یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ تبھی تک محفوظ ہیں جب تک غیر محفوظ حالات سے دوچار نہیں ہو جاتے۔ شاید یہ بات بونگی لگے، لیکن ہے نہیں۔ مراد یہ ہے کہ اچانک غیر محفوظ حالات آپ کا سارا تحفظ کا احساس چھین لیتے ہیں۔ آپ آرام سے سڑک پر بائیک چلاتے جا رہے ہیں، پیچھے سے کوئی گاڑی آپ کو ہٹ کرتی ہے اور اُس میں بیٹھے ہوئے محافظ فوراً اُترتے، آپ کو گالیاں دیتے، ٹھڈے مارتے اور تذلیل کا نشانہ بناتے ہیں۔ ظاہر ہے غلطی آپ کی ہی ہے جو چلتی گاڑی کے سامنے آئے۔
کبھی کینال روڈ پر یک دم کسی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کی محافظ ڈبل کیبن آپ کے برابر میں آتی اور آگے نکلتی ہے تو اُس میں بیٹھے ہوئے نجی مسلح گارڈ بازو ہلا ہلا کر آپ کو ایک طرف ہو جانے کا کہتے ہیں کیونکہ اُن کے باس کی گاڑی نے گزرنا ہوتا ہے۔ اگر آپ ایک طرف نہیں ہوں گے تو غیر محفوظ حالات کا نشانہ بن سکتے ہیں، اور اِس میں غلطی آپ کی ہی ہو گی۔ ملکِ خداداد اِسی طرح کے چھوٹے چھوٹے جتھوں اور پراپرٹی ڈیلری ذہنیت رکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہے۔
ان پر کوئی قانون لاگو ہونا تو درکنار، قانون ان کا خدمت گار ہے، کیونکہ اِن کے فنڈز سے لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے اور قوانین بنواتے ہیں۔ ظاہر ہے اب وہ پی ڈی ایف کتب کی غیر قانونی ڈسٹری بیوشن کے خلاف یا کاغذ کی فراہمی کے لیے قوانین بنوانے سے تو رہے۔ مگر جس کا جہاں ہاتھ پڑتا ہے وہ کم نہیں کرتا۔ پنجاب یونیورسٹی کے انفارمیشن ڈیسک پر جائیں تو وہاں معلومات دینے والے اوازار کلرک کاؤنٹر سے کوئی دس فٹ پیچھے ٹیبل کرسی بچھا کر بیٹھتے ہوتے ہیں تاکہ پوچھنے والے ذلیل ہوں۔بینکوں میں بات کرنے کے لیے منہ کے سامنے شیشے میں اب سوراخ نہیں بنایا جاتا، اور آپ کو اپنا سوراخ والا حصہ پیچھے کو نکال کر بات کرنا پڑتی ہے۔
آج یونہی گورنمنٹ ڈگری کالج نمبر ایک ڈیرہ اسماعیل خان کا فیس بک پیج دیکھا۔ یہ ٹک ٹوکر ٹائپ پرنسپل صاحبہ کی تشہیر کے لیے وقف ہے۔ بس کا پروجیکٹ، پودا لگانے کی تقریب، یوم کشمیر کی تقریب، اسلامک ریلیف کے تعاون سے کوئی تقریب، وغیرہ کے متعلق آپ کو پرنسپل کی سرگرمیوں پر پوسٹس مل جائیں گی، لیکن نصاب، تعلیم، وغیرہ پر کچھ نہیں ملے گا۔ بس جس کا جہاں بس چلتا ہے، وہ وہیں پر ہلکا پھلکا ہٹلر ہے۔ اُس کی ہٹلری سے بچ جانا ہی آپ کی عقل مندی ہے۔
ہمارے لیے بس ڈھارس اِسی خیال سے بندھتی ہے کہ مشرف کیسے اُسے ڈسٹ بِن میں گیا جہاں وہ آئین کو پھینکنے کی بات کرتا تھا، اور امجد اسلام امجد اور ضیا محی الدین جیسے لفظ والے کتنی عزت سے ہمکنار ہوئے۔ یہ جہان کرگسوں کا سہی لیکن پھر بھی ایسے پرندے بھی چاہئیں جو اُنھیں کرگس ثابت کر سکیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر