یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح ہم بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، نیپال، ویتنام اور ملائشیا والوں کا ’مغرب‘ ہیں، اُسی طرح ہم کسی پہلے گزرے ہوئے کے ابد میں بھی زندہ ہیں۔ زوالِ عمر کا احساس ہی بہت سی حرام زدگیوں اور کمینگیوں، بھونڈے پن اور ٹھرک کا سبب ہے۔
فلسفے کا ایک بہت بڑا حصہ زندگی کے پہلے سٹیشن پر آخری قیام کو بامعنی بنانے سے متعلق ہے۔ حتیٰ کہ waiting for godot یا Myth of Sisyphus میں لاحاصلی کا بیان بھی ایک طرح سے کچھ حاصل اور مطلب پیدا کرنے کی کوشش نہیں؟
کیا بے ہنگم رقص کرتا ہوا بوڑھا یا کوئی ڈھلے جسم کو اکڑا کر بیٹھی ہوئی سنگیتا بجلانی زوال عمر کا احساس روکنے کی بھونڈی کوشش ہے؟ کیا لباس کے کِواڑوں میں سے دکھائی جا رہی چربی پر اش اش کریں جس پر رکھا ہوا گہرا نسواری سکہ دکھانے کی اجازت نہیں؟
یہ ہم جدید دور، بیسویں اور اکیسویں صدی کے انسانوں کا مسئلہ ہے اور ماضی کا فلسفہ شاید ہی ہمیں اس بارے میں کچھ بتاتا ہے۔ ہم اپنی حقیقت سے باہر رہتے ہیں۔ آج تصویر میں نظر آنے والی حقیقت ہم میں منعکس ہوتی ہے۔
ہم عموماً وہی مسائل اٹھاتے ہیں جن کا حل ڈھونڈ سکتے ہوں۔ جبکہ زندگی کے بہت سے جدید مسائل شاید ناقابلِ حل ہیں۔ میرل سٹریپ کی ایک مووی میں کنسنٹریشن کیمپ میں نازی سپاہی اُس سے کہتا ہے کہ ایک بچہ اُس کے حوالے کر دے تاکہ اُسے گیس چیمبر میں بھیجا جائے۔ اُسے انتخاب کرنے کی آزادی دے دی جاتی ہے۔ آپ/ہم اس کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ شاید عمر بھی اس سے ملتا جُلتا معاملہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر