نعیم مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاہم یہ سب باتیں خاکسار کے ذہن میں اس وقت آئیں جب تین پروفیسر اور ایک انجینئر، اور سبھی امریکی و برطانیہ سے ڈگری یافتہ اکٹھے بیٹھے عمران خان کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے ، ان میں سے ایک صاحب تیسری دفعہ وائس چانسلر کے مسند پر براجمان تھے،
جب ان سے ایک سوال کیا گیا کہ، آپ عمران خان پر کس لئے فریفتہ ہیں ، کوئی دلیل یا کوئی وجہ تو ہو گی، ان کا جواب تھا کہ وہ اس قدر مقبول ہیں ک میری بیٹی دیارِ غیر میں سٹڈیز سے چھٹی اور مجھ سے کرایہ لے کر عمران خان کو ووٹ کاسٹ کرنے آئی۔
جی ٹھیک ہوگیا ، اور کوئی خان صاحب نے دورانِ حکومت بڑا آئینی ، ترقیاتی، انقلابی یا اصلاحاتی کام کیا ہو ؟
نہیں، وہ کوئی کام تو نہیں کر سکے
مگر پاکستان کے واحد لیڈر ہیں جو بین الاقوامی سطح پر بہت مشہور ہیں۔
چلئے یہ بھی مان لیا۔
کوئی کام ؟ نہیں، میرا تو جی ان سے بھر گیا تھا مگر جب اس کی حکومت تحریکِ عدم اعتماد سے ختم کی گئی تو چھوڑا چھوڑا عمران خان میرے دل نے پھر پکڑ لیا۔
کیا عدم اعتماد غیر آئینی تھا ؟
نہیں مگر سازش تھی۔
کس نے کی سازش ؟
اس کا جواب امریکی خط نے تو نہ دیا
تاہم اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار قرار دے دیا جسے ہم لانے کا ذمہ دار قرار دیتے نہیں تھکتے۔
جب دلیل کی صحت منڈھے چڑھتی نہ پائی تو عزت مآب فرمانے لگے :
وہ جی فلاں ملک کی فلاں یونیورسٹی کے ریکٹر نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
"عالم اسلام کے لیڈر کو آپ لوگوں نے خواہ مخواہ گھر بھیج دیا ! ”
جب موصوف سے کچھ نہ بن پڑا تو اپنی بحث اور تحقیق پر تکیہ کرنے کے بجائے دور کی کوڑی لائے ۔
خاکسار نے عرض کیا ، آپ تیسری بار کے وی سی ہیں اور ایک باہر کے وی سی کا سہارا لے رہے ہیں،
بہتر ہوتا آپ اس دلیل اور بات کا بوجھ خود اٹھاتے ،
اور اعتماد سے ہمیں کہتے کہ ہم نے یہ خود مشاہدہ کیا ہے،
تو ایکسیلینسی ہم آپ کی بات کو مِن و عَن ماننے کیلئے تیار تھے۔
خیر جب ہم نے دیکھا کہ ہمارے سر تسلیم خم نہ ہونے کے باوجود وہ جذبات میں بہک رہے تھے، اور وضعداری کی پیشانی پر ایک شکن نہیں،
تو پھر ہم نے چپ سادھ لی کہ
"صائب الرائے” بڑوں کا بھرم بھی ضروری ہے!
صاحب !
ہم جو کسی کو چُنتے ہیں وہ کم اہم نہیں ہوتا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا چناؤ بھی کتنا پائیدار اور کتنا وسعتِ نظر والا ہوتا ہے۔ معاملہ، کس قدر حُبِ علی اور کس قدر بغضِ معاویہ والا ہوتا یے، سوچ کی گہرائی کتنی گہری ہے یا سطحی ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ ہر تحریک ایک تاریخ بھی بنتی ہے۔ اور اس تاریخ کے جنم لینے اور تعمیر کا بھی ایک بہرحال معیار ہوتا ہے جس کو نیچر اس کی تعمیر سازی کے عناصر اور وراثتی عوامل کے لحاظ سے مد نظر رکھتی ہے ، یوں تاریخ کے ہاتھ میں پایا جانے والا پیمانہ مجموعی، زمانوی اور ماضی و مستقبل و حال کے چیلنجز کو ناپتا ہے، پھر وہ فیصلہ قابلِ قبول ہوتا ہے. گویا ہرتحریک یا تاریخ کے ارتقائی پس منظر میں مخصوص جنسیات و نفسیات اور ماحولیات و سماجیات کار فرما ہوتے ہیں !
کچھ پیارے دانشور اور کچھ کرم فرما لمحہ بھر کی تحقیق کے بغیر کچھ شخصیات کو تاریخ ساز قرار دے دیتے ییں ،
چلیں یہ تو شاید صف اول کا نام اکرام نہ رکھتے ہوں، رکھتے بھی یوں تو کبھی بھول چوک یو جاتی ہو مگر ہمارے کچھ سقہ بند فلسفی اور دانشور فرطِ جذبات میں تحقیق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔
فیشن ہمارے ہاں یہ ہے کہ فلاں قائدِ اعظم ثانی ہے ، اور فلاں ذوالفقار علی بھٹو کے لیول کا لیڈر۔ یہ "تشبیہ اور استعارے” قائدِ اعظم کے بعد اور قائدِ عوام کے بعد جلد ہی شروع ہوگئے تھے۔ اب آپ اسے مبصر کی "محبت” سمجھئے یا کسی لیڈر کو کسی کے نام کا محتاج۔۔۔۔
صاحب یاد ہے نا :
29 جولائی 2019 کو سابق امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد اسلام آباد آئے تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور فرمایا "میں محسوس کر رہا ہوں کہ میں ورلڈ کپ جیت آیا ” جب عدم اعتماد ہوا تو ورلڈ کپ چھن گیا اور امریکی خط لہرا دیا جو نہ ثابت کر سکے نہ سمجھا سکے قومی اور بین الااقوامی مبصرین نے بھی اسے جھوٹ اور سیاسی پراپیگنڈہ قرار دے دیا۔ اتنے بین الاقوامی لیڈر تھے مہاتیر محمد کو اپنا گُرو قرار دیتے مگر اس سعودیہ سے ڈرتے ہوئے اچانک ملائیشیا کا دورہ ملتوی کردیا۔ کراؤن پرنس محمد بن سلیمان نے پاکستان آکر حامی بھری میں پاکستان کا سفیر ہوں لیکن عمرانی طرز سیاست سے اس قدر نالاں ہوا کہ عمران خان جب امریکہ سے واپس آرہے تھے تو خود دورے کے استعمال میں دیا گیا طیارہ واپس منگوا لیا اور اس وقت کے وزیراعظم کو اپنا بندو بست کرکے واپس لوٹنا پڑا، کورونا کے عین شباب پر سعودیہ 1 بلین ڈالر قرض قسط واپس لے کر دم لیا، اور عالمی سطح پر رسوائی ہوئی۔
حالانکہ کبھی ریاست مدینہ، تو کبھی چائنہ ماڈل تک کو لانے کا کہتے رہے لیکن چائینہ سے بھی تقریبآ ناراضی ہی رہی اور گوادر پراجیکٹ تک ٹھپ رہا۔
پہلی تقریر کی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامیت پر یو ٹرن لینے پڑے، ورلڈ بینک، فیٹف ، آئی ایم ایف تک نالاں ہوئے، اس وقت تک پاکستان کے کل قرض کا 78 فیصد لینے پر خود مانیں۔ خود ساختہ افغانستان ایکسپرٹ بن بیٹھے حتیٰ کہ پولیس لائن بم دھماکہ پشاور پر مصلحت اور سر جوڑنے کو فوقیت دینے کے بجائے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ شروع کردی۔
راقم بار ہا لکھ چکا پاکستان میں قانونی و غیر قانونی افغان خان کے "سپاہی” ہیں ، اور کچھ نہیں کہنا۔
رشین دورے کے وقت پر پورے عالم نے تنقید کی جبکہ خان اس پر پوائنٹ اسکورنگ کیلئے کہتے رہے "غلام” نہیں۔ شاہ محمود قریشی ناکام ترین وزیر خارجہ تھا تبھی تو اسے پیپلزپارٹی نے بھی ماضی میں بدل دیا۔ سلیبرٹی اور کھلاڑی مشہور ہونا ، اور بات ہے !
ہاں یہ مشہور ہے کہ آج جن "محسنین” کے خلاف ہیں کل ان کے ریفرنڈم کو چاہنے والے ہی تو تھے! جنرل مشرف کو صدر بنانے کے ریفرنڈم میں کون پیش پیش تھا؟ وہی نا جو آج شیروانی کی تلاش میں اسٹیٹس مین ہونے کا فرض بھول چکا ہے، کیا پرویز الٰہی اور کیا فواد چوہدری، کیا قاسم سوری اور مسٹر اسد قیصر سب شیروانی کے حصول میں آپے سے باہر ہیں، جب شیخ رشید سمیت یہ سب شیروانیوں میں تھے تب اقتدار کے نشہ میں شیروانی ان سے اور یہ شیروانی سے باہر تھے۔۔۔۔
خارجی و داخلی و سیاسی لیڈرشپ ہونا الگ قصہ اور مختلف موازنہ ہوتا ہے پھر جاکر تاریخ کسی کو چُنتی ہے، قائدِاعظم اور بھٹو کو تاریخ نے چُنا اور وہ تاریخ میں ہنوز زندہ ہیں۔
کئیوں کو ہم نے قائدِ اعظم ثانی اور بھٹو کہا مگر وہ سطحی تحریک کے سبب دو دن کی تاریخ رہے۔ گر ہمارا مفکر اور سیانا گلوبل ولیج اور حقائق و تحقیق سے ہٹ کر سوچتا ہے تو پھر ہمیں چُن بیٹھی یہ تحریک پس ہمیں خان کی آج کی تحریک اور مجموعی تاریخ محض شیروانی کی متلاشی ہی دکھائی دیتی ہے!
بشکریہ:روزنامہ جنگ
یہ بھی پڑھیے:
محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟۔۔۔ نعیم مسعود
اپنی اصلاحات کا موڑ کب آئے گا؟۔۔۔ نعیم مسعود
عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!۔۔۔ نعیم مسعود
زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، خان اِن ٹربل؟ ۔۔۔ نعیم مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر