یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1990ء کی دہائی کے آغاز میں ڈِش انٹینا کا غلغلہ ہوا تو بہت سے لوگوں نے اِسے ’’ہماری آفاقی اور دائمی اخلاقی اقدار‘‘ کے لیے خطرہ قرار دیا۔ ترقی پسندوں نے سوچا کہ چلو ڈِش انٹینا آئے گا تو کچھ کھلا پن پیدا ہوگا۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ بزرگ حضرات خواتین کی کشتیاں اور نوجوان خواتین کی ورزش کے پروگرام دیکھنے بیٹھ گئے۔ کچھ خوش قسمت لوگ تو فحش روسی چینلز بھی کیچ کر لیتے تھے۔
اُسی زمانے میں کمپیوٹر کی سہولت میسر آ جانے پر کتابوں کی چھپائی بھی بہت آسان ہو گئی، اور بہت سے پرنٹر و ڈسٹری بیوٹر حضرات انڈین اور دیگر کتب کو دوبارہ چھاپ کر پبلشرز بن بیٹھے۔ اُس کے بعد یہ سہولت بھی پیدا ہو گئی کہ چھپی ہوئی کتاب کی ہی فوٹوکاپی ٹریسنگ پر کرواؤ اور دھڑا دھڑ چھاپ دو۔ لیکن گزشتہ پانچ دس سال میں کتب کی پبلشنگ کا شعبہ جس انحطاط کا شکار ہوا ہے، وہ بے مثال ہے۔
کچھ جٹ، راجپوت اور دیگر ذاتوں کے ناموں کے لاحقوں والے لوگ بھی بہ کثرت کتب لکھنے کے ’’کاروبار‘‘ میں پوری طرح آ گئے ہیں۔ ایک صاحب نے سکندر، سقراط اور حسین بن منصور حلاج پر بھی کتب لکھ دیں۔ میری اپنی ترجمہ کردہ کتاب پنجاب کی ذاتیں سے کئی کتب بنا لی گئیں۔ نظام قدرت اور دقیق سائنسی موضوع پر کتب لکھنے والے ایگری کلچر یونیورسٹی کے اساتذہ میدان میں آئے۔
لیکن سب سے بڑا ظلم فلسفے کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ فلسفے کی کتاب کا ترجمہ یا تالیف تجربے اور زبان و بیان کی خوبیوں سے روشناس ہوئے بغیر ممکن نہیں۔ ایک صاحب نے یونانی فلسفہ کے بارے میں کتاب مرتب یا تالیف کی، اور ارسطو کی کوئی رائے بیان کرنے کے بعد یہ بھی فیصلہ دیتے کہ یہاں ارسطو کا خیال غلط ہے، یہاں ارسطو جھوٹ بول رہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ کسی نعیم احمد صاحب کی کتاب کے بارے میں پتا چلا ہے کہ کئی کئی صفحات دوسری کتب سے اُٹھا لیے ہیں اور اپنا بنا کر پیش کر دیا۔
یووال نوح ہراری کی کتب کے کراچی سے چھپنے والے تراجم بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ مترجم صاحب نے ساتھ ساتھ فٹ نوٹس میں ہراری کے خیال پر تنقید بھی کی ہے۔ فرائیڈ، رسل، خوشونت سنگھ کے ساتھ بھی کچھ کم نہیں ہوئی۔ ہماری روایت ہی ایسی ہے۔
اصل میں ہمارے ہاں سماجی ’حساسیت‘ کچھ اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہمیں اپنی جہالت سے مختلف کوئی بھی بات غلط لگتی ہے۔ ہم پڑھنے سے پہلے ہی فیصلہ کر کے بیٹھے ہوتے ہیں۔ لیکن اب قارئین کو بھی اپنی تربیت کرنا ہو گی۔ ایک اچھی مثال ایک قاری کے میسیجز کے سکرین شاٹ کی صورت میں پیش ہے۔ میرے سمیت کسی کے بھی ترجمہ میں اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو کھل کر رائے دیا کریں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر