یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور پریشان ہے۔ میں شہر میں جاتا ہوں تو یہی لگتا ہے……۔ لوگ چڑیاں آزاد کرتے ہیں پریشانیوں سے نجات کے لیے۔
روایت یہی ہے۔ جو جانور قربان یا آزاد کیا جا رہا ہو، اُسے ہاتھ ضرور پھیرا جاتا ہے۔ خیال یہ ہے کہ آپ کے مصائب اور مسائل اُس میں منتقل ہو جائیں گی۔ وہ مرے گا تو اُس کے ساتھ ہی آپ کے مسئلے بھی مر جائیں گے، وہ اُڑے گا تو ساتھ مسائل بھی ہوا ہو جائیں گے۔
اگلے روز چڑی مار پھر وہیں جال لیے بیٹھ جاتا ہے۔ کل گزرے ہوئے لوگ پھر وہاں سے گزرتے ہیں اور چڑیوں کو دیکھ کر اُنھیں پھر بھولے مسائل یاد آ جائیں گے۔ اب چڑیاں چھوڑنے کے پیسے بھی نہیں
(وزیر اعظم ہسپتال میں بم دھماکے سے زخمی ہونے والے کے سینے پر ہاتھ رکھ کر داد رسی کر رہا ہے۔ وہ تصویر دیکھ کر یہ لکھا مارا)
پوسٹ لمبی تھی، مختصر کر دی۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم چڑیاں چھوڑ کر آتے ہیں اور تم دوبارہ یاد دلا دیتے ہو۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر