نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے فنڈز۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کا پہیہ چل رہا ہے۔ جس طرح دن رات میں رات دن میں تبدیل ہو رہی ہے اسی طرح آج جو شہر ہیں کل گائوں تھے اور آج کے بڑے شہر گزشتہ ایام میں قصبات ہوں گے۔ شہر جب وجود میں آتے ہیں تو شہری مسائل دیہاتوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ شہروں کی ترقی ہمیشہ مسئلہ رہا ہے۔ پاکستان میں پسماندہ علاقوں کے شہری مسائل سب سے زیادہ ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام شہروں کو برابر ترقی دی جائے اور وسائل کی مساویانہ تقسیم ہو۔ اچھی بات ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے سٹی ڈویلپمنٹ انیشی ایٹیو فار ایشیاکے تحت پنجاب کے 10 شہروں کو انٹرنیشنل معیار کے مطابق اپ گریڈ کرنے کیلئے راولپنڈی، لاہور، لالہ موسیٰ، سیالکوٹ، راجن پور، بہاولپور، رحیم یار خان، مظفر گڑھ، سرگودھا اور ملتان کو منتخب کر لیا گیا۔ جن شہروں کو سکیم میں شامل کیا گیا ہے اُن میں رحیم یار خان شامل ہے۔ رحیم یار خان وسیب کا ترقی یافتہ شہر ہے۔ رحیم یار خان کا پرانا نام نوشہرہ ہے اور ریاست کے دور میں یہ خان پور کی تحصیل تھی۔ بہاولپور کے حکمران سر صادق محمد نے اس کا نام بدل کر اپنے مرحوم بیٹے رحیم یار خان کے نام پر رکھا۔ 1881ء میں رحیم یا رخان کی بجائے اسے ضلع بنانے کا آغاز ہوا۔ 1905ء میں اسے ٹائون کمیٹی کا درجہ اور 1923ء میں میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا۔ 1954ء میں اس کیلئے ٹائون پلاننگ سکیم منظور کی گئی اور بزنس مین کالونی، آفیسرز کالونی، زمیندار کالونی، ماڈل ٹائون، صادق بازار، شہید بازار اور بانو بازار وغیرہ نئے سرے سے وجود میں آئے۔ 1923ء میں ہیڈ پنجند ورکس مکمل ہوا اور آبادکاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس شہر کے بارے میں خاص بات یہ ہے کہ خان پور جو کہ تحریک آزادی کا مرکز تھا اور جہاں ریشمی رومال تحریک شروع ہوئی اسی سزا کے طور پر انگریزوں نے خان پور کی ضلعی حیثیت کو ختم کرایا۔ اب انگریز چلا گیا، اس نا انصافی کا خاتمہ ہونا چاہئے اور خان پو رکو ضلع کا درجہ ملنا ضروری ہے اور خان پور کو ڈویلپمنٹ سکیم میں شامل کرنا بھی عین ضروری ہے۔ سکیم میں راجن پور بھی شامل ہے جو کہ ہر لحاظ سے توجہ کا طالب ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ضلع بننے کے بعد کچھ نہ کچھ ترقی ہوئی ہے مگر اب بھی راجن پور بہت پسماندہ ہے۔ تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ضلع راجن پور میں آباد نسلیں ، محل وقوع، شہر، مذہبی تہوار، لوک سرائیکی دستکاری ، راجن پور کی اہم فصلات ، درخت ، جانور وغیرہ ، بندوبست و زراعت ، سکھ دور ، راجن پور کی اہم شخصیات،قبائلی نظام ، قبائلی سرداری نظام ، قبائلی جنگیں و ڈکیتیوں کا احوال،راجن پور کی سرائیکی ثقافت، لوک کھیل ، سرائیکی لوک رسمیں، 1854ء تا 2019ء تک راجن پور ، احوال سرکاری محکمہ جات، تعلیمی ترقی ، عدل و انصاف، راجن پور کی تجارت، ذاتیں راجن پور کے تاریخی مقامات کو دیکھنے اور بچانے کی ضرورت ہے۔ یہ خطہ ہزارہا سالوں سے سرائیکی وسیب کا حصہ ہے۔ راجن پور کے مورخ ڈاکٹر احسان چنگوانی نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا میں ٹیکسٹائل کی صنعت سب سے پہلے سرائیکی خطے نے متعارف کرائی اور چرخہ سرائیکی وسیب میں ایجاد ہوا، ان کا کہنا ہے کہ انڈسٹری کا لفظ دراصل انڈس ٹری یعنی سندھ کا درخت جو کہ کپاس کا پودا ہے ۔ سکیم میں وسیب کا ایک ضلع مظفر گڑھ بھی شامل ہے جو کہ تاریخی لحاظ سے اہمیت کا حامل اور ایک ذرخیز شہر ہے۔ جس کی بنیاد حاکم ملتان نواب مظفر خان نے 1794 میں رکھی۔ یہ ضلع اپنی تہذیب و ثقافت، زراعت و صنعت، سیاست و تجارت، علم وادب اور جغرافیائی محل وقوع کی بنا پر منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ یہ شہر وسیب کے دو دریائوں سندھ اور چناب کے درمیان ہے۔ یہ بہت بڑا ضلع ہے۔ اس کی آبادی گوجرانوالہ کے لگ بھگ ہے اسے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہونا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ مظفر گڑھ گزیٹیئر ضلع میں آباد نسلوں، محل وقوع، شہر، مذہبی تہوار، لوک دست کاری، اہم فصلات، درخت، جانور وغیرہ، بندوبست و زراعت، ثقافت، کھیلوں، رسموں، احوال سرکاری محکمہ جات، تعلیمی ترقی، عدل و انصاف، تجارت، ذاتوں، ادبی و صحافتی پہلو، نقشہ جات اور اہم واقعات کا احاطہ کرتا ہے۔ سرائیکی وسیب کے پسماندہ شہروں میں سڑکیں کھنڈرات اور موہنجودوڑو کا نمونہ پیش کرتی ہیں۔ نئی یا کارپٹ سڑکیں تو کیا سالہا سال تک مرمت کی نوبت بھی نہیں آتی۔ اربن ڈویلپمنٹ سکیم میں بتایا گیا ہے کہ ان شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے چیلنجز سے نمٹنے، اربن ڈویلپمنٹ، ترقیاتی فرق کم کرنے کیلئے سٹی انٹیگریٹڈ پلاننگ، بلدیاتی اور سرکاری اداروں کی جانب سے عوامی مطالبات پورے کرنے اور ادارہ جاتی استعداد میں بہتری کے فریم ورک، روڈ، ریل، ٹیلی مواصلات، صحت، صفائی، تعلیم، علاج معالجہ، کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں میں اضافہ کیلئے امرپووڈاربن انفراسٹرکچر کو ترقی دے جائے گی۔ یہ منصوبہ پنجاب انٹرمیڈیٹ سٹیز امپروومنٹ انویسٹمنٹ پروگرام کے تحت شروع کیا جا رہا ہے۔ پالیسی ریفارمز کے تین مراحل ہوں گے۔ 10 شہروں کے منتخب عوامی نمائندوں، اداروں کے افسران و ملازمین کی جدید خطوط پر تربیت، ذمہ داریوں، فرائض سے آگاہی کیلئے لاہور اور لالہ موسیٰ میں لوکل گورنمنٹ اکیڈمیز بنائی جائیں گی۔ لاہور اور لالہ موسیٰ میں اکیڈمیوں کے قیام پر اعتراض نہیں مگر یہ اکیڈمیاں وسیب کے دیگر پسماندہ شہروں میں قائم ہونی چاہئیں۔ سکیم میں بتایا گیا ہے کہ شہروں کی ترقی سے نئے باب کا اضافہ کیا جائے گا تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب ان شہروں کی آبادیوں کو موسمی حادثات سے بچایا جا سکے۔ پینے کے صاف پانی اور جدید ترین سیوریج کے نظام، کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے، جدید تعلیمی اور غیر نصابی سہولیات میں اضافہ، ڈسپنسریوں، بنیادی مراکز صحت، زچہ و بچہ سنٹرز، ہسپتالوں، فٹ پاتھوں، گرین بیلٹس، پارکوں، ہیلتھ کلب، میونسپل اداروں، سرکاری اداروں کی اپ گریڈیشن، سڑکوں، تعلیمی اداروں، کھیلوں کے میدانوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے کے محروم اور پسماندہ شہروںکو ترقیاتی سکیموں میں شامل کیا جائے تاکہ وہ بھی کہہ سکیں تو بھی پاکستان ہے، میں بھی پاکستان ہوں، یہ تیرا پاکستان ہے، یہ میرا پاکستان ہے۔

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author