اسلام آباد: سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر درخواستوں پر آج بھی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل بابر ستار نے اپنے دلائل جاری رکھتےہوئے کہا کہ ٹیکس شہری اور ریاست کے درمیان معاملہ ہے،کوئی شخص کسی دوسرے کے ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔
بابر ستار نے کہا کہ انکم ٹیکس قانون کا اطلاق آمدن پر ہوتا ہے اثاثوں پر نہیں۔ جس رقم پر ٹیکس لاگو نہ ہو اس پر انکم ٹیکس بھی لاگو نہیں ہوتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے ٹیکس قوانین کی شق 116 کی خلاف ورزی نہیں کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل نے کہا کہ ٹیکس قوانین میں منی ٹریل کو کوئی ذکر نہیں،منی ٹریل کا معاملہ پانامہ کیس میں پہلی بار سامنے آیا، منی ٹریل آف شور کمپنیوں میں سامنے لانا ہوتی ہے جہاں اصل مالک کا علم نہ ہو۔
بابر ستار نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ اور بچے لندن میں اثاثوں کے مالک ہیں،جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں نے کبھی ملکیت سے انکار نہیں کیا، ٹیکس ادا کرنا اور گوشوارے جمع کرانا الگ الگ چیزیں ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل نے کہا قابل ٹیکس آمدن نہ بھی ہو تو بھی گوشوارے جمع کرائے جا سکتے ہیں، 2018سے ٹیکس کوڈ کے مطابق فارن اِنکم/اثاثوں کی تفصیل جمع کرانا ہوتی ہے۔
جسٹس فیصل عرب نے اس موقع پر استفسار کیا کہ ریفرنس کب فائل کیا گیا؟
بابر ستار نے جواب دیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس مئی 2019 میں دائر ہوا۔
جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کیا اس ٹیکس کوڈ کا اطلاق اس کیس پر ہوتا ہے؟
بابر ستار نے کہا اثاثہ جب جسٹس فائز عیسٰی کا نہیں ان پر اطلاق بھی نہیں ہوتا۔
جسٹسی یحییٰ آفریدی نے کہا آپ ٹیکس معاملات کی طرف جا رہے ہیں،یہاں معاملہ اثاثے ظاہر کرنے کا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا مختلف معاملات کو آپس میں کنفیوز نہ کریں۔
بابر ستار نے جواب دیا ٹیکس گوشواروں کے ساتھ ویلتھ اسٹیٹمنٹ نہ جمع کروانے پر 25 ہزار جرمانہ ہے۔قانون کے مطابق زیر کفالت اہلیہ ،بچوں اور دیگر افراد کے اثاثے ظاہر کرنا لازم ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کیا ٹیکس آفیسر نوٹس جاری کئے بغیر اپنی رائے دے سکتا ہے؟
بابر ستار نے جواب دیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا انکی اہلیہ کو اہف بی آر نے کبھی نوٹس جاری نہیں کیا،ٹیکس کمشنر نے اپنے طور پر شق 116 کی خلاف ورزی کا فیصلہ کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی پر ویلتھ اسٹیٹمنٹ جمع نہ کروانے کا الزام نہیں ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا 2013 کے ویلتھ اسٹیٹمنٹ فارم کے مطابق اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں کا علم ہونا لازم ہے۔
بابر ستار نے اس پر جواب دیا کہ ٹیکس قوانین میں کوئی شخص کسی دوسرے کا جواب دہ نہیں ہے۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا بیوی شوہر کے زیر کفالت نہ بھی ہوتو اس کے اثاثوں کا علم ہونا ضروری ہے،قانون میں اہلیہ کا ذکر ہے زیر کفالت کا نہیں۔
بابرستار نے جواب دیا جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے 2013 میں اپنے گوشوارے جمع کروائے تھے۔
بابر ستار کے دلائل جاری تھے کہ کیس کی سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کردی گئی
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ