رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرمایہ داری نظام تو سرمایہ جمع کیے بغیر چل نہیں سکتا‘ اور سرمایہ اکٹھا کرنا صرف اس وقت ممکن ہے جب آبادی کا ایک حصہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد پس انداز کرسکے۔ اسے عام فہم زبان میں بچت کہتے ہیں۔ یہ انفرادی بچتیں گھر کے کونے کھدروں میں چھپائی جائیں تو دورِ حاضر کے معاشی نظام کی رُو سے یہ قومی دولت کا ضیاع ہے کہ اسے پیداواری سرگرمیوں میں استعمال میں نہیں لایا جا رہا۔ دنیا کے ہر ملک میں بینکاری نظام مختلف ترغیبات دیتا رہتا ہے کہ اپنا سرمایہ محفوظ بنائیں اور اس پر سالانہ منافع بھی حاصل کریں۔ جائز‘ ناجائز کی بحث ہم اس موضوع کے صاحبانِ علم پر چھوڑتے ہیں مگر حقیقت تو یہی ہے کہ حکومتیں‘ ریاستیں‘ صنعتکار اورچھوٹی بڑی کارپوریشنیں منافع پر بینکوں سے سرمایہ حاصل کرتی ہیں۔ کسی بینک کو شاید ہی خسارے میں دیکھا ہو‘ سوائے وہ جو حکومتیں چلاتی ہیں‘ یا کسی زمانے میں اشتراکیت کے نام پر چلایا کرتی تھیں۔ آج کل کے معاشی بحران میں بھی بینک زمینوں کے کاروباراور رہائشی کالونیاں بنا کر اپنے یا دوسروں کے سرمائے سے سرمایہ بڑھاتے جارہے ہیں۔
اخباروں میں پڑھا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں غیر سودی نظام وطنِ عزیز میں لاگو کیا جائے گا۔ ابھی تک تو ہم نے کسی اور ملک میں یہ نظام چلتا نہیں دیکھا‘ ہو سکتا ہے کہ یہاں چل جائے کہ یہاں سب کچھ چل جاتا ہے۔ واحد ملک جہاں کھوٹے سکے صرف سیاسی منڈی میں ہی نہیں چلتے‘ ان کی مانگ ہر جگہ ہے۔ کوئی بھی بحران پیدا کرنا ہو تو کالی منڈی دن ڈھلتے ہی لگ جاتی ہے اور صبح طلوع ہونے سے پہلے تمام مال بک چکا ہو تا ہے۔ اکثر مبصرین کی آواز اور پُر مغز دلائل کے برعکس ہم تو اپنے ملک کے بارے میں پُرامید رہتے ہیں کہ یہاں سب کچھ ہوسکتا ہے۔ دیکھ نہیں رہے کہ کون کہاں پر‘ کس کام کیلئے‘ کن مقاصد کے حصول اور ملک اور معیشت کو کس اتھاہ گہرائی میں گرانے کیلئے فنکاری سے بٹھایا گیا ہے۔ بے شک آپ گرفتاریاں دیں‘ اسد عمر کیلئے جگہ راجن پور کی جیل میں ڈھونڈ نکالی جائے گی۔ ہر ایک کو صوبے کے ایسے کونے میں ایسے ابتر حالات میں رکھا جائے گا کہ سامراجی حکومت نے یہ سلوک آزادی کا نام لینے والوں کے ساتھ بھی نہیں کیاتھا۔غیر سودی نظام جاری ہوگا‘ مگر طریقہ کار ایسا وضع کیا جائے گا کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ہم چونکہ پرانے خیالات کے لوگ ہیں‘ اس لیے ہمارا خیال ہے کہ جس نظام کی بنیاد عالمی سیاست اور صنعتی دور کے آغاز سے ہی استوار ہوئی ہے اور اب مشرق سے لے کر مغرب تک غالب ہے‘ اور ہم تو دوسروں سے کہیں زیادہ اس کی خوفناک جکڑ بندیوں کی قید میں ہیں‘ اس کی وجہ آپ کو معلوم ہے۔ مقتدرہ کھوٹے سکوں کو چلانے کی ماہر ہے۔ اب تو یہ بھی حیران کن نہیں کہ راتوں رات کھرے کھوٹے اور کھوٹے کھرے ہوجاتے ہیں۔ یہی تو ہیں کرامات جن کے فیوض و برکات کی بارش کبھی تھمتی نہیں۔ ہاں‘ اگر کبھی تھم جائے تو فضا میں کالے بادل منڈلانے لگتے ہیں۔ پھر بھی ہمارے ذہن کی وہ کھڑکی جو منطق اور دلیل کی شاہراہ کی طرف کھلتی ہے‘ اس کی روشنی کی رُو سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ داری نظام میں بغیر منافع کے کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔
آج کل بینکاری نظام میں جو اس وقت شرحِ سود جارہی ہے‘ معاف کرنا شرحِ منافع‘ کوئی پاگل ہی قرض لینے کی درخواست دے گا۔ اس نظام میں ویسے تو پاگلوں کی کمی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی اس لیے جو بھی ریٹ بینک دولت پاکستان متعین کر دے‘ کاروبار رواں رہتا ہے۔ ہمارے دیہات کا سودی نظام متوازی طور پر چلتا ہے۔ یہ کم و بیش چالیس سال پہلے اس وقت شروع ہوا جب کسانوں نے زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے کیمیائی کھادوں اور کرم کش ادویات کا استعمال شروع کیا۔ شروع میں تو کسان اپنی بچت یا کچھ جانور بیچ کر یہ ضرورت پوری کرلیتے تھے مگر آہستہ آہستہ جب قیمتیں بڑھنے لگیں اور زراعت میں سرمایہ کاری کا عنصر بھی نمایاں ہونے لگا توکسان مقامی آڑھتیوں سے بیج‘ کھاد اور ادویات اپنی آئندہ کی فصل گروی رکھ کر حاصل کرنے لگے۔ کچھ بوائی سے پہلے قیمت فی من طے کرلیتے ہیں کچھ فصل تیار ہونے پر۔ نقد اسباب خرید کرنے اور ادھار پر حاصل کرنے میں واضح فرق ہے۔ فرض کریں بازار میں کیش ادا کرکے کھاد کی بوری دو ہزار روپے کی ہے تو آڑھتی کاشتکار کو چھ ماہ کیلئے چھبیس سو سے لے کر اٹھائیس سو تک کی دیتا ہے۔ یہ چھ ماہ کیلئے یہ منافع یا سود تیس فیصد بنتا ہے‘ اور سال کا ساٹھ فیصد۔ فصل خراب ہوجائے‘ ادویات جعلی ہوں‘ اثر نہ کریں‘ سیلاب آ جائے یا گرمی حد سے بڑھ جائے یا بارشیں معمول سے زیادہ ہوجائیں تو قرض دار لاکھوں کا قرضہ واپس نہیں کرپاتا۔ اس صورت میں ساہوکار اصل اور منافع لگا کر نیا قرض بنا لیتا ہے۔ ہمارا اپنے آبائی علاقے میں آنا جانا لگا رہتا ہے اس لیے ہر قسم کے حالات سے آگاہی رہتی ہے۔ آنکھوں کے سامنے سینکڑوں خاندانوں کو اجڑتے دیکھا ہے۔ اچھی فصل کی امید میں قرض لیا‘ واپس نہ کرپائے‘ مزید بڑھا اور ہر سال بڑھتا گیا تو آخرکار دوچار ایکڑ زمین جس پر گزارہ تھا‘ اونے پونے بیچ کر جان چھڑائی۔ ذاتی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں مگر ہم کھوٹے سکوں کے زمانے میں کسی کیلئے کیا کرسکتے ہیں۔
یہاں دیہات میں ہمارا ملنا جلنا صرف ان لوگوں سے ہے جن سے ہمارے خاندانی تعلقات نسلوں سے چلے آرہے ہیں۔ وہ وقت کے ساتھ اب محدود ہوچکے ہیں مگر ہر جگہ جہاں اجڑتے ہوئے لوگوں کی بات سنتے ہیں‘ وہاں ساہوکاروں کی نئی چمکیلی گاڑیوں‘ پٹرول پمپوں‘ شاہ خرچیوں اور نئے خریدے گئے مربعوں کے چرچے بھی سنائی دیتے ہیں۔ یہ نیاطبقہ پاکستان کے ہر گاؤں اور شہر میں اپنا کاروبار پھیلانے‘ کمزور کسانوں اور عام ضرورت مند خاندانوں کی لو ٹ کھسوٹ میں مصروف ہے۔ صرف اپنی یونین کونسل کی حدود میں پندرہ ایسے ساہوکار کھلے عام سودی کاروبار میں مصروف ہیں۔ درپردہ کام کرنے والوں کی تعداد تین سے چار گنا زیادہ ہے۔
یہ پنجاب‘ پورے ملک‘ بلکہ تمام خطے کا بہت پرانا نظام ہے۔ آزادی سے پہلے پنجاب کے وزیر مالیات چھوٹو رام نے اپنی کاوشوں سے قانون بنوایا تھا کہ ساہوکار‘ قرض دار زمینداروں کی زمینیں نہ گروی رکھ سکتے ہیں‘ نہ خرید سکتے ہیں۔ ہمیں آزادی ملی تو اب صرف سیاسی آزادی نہیں بلکہ کھوٹے سکوں کے کاروبار سمیت ہر نوع کی آزادی ہے۔ معمولی روز مرہ کے کاموں کیلئے بھی آپ کو نذرانہ ادا کرنے سے لے کر جوتی کے تلوے تک گھسانے پڑیں گے۔ یا پھر آپ کھرے یا کھوٹے سیاسی سکوں کی جیب میں یا وہ آپ کی جیب میں ہوں گے۔ کس کومعلوم نہیں کہ دیہات میں سودی نظام نے کسانوں کا خون نچوڑ کر بے جان کر دیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں خاندان سود خوروں کے ہاتھوں برباد ہورہے ہیں۔ سب دیکھ رہے ہیں مگر آج تک کوئی عملی قدم اٹھتا نہیں دیکھا۔ پنجاب میں کسی ایسے قانون کی خبر تو آئی تھی کہ مقروض لوگ نجی سود خوروں کو منافع نہ دیں مگر اس پر عمل کون کرائے گا؟ سود خور مالی اور سماجی طور پر طاقتور‘ باوسائل اور بااثر ہیں۔ ان کے خوف‘ دھمکیوںاور عزت پر حملوں کے سامنے بیچارے کسان کہاں کھڑے ہوسکتے ہیں؟ چلو کھوٹے سکوں اور سود خوروں سے دور درختوں کے جھنڈ میں قہوہ پیتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر