وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہر کے جنوب میں ٹھکانے کے ایک مقام پر خواجگان کی حویلی ایستادہ ہے۔ اچھے وقتوں میں بنی عمارت کے اونچے دروازے، کشادہ دالان، عقبی صحن، ہوادار کمرے اور چوبی دریچوں سے ترتیب پانے والا نقشہ بتاتا ہے کہ کبھی یہ گھرانہ خوشحال رہا ہو گا۔ یہ مگر گزرے زمانے کے قصے ہیں۔ عمارتیں بنانے والے تہ خاک آسودہ ہیں۔ بعد میں آنے والوں نے کارخانے، دکان اور کھیت کھلیان کے بکھیڑے کو اپنی شان سے فروتر جانا۔ سکول کالج کا دروازہ نہیں دیکھا۔ تعلیم سے بے گانہ ہوئے تو تہذیب بھی رخصت ہو گئی۔ باہم جھگڑے فساد سے تنگ آ کر بڑے بھائی نے حویلی کا مشرقی حصہ علیحدہ کر لیا۔ اہل خانہ کے اطوار مگر نہیں بدلے، آبائی ساکھ کے بل پر قرض اٹھا کر نفیس طمنچے اور نت نئی بندوقیں خریدتے رہے، نالش مقدمے کے کھیل میں تھانہ کچہری کو گویا دوسرا گھر سمجھ لیا۔ حویلی میں آمدنی گھٹتے گھٹتے صفر رہ گئی۔ اب صورت یہ ہے کہ محلے کے جملہ قرض خواہ از قسم پنساری، گوالا اور قصاب دروازے پر کھڑے ہیں۔ کبھی دھیمے لہجے میں ادھار کی واپسی کا تقاضا کرتے تھے۔ اب عمومی رویہ گستاخ ہو چلا ہے۔ گھر کی خواتین وقفے وقفے سے جھجکتی لجاتی دروازے تک آ کر بتاتی ہیں کہ بڑے خواجہ صاحب آئی ایم ایف نامی ساہوکار کے پاس گئے ہیں۔ بس آتے ہی ہوں گے۔ خواجہ صاحب کی کیفیت بوئے سلطانی اور خوئے غلامی کا دوآتشہ ہے۔ گھڑی میں تولہ، گھڑی میں ماشہ۔ ادھر ساہوکار لوگ خواجہ صاحب کی بدعہدیوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں تو وہ کسی اور دروازے پر بھیج دیتا ہے۔ گرتے پڑتے وہاں پہنچتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ اگر آئی ایم ایف آپ پر اعتبار نہیں کر رہا تو ہمیں کیا باؤلے کتے نے کاٹا ہے کہ آپ کو قرض دیں۔
پاکستان نے 8 دسمبر 1958 کو پہلی بار آئی ایم ایف سے قرض کی درخواست کی تھی۔ گزشتہ 64 برس میں پاکستان 23 مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لے چکا ہے اور ایک آدھ دفعہ کے سوا یہ پروگرام کبھی مکمل نہیں ہوئے۔ مالی سال 2021-22 میں تجارتی خسارہ 48.3 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ درآمدات میں صرف توانائی کے شعبے میں 29ارب ڈالر سالانہ اٹھ جاتے ہیں۔ ملک کی کل برآمدات کا حجم بھی تقریباً اتنا ہی ہے۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے 2021 میں جو معاہدہ کیا تھا اسے عمران خان نے فروری 2022 میں اپنی حکومت جاتی دیکھ کر تیل اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر کے خود ہی تباہ کر ڈالا۔ ریاستی ضمانت سے روگردانی کر کے آئندہ حکومت کے لیے کانٹوں کی فصل بو دی۔ مفتاح اسماعیل نے بڑی کاوش سے آئی ایم ایف پروگرام بحال کیا لیکن ستمبر 2022 میں اسحاق ڈار وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے طے شدہ شرائط سے روگردانی شروع کر دی۔ آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کے لیے 31 جنوری 2023 کو پاکستان پہنچنے والی ٹیم دس روز تک مذاکرات کے باوجود کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔ پاکستان نے امریکا سے بھی درخواست کی ہے کہ آئی ایم ایف کو اپنی شرائط نرم کرنے پر مائل کرے۔ اطلاعات کے مطابق بینک آف امریکا نے کہا ہے کہ صرف آئی ایم ایف پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ دوسری طرف چین سے بھی بات چیت جاری ہے۔ خبر ہے کہ آئی ایم ایف نے گزشتہ برس چھ ارب ڈالر کے پروگرام میں ایک ارب ڈالر اضافے کا عندیہ بھی واپس لے لیا۔ اگر ایک ارب ڈالر کے لیے منت سماجت ہو رہی ہے تو جون 2023 تک تقریباً آٹھ ارب ڈالر کے واجبات کیسے ادا ہوں گے۔ حالیہ مہینوں میں تجارتی خسارہ کم ہونے کی وجہ درآمدات میں کمی ہے۔ گویا یہ اشاریہ بھی مثبت کی بجائے منفی پہلو لیے ہیں۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے سنگم پر ایڈم سمتھ، مالتھس اور ریکارڈو نے کرائے کی معیشت کا تصور پیش کیا تھا۔ سمتھ کے مطابق کرائے کی معیشت کا مطلب ایسی آمدنی ہے جو محنت کئے بغیر کمائی جائے۔ ریکارڈو نے کہا کہ کرائے کی معیشت پیداوار کی بجائے وسائل کی ملکیت کے بل پر چلائی جاتی ہے۔ عہد حاضر میں مصری معیشت دان حازم بے بلاوی اور اطالوی ماہر معیشت لوسیانی نے معدنی تیل کے بل پر امیر ہونے والی خلیجی ریاستوں کے نمونے کو Rentier State یعنی کرائے پر چلنے والی ریاستوں کا نام دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی ریاستیں اپنی پیداواری بنیاد بڑھانے کی بجائے پہلے سے موجود وسائل کے بل پر معیشت چلاتی ہیں۔ چنانچہ ان کے شہریوں کی ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوتا۔ نیز پیداواری معیشت کی عدم موجودگی میں ریاست کی سیاسی ترقی بھی رک جاتی ہے۔ اب اس نظریے کا اطلاق پاکستان پر کیجئے۔ تیل کے ذخائر ہمارے پاس موجود نہیں لیکن ہم نے ساٹھ برس پہلے آئی ایم ایف کی صورت میں تیل کا ایک کنواں دریافت کیا تھا۔ خلیجی ریاستوں کو یہ فائدہ تھا کہ انہیں معدنی وسائل سے ملنے والی آمدنی کسی کو واپس نہیں کرنا تھی لیکن ہمیں تو قرض واپس بھی کرنا تھا۔ باسٹھ برس میں 23 مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لے چکے ہیں۔ اس دوران سیٹو اور سینٹو نیز افغان جنگ کے طفیل بھی ڈالروں کی ریل پیل رہی۔ جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح محض 9 فیصد ہے۔ قرض کا حجم جی ڈی پی کے 80 فیصد کو پہنچ رہا ہے۔ پیداواری معیشت کی عدم موجودگی میں سیاسی ارتقا بھی مفلوج ہو چکا۔ فیصلہ سازی پر اجارہ رکھنے والے ادارے اور گروہ مراعات یافتہ طبقے پر ٹیکس لگانے کے روادار نہیں۔ چنانچہ سارا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ معیشت سکڑنے سے عام آدمی کی قوت خرید کمزور ہوتی ہے جسے وہ مہنگائی کا نام دیتا ہے۔ خلیج کے ممالک عالمی معیشت کے آئندہ خدوخال سمجھ کر اپنا راستہ بدل رہے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب میں تعلقات بحال ہو رہے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ معاملات سدھر رہے ہیں۔ اگر کرائے کی معیشت خلیجی ممالک میں ناقابل عمل ہے تو ہمیں بھی سمجھنا چاہیے کہ ہماری دھرتی کرائے کے لیے خالی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر