عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے جی نورانی کی کتاب ” جناح و تحریک آزادی کے کامریڈ ” میں ایک باب بنگال پر بهی ہے کہ کیسے شهید سہروردی اور سرت بوس سمیت تمام ہندو و مسلم بنگالی سیاسی لیڈر بنگال کو تقسیم ہند کے وقت ایک الگ متحدہ آزاد بنگال کی شکل میں معرض وجود میں لانے پر تیار ہوگئے تهے اور خود جناح بهی اس پر راضی تهے لیکن یہ گاندهی ، پٹیل ، نہرو تهے جنهوں نے اس منصوبے کو سبوتاژ کیا اور بنگال کی مذهبی بنیادوں پر تقسیم کا راستہ ہموار کیا
ایک اور کتاب بنگالی سیاست کے نشیب و فراز پر بہت اہمیت کی حامل ہے وہ ہے کامریڈ مظفر احمد کی آب بیتی جو کمیونسٹ پارٹی آف بنگال کے پولٹ بیورو کے ممبر تهے ، اسی طرح سے بنگال پر خود مجیب الرحمان کی یادداشتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں ، اسی طرح سے جہاں آراء بیگم کی اکہتر کے وہ دن ، رمیلابوس کی کتاب ، بیوروکریٹ حسن ظہیر کی کتاب اور جی اے چودهری کی کتاب اس موضوع پر نسبتا متوازن حقائق سامنے لیکر آتی ہے
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہندوستان میں جو کمیونل ایشو تها اس کی مادی بنیادیں نوکریوں میں کوٹے ، سیاسی پاور میں حصہ داری ، ہندوستان کی نموپذیر سرمایہ داری کے تحت وسائل پیداوار اور اس سے پیدا ہونے والی دولت میں حصہ داری ، اسی طرح پرانے تعلقے ، جاگریں اور اس سے جڑے تنازعات بهی اس سے منسلک تهے اور مشرقی بنگال کے لوگوں کی اکثریت نے بنگالی نیشنلزم سے ہٹ کر مسلم نیشنلزم کو بهی گلے اسی لئے لگایا تها کہ بنگالی نیشنلذم ہندو بورژوازی ، ہندو زمیندار اشرافیہ اور ہندو مڈل کلاس کے بوجه تلے دبا ہوا تها اور وہ مسلم بنگالی کسانوں ، مڈل و لوئر مڈل کلاس اور محنت کش پرتوں کے مسائل کے وجود اور ان کے حقوق کی سلبی جیسے ایشوز کے وجود سے ہی انکاری تها ، جب پاکستان بن گیا تو مسلم بنگالیوں کو یہ امید تهی کہ ان کو متحدہ ہندوستان میں کانگریس کے نیشنلزم سے جو خطرات تهے وہ اب نہیں رهیں گے ، مسلم بنگالی نوزائیدہ ریاست کے اندر اپنی مڈل کلاس ، بزنس کلاس کو فلورش کرتا دیکهنے کے خواہس مند تهے اور وہ اس کے ساته ساته بنگالی زبان و ثقافت کو بهی محفوظ بنانے کے خواہاں تهے ،لیکن ان کی ان سب خواہشات پر اس وقت اوس پڑی جب پاکستان کی سیاسی پاور ، پاکستان کی معاشی سرمایہ دارانہ ترقی ، اس ملک کے وردی بےوردی نوکر شاہی کے ڈهانچے سے وہ باہر رکهے گئے اور یہی معاملات آگے چل کر بنگالی قومی تحریک کو علیحدگی تک لے گئے
ہم نے ابتک خود احتسابی نہیں سیکهی
بنگلہ دیش کی تخلیق میں بهارت کا کردار ظاہر سی بات ہے وہی تها جو دشمن کے دشمن کے ساته کوئی ملک کرسکتا ہے ، اگر بنگالیوں نے مغربی پاکستان کی فوج کشی کے مقابلے میں بهارت سے مدد مانگ لی تو اس کو عجیب نہیں کہا جاسکتا اس وقت اگر کسی نے بنگالی تحریک کو سہارا دینے کی حامی بهری تو وہ خطے میں بهارت تها اور بنگالی اگر ریاست کے مظالم سے جان بچاکر کہیں جاسکتے تهے تو بهارت تها اور مغربی بنگال پڑوس میں کلکتہ تها ، مکتی باہنی کی تشکیل میں بهارتی کردار اور بنگالی گوریلوں کی یہ تربیت سب اپنی جگہ حقیقت لیکن اس سب کے باوجود بنگالیوں کو آزاد ملک بنانے کی جانب دهیکلنے والی قوت پاکستانی ریاست اور اس کے حکمران طبقات تهے
اور پاکستانی فوج کا بنگال میں آپریشن بالکل ایک آقا ، نوآبادکار حاکم کا ساتها اور یہ پاکستان کے ایک متحدہ ریاست کے طور پر رہنے کے خلاف سب سے بڑا اقدام بهی تها
پاکستان کی ریاست پر غالب دائیں بازو کے بیانئے میں بنگلہ دیش بننے کے بعد بهی کوئی تبدیلی نہیں آئی ، وہ بنگلہ دیش کے قیام کو ایک سازش قرار دیتا ہے اور اسی تناظر میں وہ پوری بنگالی قومی تحریک کو دیکهتا ہے ، اس کے بیانئے اور تناظر میں اگر کوئی تبدیلی ہوئی ہوتی تو آج باقی ماندہ پاکستان کے اندر سندهی ، بلوچ ، پختون ، سرائیکی ، گلگتی بلتی سوالات کم از کم اس صورت موجود نہ ہوتے اور بلوچوں کی نسل کشی جاری نہ ہوتی
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر