یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2008ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کے ساتھ ’’انسائیکلوپیڈیا ادبیات‘‘ کا معاہدہ ہوا اور کام شروع کیا تو سب سے اہل قلم ڈائریکٹری میں سے کچھ نام منتخب کیے۔ ان میں ایک نام افتخار نسیم افتی کا بھی دیکھا تو یاد آیا کہ اِس کی شاعری کی ایک کتاب ’’نرمان‘‘ پڑھ چکا ہوں۔ سو میں نے وہاں دیے ہوئے ای میل ایڈریس پر ایک فارم بھیجا اور درخواست کی کہ اپنے کام اور زندگی کے متعلق معلومات مہیا کر دیں تاکہ مستند ہوں۔ نیچے اپنا فون نمبر بھی دیا۔ کچھ دن بعد کسی غیر ملکی نمبر سے کال آئی اور باریک سی مردانہ آواز میں کسی نے پنجابی میں پوچھا: ’’تم ہو کون، مجھے کیا سمجھتے ہو جو فارم یوں بھیج کر حالات زندگی وغیرہ مانگ رہے ہو؟‘‘ میں نے کہا کہ آپ بھجوا دیں اگر مناسب سمجھیں، آپ کی مرضی ہے۔ اس پر وہ مزید تڑپ گیا اور بتانے لگا کہ میں کس سے بات کر رہا ہوں، اور مجھے اتنی بے باکی سے اور کسی تمہید کے بغیر ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
بات ناراض انداز میں شروع ہوئی تھی، لیکن تین گھنٹے چلتی رہی۔ افتخار نسیم افتی نے بتایا کہ وہ فیصل آباد سے تعلق رکھتا ہے، امریکہ میں عرصہ پہلے سیٹل ہو چکا ہے، نامور شاعر اور ادیب ہے، ہم جنس پرستوں کے حقوق کی تحریک میں بہت نمایاں ہے، اور اُس کی کچھ تحریریں امریکہ کی کسی یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہیں، وہ بھی یونیورسٹی میں لیکچر دیتا ہے۔
اُس نے یہ بھی کہا کہ لاہور میں فلاں شاعر اُس کی ’’بیٹی‘‘ ہے اور میں اُس سے اُس کی کتب لے کر پڑھوں۔ میں نے بعد میں وہ کتابیں لے کر پڑھیں، پسند نہ آئیں۔ وہ جس طرح کراس ڈریسنگ کا شوقین تھا، اِسی طرح شاعری اور افسانوں میں بھی بھونڈے طریقے سے کراس ڈریسنگ اور دیگر تجربات کی بات کرتا تھا جس میں کافی دکھ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ جس شناخت پر وہ عملاً فخر کرتا تھا، تحریروں میں اُسی کا جواز بھی ڈھونڈتا تھا۔
خیر پھر ایک بار اُس نے فون کر کے بتایا کہ فلاں فلاں تاریخ کو پاکستان آ رہا ہے، مال روڈ پر ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی کے گھر ڈنر ہے، اور میں بھی ملنے آؤں۔ وہاں نیلم احمد بشیر اور کچھ دیگر ادیب خواتین بھی موجود تھیں۔ فربہ، سانولا، گول چہرے اور لمبے بالوں والا افتخار نسیم افتی فر والا کوٹ پہنے بیٹھا تھا۔ ہاتھوں اور گلے میں سونے کی زنجیریں اور انگوٹھیاں تھیں، لپ سٹک بھی لگا رکھی تھی۔ خواتین کو بیہودہ اور ناقص جملے کس رہا تھا جن پر مہمان کسی خواہش کے بغیر ہنستے بھی۔ اگر کوئی خاتون فون سننے کے لیے اُٹھ کر باہر گئی تو وہ بولا، ’’اپنے گاہک سے بات کرنے گئی ہے، اپنا ریٹ طے کر رہی ہے، رات کا سودا کر رہی ہے۔‘‘ وہ تقریباً ہر بات پر جگت لگانے کی کوشش کرتا تھا۔ خیر مجھ سے زیادہ دیر نہ رہا گیا۔ کسی نے پانی کی بوتل سامنے رکھی تو اُس نے کھولنے کی کوشش کی، مگر اوپر پلاسٹک کی سِیل تھی۔ میں نے کہا، ’’آپ کو سِیل بند چیزوں کی عادت نہیں شاید۔‘‘ کچھ لوگ ہنسے اور وہ غصے میں آ گیا۔ فوراً اٹھا اور بولا، ’’میں لاہور شہر دیکھنے جا رہا ہوں۔‘‘ اور اپنا فر والا سفید کوٹ لہراتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔ مہمان وہیں بیٹھے رہے۔
وہ کوئی ایک عشرہ پہلے فوت ہو گیا۔ وہ شاید پاکستان کا پہلا اعلانیہ ’’گے‘‘ تھا۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر