سجاد جہانیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملتان میں یوں تو استاد شاگرد کے تعزیے مشہور ہیں جن کی رونمائی سال بہ سال ایام عاشور میں ہوا کرتی ہے تاہم ان دنوں شہر میں ”استاد شاگرد“ کے ادبی کالموں کا چرچا ہے۔ پروفیسر انور جمال اور رضی الدین رضی کے ادبی کالموں کے مجموعے علی الترتیب ”ملتان رنگ“ اور ”کالم ہوتل بابا کے“ آگے پیچھے طبع ہو کر مارکیٹ میں آئے ہیں۔ یہ بھی ہمیں انہی مجموعہ ہائے کی ورق گردانی سے معلوم ہوا کہ رضی الدین رضی کالج کے ایام میں جناب انور جمال کے شاگرد رشید رہے ہیں۔
خیر! یہ شاگرد رشید کی ترکیب تو یونہی ہم نے اپنی انشا پردازی کی دھاک جمانے کو رقم کردی وگرنہ جو احباب رضی کا مزاج جانتے ہیں، انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ رضی اور کسی سے رشد پائے، یہ ممکن ہی نہیں۔ وہ حال مست رہنے والا شخص ہے جس کا اپنا ایک نکتہ نظر اور سوچ ہے۔ بہر حال، ملتان رنگ 1980 ء سے 1986 ء تک کے ادبی کالم ہیں جبکہ کالم ہوتل بابا کے، 1986 ء تا 1991 ء تک کے دبستان ملتان کا احاطہ کرتے کالم۔ گویا استاد شاگرد نے مل کے ملتان شہر اور گرد و نواح کے گیارہ سالہ ادبی تاریخ کو محفوظ کر دیا ہے جس پر دونوں ہی مبارک باد اور ملتان کے ادبی حلقوں کی طرف سے خراج تحسین کے سزاوار ہیں۔ تاہم آج کی نشست میں ثانی الذکر کا تذکرہ ہو گا یعنی ”کالم ہوتل بابا کے“ ۔ اول الذکر کو اگلی نشست کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔
اردو میں کالم نگاری کا سراغ لگانے نکلیں تو تلاش کرنے والا کم از کم ڈیڑھ سو برس پیچھے جا نکلتا ہے۔ اردو صحافت اپنا گولڈن جوبلی منا رہی تھی جب 1877 ء میں سجاد حسین نے ”اودھ پنچ“ کا آغاز کیا۔ اردو صحافت میں طنزیہ، شوخ اور فکاہیہ کالم اسی اخبار نے شروع کیے ۔ فکر تونسوی نے لکھا تھا ”اودھ پنچ والے کون تھے؟ ایک صدی پہلے طنازوں کا یہ قافلہ کیوں پیدا ہوا؟ فرنگی سامراج کی تلوار قلم اور اظہار پر لہرا رہی ہو، نثر میں رئیسانہ پر تکلفی کو اعلیٰ تہذیب سمجھا جاتا ہو اور سیاسی جدوجہد پر نوکیلے پہرے بیٹھے ہوں۔ ایسے گھٹن اور زوال زدہ معاشرے میں اودھ پنچ والے دانش وروں کا قافلہ اپنا طرار، شگفتہ، بے باک قلم لئے ابھر آیا“
سامراج بدیسی ہو یا دیسی کم ہی سخن فہم ہوتا ہے سو طنز اور مزاح کی آڑ میں اپنا اور عوام کا کتھارسس کیا جاسکتا ہے۔ رضی الدین رضی کے کالم پڑھتے ہوئے مجھے اودھ پنچ پر لکھے فکر تونسوی کے اس اقتباس کا خیال یوں آیا کہ یہ زمانہ بھی وہی ہے جب اعلان کی حد تک تو مارشل لا اٹھا لیا گیا تھا مگر قلم و زباں بندی کی روایات کم و بیش جوں کی توں تھیں۔ ایسے میں رضی ایسا ”باغی“ اپنی بات کہنے سے نہیں ٹلتا اور اسے طنز و مزاح کے نقرئی ورق چڑھا کر پیش کر دیتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ جملے ایک ایسے اخبار میں چھپ کر قارئین تک پہنچتے رہے جو اس جماعت کا ترجمان تھا اور ہے جو مارشل لائی مجلس شوریٰ کی یوں جانیے مدارالمہام تھی۔ خیر! یہ جھلکیاں کہیں کہیں موجود ہیں تاہم بنیادی طور پر یہ ادبی کالم ہیں جو ادبی تقریبات، ادب سے وابستہ شخصیات اور ادبی خبروں کے شگفتہ تذکرے کے حامل ہیں۔
رضی کی رواں دواں نثر اور شگفتہ بیانی نے انہیں خاصے کی چیز بنا دیا ہے۔ صفحہ نمبر 80 تک وہ کالم ہیں جو ”ہوتل بابا“ کے قلمی نام سے رفیق ڈوگر مرحوم کے ہفت روزہ دید شنید میں چھپتے رہے۔ فرضی نام سے کالم لکھنے کی روایت بھی خوب ہے۔ کولمبس، کوچہ گرد، سند باد جہازی کے پیچھے چھپا چراغ حسن حسرت ہو یا نقاش، ابو زید وغیرہ کی آڑ میں مولانا ظفر علی خان، بات کہنی اور سیدھی بات کہنی قدرے سہل ہوجاتی ہے۔ ہوتل بابا کے کالموں میں بھی رضی الدین رضی ایک غیر شخص ہے۔
کالموں میں اس کا تذکرہ آتا ہے تو معافی کی گنجائش اس کے لئے بھی نہیں ہوتی۔ یہ اقتباس دیکھئے ”اب آئیے آپ کو شاکر حسین شاکر کی شادی کا احوال سناتے ہیں۔ یہ بچونگڑہ رضی الدین رضی کا لنگوٹیا ہے۔ جب تک یہ دونوں فسادی ملتان میں رہے، اہل ملتان کی نظروں میں کھٹکتے رہے۔“ یا پھر ”رضی کو بھی ملتان کا نمائندہ شمار کیا جائیے تو بھی کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ یہ عزیز تین میں ہے نہ تیرہ میں۔ ہر وقت اپنی عینک کے میلے شیشے صاف کرتا رہتا ہے اور منہ سے بولتا تک نہیں۔ بالکل سلیم اختر کی طرح مردم بیزار ہے۔
رضی گو کہ بہت اچھا شاعر اور باکمال نثر نگار ہے مگر صحافی بھی ہے۔ صحافی کے ہاں کم ہی معافی کا تصور ہے۔ ہم عصر تو خیر کوئی بھی اس کی چٹکیوں سے محفوظ نہیں تاہم کہیں کہیں سینئرز کے بارے میں کچھ توصیفی جملے مل جاتے ہیں مگر چٹکی ان کے بھی جا بہ جا بھری جاتی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو ”پروفیسر عاصی کرنالی کی کتاب ہم نے ایک کتب فروش کی دکان پر دیکھی تھی۔ ٹائٹل بہت اچھا تھا یعنی رنگوں کا استعمال کم اور سفیدی زیادہ۔ ایسے ٹائٹل ہمیں ہمیشہ اچھے لگتے ہیں۔ دکان پر ہی کتاب کی سرسری ورق گردانی کی تو ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر کتاب کے اندر بھی سیاہی کم اور سفیدی زیادہ ہوتی تو بہتر تھا۔“
”انہوں نے ایم اے اردو کر لیا ہے اور شنید ہے کہ کسی کالج میں بطور لیکچرر ان کی تقرری بھی ہو گئی ہے لیکن چونکہ لوگوں نے یہ خبر خود اطہر ناسک کی زبانی سنی ہے، اس لئے کسی کو بھی اس پر یقین نہیں آ رہا“ ایک اور نوکیلا جملہ دیکھئے ”اگلے روز یہ واقعہ ہوا کہ حیدر گردیزی کو نذیر قیصر اور اسلم انصاری کے اشعار میں زنانہ لہجہ نظر آ گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے لوگوں کو بعض خواتین کی غزلوں سے مردانہ لہجہ جھلکتا دکھائی دیتا ہے“ ۔ ایک بیوروکریٹ شاعر کے بارے میں لکھتے ہیں ”تصویر میں حاجی صاحب نے ٹائی باندھ رکھی ہے۔ سر پر غالباً ٹوپی ہے اور یہ ٹوپی بالکل ویسی ہے جیسی جعفر شیرازی صاحب کے سر پر ہوتی ہے اور لوگ اسے وگ کہتے ہیں“ ۔
یہ ملتان کا چھ سالہ ادبی منظر نامہ ہے۔ رضی الدین رضی کا نگار خانہ جہاں اس نے ان برسوں کے ادبی مناقشوں، فرقہ بندیوں، مشاعروں، کتابوں کی رونمائیوں، سالانہ ادبی جائزوں اور خبروں کو فریم کر کے لٹکا رکھا ہے۔ شعر و ادب کے کتنے ہی ستارے ہیں کہ وقت کی دھند کے پیچھے خاک کے پردے میں پڑے سوتے ہیں، اس کتاب کے صفحات پر جیتے جاگتے، تقریبات سجاتے، مشاعرے پڑھتے، سازشیں کرتے، اک دوجے کو نیچا دکھاتے، آگے بڑھاتے، افسانے پڑھتے اور شعر کہتے نظر آتے ہیں۔ ان میں بیشتر اپنے اپنے جھگڑے نمٹاتے نمٹاتے خاموش ہو گئے اور کہیں اخبارات کی کٹی پھٹی فائلوں میں پڑے دھول کھاتے تھے۔ رضی نے اس کتاب کی صورت گرد جھاڑ کر صاف ستھرا کر کے اہل ملتان کو پیش کر دیا ہے۔ اس خوبصورت کتاب کو ”گرد و پیش“ کے زیر اہتمام اسے چھاپا گیا ہے۔
یہ چونکہ اس زمانے کے کالم ہیں جب ہمیں ادب سے کچھ لینا دینا نہ تھا۔ بچوں کے صفحہ میں کہانیاں لکھتے اور بچوں کے اخبار رسالے پڑھتے تھے۔ سو ہم نے ان کالموں کی خواندگی پہلی مرتبہ کی ہے۔ ہمارے لئے رضی کا یہ اسلوب خوش گوار حیرت کا باعث تھا۔ قدرے غصیلی سنجیدہ تحریریں لکھنے والا رضی کبھی ایسا بھی لکھا کرتا تھا کہ جسے پڑھ کر ابن انشا کی نثر کی شگفتگی اور روانی یاد آنے لگے۔ ان سطور کے ذریعے ہم رضی الدین رضی سے فرمائش کرتے ہیں کہ اپنے اس اسلوب کو رجوع کریں۔ تاہم کم و پیش سارے کالم پڑھنے کے بعد بھی میں سوچ رہا ہوں کہ یہ ”طائر لاہوتی“ کون تھا!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر