محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا فضل الرحمن کا غم وغصہ فطری اور قابل فہم ہے۔
مولانا کا پاور پاکٹ کے پی کے جنوبی اضلاع رہے ہیں۔ اس بار وہاں یہ پوزیشن ہے کہ مولانا ڈی آئی خان، ٹانک، لکی مروت اور بنوں، کوہاٹ وغیرہ سے بہت بری طرح ہار جائیں گے۔ اگر کے پی صوبائی اسمبلی کے الیکشن ہوں تو یقینی طور پر دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن سے بھی کم نشستیں جے یوآئی کو ملیں گے۔
یہ صرف ہوائی بات نہیں ہے۔ پچھلے سال اکتیس مارچ کو کے پی میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا رائونڈ ہوا۔ اس میں مولانا نے ڈی آئی خان، لکی مروت اور ٹانک میں بہت بری شکست کھائی۔ ڈیرہ ضلع کی چھ تحصیلیں ہیں۔ان تمام میں جے یوآئی کو شکست ہوئی، ایک بھی نہ جیت سکی، حتیٰ کہ ڈیرہ کا سٹی میئر مولانا کے سب سے بڑے سیاسی مخالف اور دشمن علی امین گنڈاپور کا بھائی جیت گیا۔ لکی مروت میں بھی ان کے ساتھ برا ہی ہوا۔ یہ تو پچھلے سال کا حال ہے جب پی ڈی ایم حکومت میں نہیں آئی تھی اور جس خوفناک مہنگائی کو ہم سب بھگت رہے ہیں، وہ ابھی نہیں آئی تھی۔ اب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا اور ان کے بیٹے، بھائیوں اور دیگر رہنمائوں کو کیسی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پی ٹی آئی نے مولانا کی سیاست ہی ختم کر دی ہے تو ان کا غصہ فطری اور سمجھ میں آنے والا ہے۔
ویسے بھی مولانا کا پنجاب میں کوئی سٹیک نہیں ہے، کبھی ان کی کوئی سیٹ یہاں آئی نہ آئے گی۔ کسی حلقے میں ہزار ووٹ بھی مشکل سے نکلتے ہیں۔ مولانا کو پنجاب اسمبلی سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ پنجاب کے مسائل ن لیگ کے ہیں، پیپلزپارٹی کے بھی نہیں۔
پنجاب میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن کرانے کی صورت میں تمام تر نقصانات ن لیگ کو بھگتنے پڑیں گے، مولانا کی صحت پر زرا بھر بھی فرق نہیں پڑے گا
مولانا فضل الرحمن ایک دن کےلئے بھی قومی اسمبلی کا الیکشن جلد کرانے کے حق میں نہیں ہوں گے۔ ان کے چار وزرا ہیں، بیٹا بھی وزیر بنا ہے، سمدھی کے پی کا گورنر ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ الیکشن ہوا تو تحریک انصاف دو تہائی اکثریت لے جائے گی،حکومت میں آتے ہی پہلا کام حاجی غلام علی گورنر کے پی کو ہٹانے کا ہوگا۔
مولانا کے لئے تو یہ گھاٹے کا سودا ہے۔
افسوس کہ دوسری صورت میں بھی گھاٹا ہی ہے۔
مولانا جیسے چالاک، زمانہ شناس،ہوشیار اور موقعہ پرست سیاستدان کے لئے پہلی بار ایسا موقعہ بنا ہے کہ دونوں طرف گھاٹا اور بدترین خسارہ ہے۔
اللہ ان پر رحم کرے ، وہ ہمدردی کے قابل ہیں۔
غصے اور جذبات کی شدت سے ان کا چہرہ مبارک سیاہ پڑ جاتا ہے تو یہ طنز یا ہنسنے کا موقعہ نہیں بلکہ ہمدردی کا وقت ہے۔
آل شریف کے ساتھ مولانا سے بھی ہمدردی کرنی چاہیے۔ وہ برف کا کاروبار کر رہے ہیں اور ان کا سودا تیزی سے پگھل کر ضائع ہو رہا ہے، ذہنی کوفت، تلخی، چڑچڑا پن اور غصہ تو ہو گا۔مجھے اس پر حیرت ہوتی ہے جب کوئی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کے حوالے سے میرے موقف پر یہ کہے کہ یہ تحریک انصاف کی ترجمانی ہے یا تحریک انصاف کا موقف ہے۔
یارو مجھے تو یہ معاملہ اس قدر کرسٹل کلیئر لگ رہا ہے کہ سچی بات ہے یہی سوچتا ہوں کہ اگر کوئی اس معاملے کو بھی نہیں سمجھ رہا تو وہ یا تو بے وقوف ہے یا پھر عمران خان کی مخالفت میں اس انتہا تک پہنچ گیا ہے کہ اس کے نزدیک آئین، جمہوریت، سیاسی اقدار وغیرہ کی قطعی اہمیت نہیں رہی۔
سیدھی سی بات ہے کہ آئین اسمبلی کی تحلیل کی اجازت دیتا ہے، اس میں کوئی شرط نہیں کہ ٹھوس یا غیر ٹھوس وجوہ بیان کی جائیں۔ آئین بس یہی شرط رکھتا ہے کہ ایسا کرنے والا وزیراعلیٰ یا وزیراعظم ایوان میں اکثریت رکھتا ہوں، اسے اراکین کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو اور اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش نہ ہوئی ہو۔ بس صرف یہی شرائط ہیں آئین کی۔
اس معاملے کو دیکھ لیجئے، پنجاب یا کے پی کہیں پر تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہوئی، کے پی میں تو اکثریت اتنی بڑی تھی کہ تحریک عدم اعتماد کی جرات بھی نہیں ہوئی انہیں۔
پنجاب میں پہلے تحریک عدم اعتماد پیش کی، پھر واپس لے لی اور گورنر کے ذریعے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا گیا۔ وزیراعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ لے کر اپنی اکثریت ثابت کر دی اور اسمبلی تحلیل کر دی۔
کے پی میں بھی ایسا ہی ہوا۔
اب آئین کی رو سے صرف ایک ہی آپشن تھی کہ نوے دنوں کے اندر الیکشن کرا دیا جائے۔
مزے کی بات ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں یہ معاملہ گیا، سنگل بنچ نے فوری الیکشن کرانے کی ہدایت کی۔ وہاں پر الیکشن کمیشن یا اپوزیشن میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسمبلی غلط توڑی گئی ۔ بس یہی بحث تھی کہ الیکشن کی ڈیٹ کون دے ۔
یہ مسئلہ بعد میں سپریم کورٹ نے سلجھا دیا کہ جہاں گورنر نے اسمبلی کی تحلیل پر دستخط نہیں کئے ، وہاں پرالیکشن کمیشن کی مشاورت سے صدر ڈیٹ دے اور کے پی جہاں گورنر نے اسمبلی کی تحلیل پر دستخط کر دئیے ، وہاں پر گورنر ڈیٹ دے دے۔
مسئلہ ختم ہو گیا۔ اب تو صرف الیکشن کرانا ہی بنتا ہے۔
اب پچھلے ایک مہینے سے جو ڈرامہ بازیاں ہو رہی ہیں، کبھی الیکشن کمیشن کے حیلے بہانے ، کبھی فیک رپورٹوں کا سہارا، کبھی پارلیمنٹ کو قربانی کا بکرا بنا کر الیکشن سے بھاگنے کی کوششیں ۔
آخر کیوں؟
سیاسی جماعتیں الیکشن سے نہیں بھاگا کرتیں۔ وہ تو آکسیجن کی طرح ہیں ان کے لئے۔
سیاسی جماعتیں ووٹروں سے قوت حاصل کرتی ہیں، ڈرا اور بھاگا نہیں کرتیں۔
نجانے پی ڈی ایم کیوں اس قدر ڈری ہوئی، بزدل اور فرسٹریٹ ہے؟
اب ان الیکشن پراتنی صاف اور سیدھی بات اگر کوئی نہیں سمجھتا تو پھر اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
حیرت تو یہ ہے کہ اس پر پوسٹ لکھی جائے تو ایسے ایسے عجیب وغریب اعتراضات اور بچکانہ دلائل دئیے جاتے ہیں کہ دل جل جاتا ہے۔
یہ بھی عجیب اعتراض ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ا ٓجائے گی تو جنرل الیکشن میں مسئلہ ہوگا۔ کیوں ہوگا؟
اس وقت نگران حکومت اور الیکشن کمیشن دونوں کھل کر تحریک انصاف کی مخالفت کر رہے ہیں، دونوں پی ڈی ایم کے گماشتہ اور ٹائوٹ بن چکے ہیں۔ اس کے باوجود تحریک انصاف ان کی زیرنگرانی الیکشن کے لئے تیار ہے۔ اس نے تو نہیں کہا کہ پہلے نگران حکومت کو ہٹائو پھر الیکشن کرائو۔
جب اتنی متعصب،نگران حکومت اور اتنے متعصب، یک رخے اینٹی تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے ہوتے الیکشن ہوسکتے ہیں تو پھر پنجاب حکومت تحریک انصاف کی بن جانے کے بعد بھی الیکشن ہوسکتا ہے کیونکہ تب بھی اسٹیبلشمنٹ، نگران وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن یہ سب پی ٹی آئی کے خلاف ہی ہوں گے اور الیکشن انہوں نے ہی کرانا ہوتا ہے۔
بات پھر وہی ہے کہ جب ہم درست بات کریں، تو جواب نہ بن پانے پر ہی یہ طعنے، طنز کئے جاتےہیں۔ا س لئے مجھ پر معمولی سا بھی اثر نہیں ہوتا۔
میں اپنی بات ان شااللہ کھل کر پوری مضبوطی اور قوت سے کہتا رہوں گا۔ کسی جتھے کے ٹرول کرنے یا مخالفت کرنے سے الحمداللہ مجھے فرق نہیں پڑتا۔ ہم اپنی بات کہتے رہیں گے۔
مولانا کا پاور پاکٹ کے پی کے جنوبی اضلاع رہے ہیں۔ اس بار وہاں یہ پوزیشن ہے کہ مولانا ڈی آئی خان، ٹانک، لکی مروت اور بنوں، کوہاٹ وغیرہ سے بہت بری طرح ہار جائیں گے۔ اگر کے پی صوبائی اسمبلی کے الیکشن ہوں تو یقینی طور پر دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن سے بھی کم نشستیں جے یوآئی کو ملیں گے۔
یہ صرف ہوائی بات نہیں ہے۔ پچھلے سال اکتیس مارچ کو کے پی میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا رائونڈ ہوا۔ اس میں مولانا نے ڈی آئی خان، لکی مروت اور ٹانک میں بہت بری شکست کھائی۔ ڈیرہ ضلع کی چھ تحصیلیں ہیں۔ان تمام میں جے یوآئی کو شکست ہوئی، ایک بھی نہ جیت سکی، حتیٰ کہ ڈیرہ کا سٹی میئر مولانا کے سب سے بڑے سیاسی مخالف اور دشمن علی امین گنڈاپور کا بھائی جیت گیا۔ لکی مروت میں بھی ان کے ساتھ برا ہی ہوا۔ یہ تو پچھلے سال کا حال ہے جب پی ڈی ایم حکومت میں نہیں آئی تھی اور جس خوفناک مہنگائی کو ہم سب بھگت رہے ہیں، وہ ابھی نہیں آئی تھی۔ اب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا اور ان کے بیٹے، بھائیوں اور دیگر رہنمائوں کو کیسی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پی ٹی آئی نے مولانا کی سیاست ہی ختم کر دی ہے تو ان کا غصہ فطری اور سمجھ میں آنے والا ہے۔
ویسے بھی مولانا کا پنجاب میں کوئی سٹیک نہیں ہے، کبھی ان کی کوئی سیٹ یہاں آئی نہ آئے گی۔ کسی حلقے میں ہزار ووٹ بھی مشکل سے نکلتے ہیں۔ مولانا کو پنجاب اسمبلی سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ پنجاب کے مسائل ن لیگ کے ہیں، پیپلزپارٹی کے بھی نہیں۔
پنجاب میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن کرانے کی صورت میں تمام تر نقصانات ن لیگ کو بھگتنے پڑیں گے، مولانا کی صحت پر زرا بھر بھی فرق نہیں پڑے گا
مولانا فضل الرحمن ایک دن کےلئے بھی قومی اسمبلی کا الیکشن جلد کرانے کے حق میں نہیں ہوں گے۔ ان کے چار وزرا ہیں، بیٹا بھی وزیر بنا ہے، سمدھی کے پی کا گورنر ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ الیکشن ہوا تو تحریک انصاف دو تہائی اکثریت لے جائے گی،حکومت میں آتے ہی پہلا کام حاجی غلام علی گورنر کے پی کو ہٹانے کا ہوگا۔
مولانا کے لئے تو یہ گھاٹے کا سودا ہے۔
افسوس کہ دوسری صورت میں بھی گھاٹا ہی ہے۔
مولانا جیسے چالاک، زمانہ شناس،ہوشیار اور موقعہ پرست سیاستدان کے لئے پہلی بار ایسا موقعہ بنا ہے کہ دونوں طرف گھاٹا اور بدترین خسارہ ہے۔
اللہ ان پر رحم کرے ، وہ ہمدردی کے قابل ہیں۔
غصے اور جذبات کی شدت سے ان کا چہرہ مبارک سیاہ پڑ جاتا ہے تو یہ طنز یا ہنسنے کا موقعہ نہیں بلکہ ہمدردی کا وقت ہے۔
آل شریف کے ساتھ مولانا سے بھی ہمدردی کرنی چاہیے۔ وہ برف کا کاروبار کر رہے ہیں اور ان کا سودا تیزی سے پگھل کر ضائع ہو رہا ہے، ذہنی کوفت، تلخی، چڑچڑا پن اور غصہ تو ہو گا۔مجھے اس پر حیرت ہوتی ہے جب کوئی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کے حوالے سے میرے موقف پر یہ کہے کہ یہ تحریک انصاف کی ترجمانی ہے یا تحریک انصاف کا موقف ہے۔
یارو مجھے تو یہ معاملہ اس قدر کرسٹل کلیئر لگ رہا ہے کہ سچی بات ہے یہی سوچتا ہوں کہ اگر کوئی اس معاملے کو بھی نہیں سمجھ رہا تو وہ یا تو بے وقوف ہے یا پھر عمران خان کی مخالفت میں اس انتہا تک پہنچ گیا ہے کہ اس کے نزدیک آئین، جمہوریت، سیاسی اقدار وغیرہ کی قطعی اہمیت نہیں رہی۔
سیدھی سی بات ہے کہ آئین اسمبلی کی تحلیل کی اجازت دیتا ہے، اس میں کوئی شرط نہیں کہ ٹھوس یا غیر ٹھوس وجوہ بیان کی جائیں۔ آئین بس یہی شرط رکھتا ہے کہ ایسا کرنے والا وزیراعلیٰ یا وزیراعظم ایوان میں اکثریت رکھتا ہوں، اسے اراکین کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو اور اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش نہ ہوئی ہو۔ بس صرف یہی شرائط ہیں آئین کی۔
اس معاملے کو دیکھ لیجئے، پنجاب یا کے پی کہیں پر تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہوئی، کے پی میں تو اکثریت اتنی بڑی تھی کہ تحریک عدم اعتماد کی جرات بھی نہیں ہوئی انہیں۔
پنجاب میں پہلے تحریک عدم اعتماد پیش کی، پھر واپس لے لی اور گورنر کے ذریعے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا گیا۔ وزیراعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ لے کر اپنی اکثریت ثابت کر دی اور اسمبلی تحلیل کر دی۔
کے پی میں بھی ایسا ہی ہوا۔
اب آئین کی رو سے صرف ایک ہی آپشن تھی کہ نوے دنوں کے اندر الیکشن کرا دیا جائے۔
مزے کی بات ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں یہ معاملہ گیا، سنگل بنچ نے فوری الیکشن کرانے کی ہدایت کی۔ وہاں پر الیکشن کمیشن یا اپوزیشن میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسمبلی غلط توڑی گئی ۔ بس یہی بحث تھی کہ الیکشن کی ڈیٹ کون دے ۔
یہ مسئلہ بعد میں سپریم کورٹ نے سلجھا دیا کہ جہاں گورنر نے اسمبلی کی تحلیل پر دستخط نہیں کئے ، وہاں پرالیکشن کمیشن کی مشاورت سے صدر ڈیٹ دے اور کے پی جہاں گورنر نے اسمبلی کی تحلیل پر دستخط کر دئیے ، وہاں پر گورنر ڈیٹ دے دے۔
مسئلہ ختم ہو گیا۔ اب تو صرف الیکشن کرانا ہی بنتا ہے۔
اب پچھلے ایک مہینے سے جو ڈرامہ بازیاں ہو رہی ہیں، کبھی الیکشن کمیشن کے حیلے بہانے ، کبھی فیک رپورٹوں کا سہارا، کبھی پارلیمنٹ کو قربانی کا بکرا بنا کر الیکشن سے بھاگنے کی کوششیں ۔
آخر کیوں؟
سیاسی جماعتیں الیکشن سے نہیں بھاگا کرتیں۔ وہ تو آکسیجن کی طرح ہیں ان کے لئے۔
سیاسی جماعتیں ووٹروں سے قوت حاصل کرتی ہیں، ڈرا اور بھاگا نہیں کرتیں۔
نجانے پی ڈی ایم کیوں اس قدر ڈری ہوئی، بزدل اور فرسٹریٹ ہے؟
اب ان الیکشن پراتنی صاف اور سیدھی بات اگر کوئی نہیں سمجھتا تو پھر اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
حیرت تو یہ ہے کہ اس پر پوسٹ لکھی جائے تو ایسے ایسے عجیب وغریب اعتراضات اور بچکانہ دلائل دئیے جاتے ہیں کہ دل جل جاتا ہے۔
یہ بھی عجیب اعتراض ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ا ٓجائے گی تو جنرل الیکشن میں مسئلہ ہوگا۔ کیوں ہوگا؟
اس وقت نگران حکومت اور الیکشن کمیشن دونوں کھل کر تحریک انصاف کی مخالفت کر رہے ہیں، دونوں پی ڈی ایم کے گماشتہ اور ٹائوٹ بن چکے ہیں۔ اس کے باوجود تحریک انصاف ان کی زیرنگرانی الیکشن کے لئے تیار ہے۔ اس نے تو نہیں کہا کہ پہلے نگران حکومت کو ہٹائو پھر الیکشن کرائو۔
جب اتنی متعصب،نگران حکومت اور اتنے متعصب، یک رخے اینٹی تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے ہوتے الیکشن ہوسکتے ہیں تو پھر پنجاب حکومت تحریک انصاف کی بن جانے کے بعد بھی الیکشن ہوسکتا ہے کیونکہ تب بھی اسٹیبلشمنٹ، نگران وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن یہ سب پی ٹی آئی کے خلاف ہی ہوں گے اور الیکشن انہوں نے ہی کرانا ہوتا ہے۔
بات پھر وہی ہے کہ جب ہم درست بات کریں، تو جواب نہ بن پانے پر ہی یہ طعنے، طنز کئے جاتےہیں۔ا س لئے مجھ پر معمولی سا بھی اثر نہیں ہوتا۔
میں اپنی بات ان شااللہ کھل کر پوری مضبوطی اور قوت سے کہتا رہوں گا۔ کسی جتھے کے ٹرول کرنے یا مخالفت کرنے سے الحمداللہ مجھے فرق نہیں پڑتا۔ ہم اپنی بات کہتے رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر