نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دہشت گردی کی نئی لہر کو سمجھنے کی ضرورت۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھانہ پولیس لائنز کی مسجد کے اندر خودکش دھماکے میں تادم تحریر امام مسجد اور اہلکاروں سمیت 92 افراد شہید جبکہ 48 زخمی ہیں، اموات کے بڑھنے کا خدشہ ہے کہ ابھی تک ملبہ ہٹانے کا کام جاری ہے ، اس سلسلے میں سپیشل انجینئرز کو طلب کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے پشاور مسجد میں خودکش دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود مسلمانوں کا بہیمانہ قتل قرآن کی تعلیمات کے منافی ہے، اللہ کے گھر کو نشانہ بنانا ثبوت ہے کہ حملہ آوروں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وزیر اعظم کے علاوہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ ، وزیر خارجہ بلاول بھٹو، سابق صدر آصف زرداری ، نگران وزیر اعلیٰ خیبرپختونخواہ محمد اعظم خان ، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ، مولانا فضل الرحمن ، جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے دہشت گردی کے واقعہ کی مذمت کی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے پشاور کی مسجد میں نماز کے دوران دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کیلئے لازم ہے کہ ہم اپنی انٹیلی جنس میں بہتری لائیں۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام اور مولانا سراج الحق کی جماعت اسلامی جب خیبرپختونخواہ میں برسر اقتدار تھی تو اس وقت بھی دہشت گردی زوروں پر تھی اور یہ دہشت گردوں سے ہمدردی رکھتے تھے۔ اب سب مذمت کر رہے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے لازمی ہے کہ دہشت گردی کے اسباب کو ختم کیا جائے۔ سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کے نتیجہ میں امریکہ ہمیں دبائو میں لا کر ایک بار پھر افغانستان میں اپنا رول بڑھانا چاہتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ پر اس سے مدد مانگے اور وہ دوبارہ افغانستان آپریشن کرے۔ اسلم بیگ نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جنرل (ر) اسلم بیگ نے بجا طور پر فرمایا کہ دہشت گردی کی نئی لہر کو سمجھنے کی ضرورت ہے مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ 18 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کی وفات سے اگلے روز اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے جنرل اسلم بیگ کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا، لیکن دہشت گردی جو کہ ضیاء الحق کے دور سے جاری تھی اس میں کمی نہ آئی ، یہ سب کچھ امریکہ کی ایما پر ہو رہا تھا۔ جنرل (ر) اسلم بیگ دہشت گردی کے تمام حالات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ضیاء الحق دور میں جب دہشت گردی عروج پر تھی تو 1986ء میں وہ پشاور کے کور کمانڈر تھے اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ 1988ء کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے مذہبی جماعتوں کے اتحاد (آئی جے آئی) کی حمایت کی۔ جنرل (ر) اسلم بیگ کی اس بات پر توجہ کی ضرورت ہے کہ کچھ روز قبل امریکہ نے پاکستان کو کہا تھا کہ ہم پاکستان میں دہشت گردوںپر قابو پانے کیلئے اور دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں ، پاکستان نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا اور کہا تھا کہ ہم اپنے حالات کو دیکھ رہے ہیں، اگر ضرورت ہوئی تو بتائیں گے ۔ اب بھی وہی سوچ کام کر رہی ہے، امریکہ ہمیں دہشت گردی سے ڈرا دھمکا کر اس علاقے میں اپنا رول دوبارہ سے بڑھانا چاہتا ہے۔ امریکہ کچھ عرصہ تک ہمارے اور افغانستان کے حالات سے لاتعلق رہا اور اب دوبارہ اپنے پر پرزے اس علاقے میں پھیلانا چاہتا ہے کیونکہ اس کاخیال ہے کہ اس خطہ سے نکل کر اس کو بھاری نقصان ہوا ہے۔ امریکہ کسی نا کسی صورت میں پاکستان کو دبائو میں رکھنا چاہ رہا ہے جب ان تمام کڑیوں کو ملا کر دیکھا جائے تو پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے تمام کردار واضح ہو جائیں گے ۔ امریکہ چاہ رہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو اور پاکستان کو مجبور کیا جائے کہ اس سے مدد مانگے۔تاہم پاکستان کو اپنے مفاد اور اپنی سوچ کے مطابق امریکہ سے مدد مانگنی چاہئے، جہاں ہمارا مفاد کمپرو مائز ہو وہاں ہماری حکومت کو بھی سوچناہوگا ۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈر مہران اور امداد اللہ کو ہلاک کر دیا ہے ، بتایا گیا ہے کہ ہلاک دہشت گرد پولیس پر حملوں ، ٹارگٹ کلنگ سمیت کئی واقعات میں ملوث تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان ہمیشہ دہشت گردوں کے نشانے پر رہے ہیں۔ جب بھی ملک میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے توان اضلاع میں خوف کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، ان اضلاع کی عوام طویل عرصہ سے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاج کرتے آ رہے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان اضلاع میں دہشت گردوں نے اپنے مستقل ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ میں نے انہی کالموں میں سکیورٹی فورسز اور حکومت کی توجہ دلاتے ہوئے لکھا تھا کہ صوبہ خیبرپختوانخوا کے علاقہ جات ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں بھی ایک عرصہ سے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی جاری ہے ۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ ڈیرہ اسماعیل خان و ٹانک سے دوسرے علاقوں میں منتقل بھی ہو چکے ہیں، ڈی آئی خان میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات کی بنا پر ڈی آئی خان و ٹانک میں ٹارگٹ کلنگ کیخلاف ایکشن لیا جانا ضروری ہے، خیبر پختونخوا حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ڈی آئی خان و ٹانک میں رہنے والے افراد کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے ، خوف و ہراس کی کیفیت کا خاتمہ کیا جائے تاکہ لوگ اپنا گھر اور اپنی دھرتی چھوڑنے پر مجبور نہ ہوں۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے ایک بار پھر اس احساس کو زندہ کر دیا ہے تاکہ وہ اپنے سابقہ تاریخی ، ثقافتی اور جغرافیائی صوبے کا حصہ بن کر اطمینان حاصل کر سکیں۔

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author