رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جہاں آج کھڑے ہیں‘ کچھ لکھنے اور بات کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ رونا آتا ہے اپنی بے بسی‘ عوام کی بے حسی اور حکمرانوں کی بدمستیوں پر۔ کسی کو کوئی پروا نہیں کہ ترقی‘ علم اور خوشحالی کی دوڑ میں ہمارے باری باری اقتدار میں آنے والے لوگوں نے ہمیں دنیا سے بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی تنگ و تاریک کنویں میں پڑے ہوئے ہیں‘ ہمت نہیں کہ اٹھ پائیں‘ باہر نکلیں اور قومی سفر جاری رکھ سکیں۔ معاملہ نہ مذہب کا ہے نہ ثقافت اور نہ ہی ہماری قسمت کی لکیروں کا‘ یہ نظام کا بگاڑ ہے۔ ملک پر ان کا قبضہ ہے جو خود گرفت میں ہونے چاہئیں۔ طاقت کا عدم توازن ہے جس نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں۔ ہم بیچارگی کے اس عالم میں دنیا کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس سمت گامزن ہے‘ کیا منزلیں اقوام عالم نے معین کر رکھی ہیں‘ نئی فکر کی شمعیں کہاں کہاں جل رہی ہیں‘ علم و دانش کی روشنیاں کیسے سینوں کو منور اور ذہنوں کو جلا بخش رہی ہیں اور ستاروں پر کمند ڈالنے اور آسمانوں میں نئی کائناتوں کی تلاش میں مغرب کے انسان کی سوچ کے دھارے کیا ہیں۔ وہ بھی اسی زمین کے کسی حصے میں رہ رہے ہیں اور ہم بھی اسی کرۂ ارض کے باسی ہیں۔ وہ بھی ہماری طرح چلتے‘ پھرتے‘ کھاتے‘ پیتے لوگ ہیں اور ان کے انسانی اور سماجی مسائل بنیادی طور پر ہم سے مختلف نہیں لیکن فرق بہت بڑا ہے جو صرف وہی آدمی محسوس کر سکتا ہے جسے مغربی ممالک میں رہنے کا موقع ملا ہو۔ اَن دیکھی چیزوں‘ جگہوں‘ لوگوں‘ تہذیبوں اور سیاسی نظاموں کے بارے میں کتابی علم‘ بغیر مشاہدہ کیے بے رنگ اور نامکمل ہی رہتا ہے۔ ہم کو معلوم ہی ہے کہ ہم جو بھی ہیں اور جہاں بھی ہیں‘ جدید دور میں رہتے ہیں‘ بیشک ہم ہر پہلو میں پسماندہ کیوں نہ ہوں۔ جدیدیت صرف صنعتی‘ سائنسی اور معاشی اعتبارسے نہیں ہوتی‘ اس کا دامن اور دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں سب علوم‘ فنونِ لطیفہ‘ سماجی اور سیاسی ترقی کے علاوہ اور بھی بہت کچھ شامل ہے۔
جدید دنیا آزادی‘ انسانی زندگی کی قدر اور جائیداد بحیثیت بنیادی حق پر تعمیر ہوئی اور ابھی تک بلندیوں کی طرف اڑان بھر رہی ہے۔ آپ کو کسی فلسفیانہ بحث میں الجھانا نہیں چاہتا‘ صرف کچھ تاریخی حوالوں کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قرونِ وسطیٰ کے بعد کا زمانہ کیوں اور کیسے تبدیل ہوا۔ سولہویں صدی کے آغاز سے ہی پاپائے روم کے خلاف یورپ کے مختلف حصوں میں بغاوت پیدا ہونا شروع ہو چکی تھی۔ مذہبی سختیاں اتنی تھیں کہ پیروکاروں کا دم گھٹنے لگا تھا۔ معمولی لغزشوں پر اتنی سخت سزائیں کہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس سخت نظام کے خلاف اٹھنا فطری بات تھی جب تک جرأت‘ حوصلہ اور مقابلے کی تاب نہ ہو‘ آمرانہ نظام سے آزادی ایک دھندلا خواب ہی رہ جاتی ہے۔ تاریخ کسی بھی قوم کی ہو‘ جذبۂ آزادی میں جوش ہو تو ایک سے کئی چراغ روشن ہونا شروع ہو جاتے ہیں‘ ایسے ہی کئی فکری اور عملی روشنی کے مینار جہاں صدیوں کی تاریکی میں چھپے ہوئے تھے‘ سامنے نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ آخر کار مقدس رومی کیتھولک سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا اور اس کی جگہ نئی جدید ریاستیں وجود میں آنے لگیں۔ تقریباً ایک سو سال جنگوں میں لڑنے مرنے کے بعد مغرب کے معاشروں نے ایک بنیادی فیصلہ کر ہی لیا کہ سیاست اور مذہب کی دو تلواریں ایک میان میں نہیں سما سکتیں۔ مذہب انسان کا خدا کے ساتھ رشتہ ہے اور سیاست کا تعلق انسان اور معاشرے کی مجموعی ترتیب سے ہے۔ مقصد یہ کبھی نہ تھا اور نہ اب ہے کہ مذہب‘ جو بھی کسی ملک کا ہو‘ اسے ختم کیا جائے بلکہ یہ کہ مذہب اور سیاست ایک دوسرے سے جدا رہیں۔ ادارے علیحدہ ہوں۔ دونوںکا دائرہ کار مختلف ہے تو یہ ایک دوسرے کے نظاموں میں مداخلت بھی نہ کریں۔ ظاہر ہے‘ یہ تقسیم نہ سائنسی ہے اور نہ ہی ان کے درمیان ایسی دیوار کھڑی کی جا سکتی ہے کہ ایک دوسرے پر اثرات نہ چھوڑ سکیں۔ مذہب کا رنگ‘ کئی پہلوؤں کودیکھا جائے تو آج کے دور میں بھی مغرب کی سیاست میں موجود ہے مگر اب وہاں سیاسی نظام کی دیواریں پھلانگی جا سکتی ہیں اور نہ ان میں دراڑیں ڈالی جا سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک بہت بڑا علمی اور فکری مغالطہ یہ ہے کہ سیاست سے مذہب کی سوچ نکل جائے تو لادینیت کے دروازے کھل جائیں گے۔ جدید مغرب کا فلسفہ مذہب کو ریاست کی سرپرستی سے آزاد کرکے انسان اور معاشرے کے حوالے کرنا ہے۔ اگر ریاست کسی ایک مذہب کی امین اور محافظ بن جائے تو دوسرے مذاہب میں تو برابری کا انصاف نہیں ہو سکتا ہے۔ میرے نزدیک مذاہب کو ریاستوں کے سہارے کی ضرورت ہی نہیں کہ ان کی تشکیل و تعمیر میں یہ صفت موجود ہی نہیں۔ جہاں ایسا ہو رہا ہے وہاں کے حالات کا جائزہ آپ خود لے سکتے ہیں۔ ہم تو ان کی طرف اشارہ کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ خیر ہم تو وہی رہیں گے جو ہمارے ضمیر میں رچ بس چکا ہے۔ نہ ہم اس میں ریاستی اور سماجی عمارت تعمیر کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی کہیں ایسی کوئی تڑپ ہم نے دیکھی ہے۔
مذہب اس خطے میں غالب ہے اور رہے گا۔ تین پڑوسی ممالک میں مذہبی طرز کی حکومتیں قائم ہیں۔ ہمارے ہاں بھی کچھ افراد اسی مقصد کے لیے ہتھیار اٹھا کر ریاست پر قبضہ کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور کچھ مائیکوں اور سکرینوں پر قبضہ کیے ہوئے دن رات ہمارے جذبوں کو تازہ کرنے کی فکر میں بے حال ہیں۔ البتہ ہمارے عوام ابھی تک ان سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔ وہ اپنی پرانی روش میں خوش ہیں۔ ہماری اسلامی تہذیب میں بھی تاریخی طور پر جائزہ لیں تو یہ دو تلواروں کا مسئلہ حل ہو گیا تھا۔ خلافت کے بعد ملوکیت کا دور آیا‘ سلطنتیں بنتی‘ بگڑتی‘ گرتی‘ مرتی اور نئی بنتی رہیں۔ خانہ جنگیاں ہوتی رہیں اور اس طرح اقتدار کے جھگڑے تباہی لاتے رہے تو ایک مذہب اور اس کے اداروں کی حفاظت کی ذمہ داری مختلف زمانوں کے جید علما اور مفکرین نے سنبھال لی۔ بغیر کسی اسمبلی کے ایک عمرانی معاہدہ طے پا گیا کہ بادشاہ مذہب کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا اور علما ریاست کے کاموں میں دخل اندازی سے باز رہیں گے۔ یہ کوئی پتھر پر لکیر نہ تھی۔ مداخلت بھی ہوتی‘ فتوے بھی حکمرانوں کے خلاف جاری کیے جاتے‘ ٹکراؤ کی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی۔ اس علاقے کی تین اسلامی سلطنتوں‘ مغل‘ ایرانی اور عثمانیہ کے ادوار دیکھیں تو یہ مختلف رنگ آپ کو نظر آئیں گے۔ وطنِ عزیز میں تضادات اور کشمکش کثیر الجہتی ہے۔ ایک ہو تو بات کریں۔ جمہوریت بے روح‘بے رنگ اور بدمزہ ہی سہی‘ ہمارے ہاں جائزیت کا کوئی پیمانہ تو فراہم کرتی ہے۔ ایسے ہی کچھ حقوق ہمارے دو ہمسایہ ممالک میں عوام کو مل جائیں تو وہاں حالات کچھ کے کچھ نظر آئیں گے۔ میں مذہب کو فرد اور معاشرے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں اور تاریخی تناظر میں مذاہب قبل از مسیح میں بھی موجود تھے۔ گزارش ہے کہ بات آج کے دور میں مذاہب کے احیا کی نہیں‘ یہ عمل تو نسل در نسل فطری طورپر جاری رہتا ہے‘ بات انسان کی آزادیوں کی ہے‘ حقوق کی ہے‘ قانون کی حکمرانی کی اور زندگیوں کو آسودہ کرنے کی ہے۔ مغرب میں بھی ہماری طرح کی مذہبی تحریکیں چلتی رہتی ہیں‘ ہر جگہ ایسا ہوتا رہے گا۔ ریاست کے ذمہ داریاں موجودہ دور کے تقاضوں‘ بدلتے ہوئے معاشروں اور آج کے آزادی پسند انسان کی توقعات سے ہم آہنگ نہ ہوں تو وہی ہوگا جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں۔ دنیا کے ساتھ قدم بقدم چلنے سے ہی ملکوں میں انقلاب در انقلاب آتے رہے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر