل میڈیا اہلکاروں کا بنیادی ہتھیار مغلظات تھیں۔ عوامی اجتماعات میں عمران خان، علی زیدی اور علی امین گنڈاپور جیسے رفقا کی بدزبانی کو علم تشریح الاعضا میں تبدیل کرنا ان نوجوانوں کا ہنر ٹھہرا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ کوئی جماعت اس بدعت سے محفوظ نہ رہ سکی۔ محکمۂ اوقاف میں پیش امام کی ملازمت سے برطرف کیے گئے خادم حسین رضوی نے مذہبی اجتماعات میں کھلے عام فحش کلامی کو رواج دیا۔ یہ دریدہ دہنی ان کی جماعت کا نشان امتیاز ٹھہری۔ سیاسی مکالمے میں گالی اور دشنام کی اس روایت نے یہاں تک زور پکڑا  کہ صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے ٹیلی ویژن اسکرین پر گالی دی۔ 17 اپریل 2022 کو پنجاب اسمبلی میں پرویز الٰہی کے کارندوں نے دوست محمد مزاری کے ساتھ جو سلوک کیا وہ دراصل 23 ستمبر 1958 کو مشرقی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر شاہد علی کے ساتھ ہونے والے سلوک کی باز گشت تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلم لیگی رہنما وزیر تعلیم رانا تنویر نے یونیورسٹی کانووکیشن میں گالی دی۔ طلال چوہدری نے شہریوں پر سرعام زبانِ دشنام دراز کی۔ نواز لیگ کی رہنما مائزہ حمید نے نازیبا لفظ استعمال کیے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے سراج درانی اور خورشید شاہ قابل اعتراض زبان کے لیے معروف ہیں۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے ٹیلی فون پر غلیظ گالیاں دیں۔ پرویز الٰہی نے تین جملوں میں فواد چوہدری کو پانچ غلیظ گالیاں دیں۔ فواد چوہدری نے رانا تنویر کو گالی دی۔ فردوس عاشق اعوان کی نازیبا گفتگو ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے۔ ایک خاتون سیاسی رہنما کے ساتھ عمران خان کی مبینہ فون کال سن کر پنڈت کوکا ناتھ بھی ڈنڈوت بجا لاتے۔ عمران خان نے بطور وزیراعظم کابینہ کے اجلاسوں میں صرف سیاسی مخالفین، آئینی منصب داروں اور اپنے وزرا ہی کی عزت افزائی نہیں کی بلکہ ان کی طلاقتِ لسانی ایک اہم مسلم ملک کے ولی عہد تک جا پہنچی۔ آج پاکستان کا سیاسی کلامیہ گالی اور دشنام سے عبارت ہے۔ یہ محض ذاتی اخلاقیات کا انحطاط نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ادارے تباہ ہو چکے، معیشت منہدم ہو رہی ہے، سیاست عوامی مفاد کے معاملات سے لاتعلق ہو چکی ہے۔ اس خلا کو متعلقہ حلقوں نے دشنام طرازی کے ملبے سے پُر کرنے کی کوشش کی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ معیشت کی تباہی، آئینی بحران اور سیاسی عمل کی بے توقیری پر گالیوں کی چادر ڈالنا ممکن نہیں ہوتا۔ گالی کی بدرو اور تہذیب کے آبِ صفا کے بیچ تمدن کی توانائی کا چشمہ گالی گلوچ کی غلاظت سے آلودہ ہو جائے تو اس کا انجام فرد کی ذلت تک محدود نہیں رہتا، قوم کی تکریم بھی جاتی رہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: