یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے خیال میں اُردو کی نہایت متاثر کن کتب میں سے ایک
یہ ایک ایسی کتاب تھی جس نے کئی اُردو لکھنے والوں کو تقریباً پاگل کر دیا۔ کچھ شاعر اور ادیب حضرات تو اپنی ’تخلیق‘ سے زیادہ توجہ املا پر دینے لگے۔ وہ آپ کو بحث کرتے ہوئے ملتے کہ اژدہا اور اژدہام کو ازدہا اور ازدہام لکھنے چاہیے یا نہیں۔ حرج کو ہرج لکھیں گے یا نہیں، اور شاید ہامی کو حامی۔ غمگین اور غمگیں میں بھی فرق رکھنا ہو گا۔ مِٹی ہے یا مَٹی، ذِبح ہے یا ذَبح، درستی درست یا درستگی، رہنا سے رہائش ٹھیک ہے تو کھانا سے کھلائش بھی ٹھیک ہوتا، وغیرہ۔
اِن باتوں کے ساتھ ہی کئی دوسری چیزوں پر بھی وعظ دیتے۔ وہ کہہ کو بھی ایک نرالے انداز سے لکھنے پر زور دیتے کہ کے نیچے ایک شوشہ۔ اُنھیں گفت گُو، نگہ بان، چنانچہ کو چناں چہ، کیونکہ کو کیوں کہ، کم زور لکھنے کا خبط بھی ہو گیا۔ وہ غَم اور دَست جیسے سیدھا الفاظ پر بھی اعراب دینے لگے جس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان پیج نے اعراب ڈالنا ممکن بنا دیا تھا۔
یاد رکھنا چاہیے کہ زبان اصولوں کے تحت نہیں بنتی، بلکہ اصول زبان کے بعد اُسے جسٹیفائی کرنے کے لیے بنتے ہیں۔ یہ اصول الحدیث جیسا معاملہ ہے۔
اور عام لکھنے والوں کے اعمال یہ ہیں کہ دوستو کو دوستوں لکھتے ہیں۔
ہم سب کا خیال ہوتا ہے کہ ہم لکھ سکتے ہیں۔ میرا بھی یہی خیال تھا۔ آج سے تیس سال پہلے دوستوں کو افسانے لکھ کر سنائے اور اُن کی آنکھوں کے تاثر نے بتایا کہ نہیں لکھنا چاہیے۔ البتہ وہ خود لکھتے رہے اور میری آنکھوں کے تاثر پر غور نہ کیا۔
تین چار سال قبل میں نے سوچا کہ ایک رِم (ream) کاغذ لے کر اُسے بائنڈ کرواتا ہوں، اور ایک شیلف میں رکھ دوں گا۔ روزانہ جو بھی ذہن میں آیا کرے گا لکھتا رہوں گا۔ ایسا ہی کیا، اور آپ بیتی لکھی۔ بعد میں رِیم بائنڈ کروا کر رکھنے کی بجائے فیس بک پر لکھنا شروع کر دیا۔
اب پذیرائی کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ یہاں لکھی ہوئی تحریروں کو تھوڑا سنوار اور پھیلا کر کتابی شکل دی جائے۔
آپ بھی اگر سمجھتے ہیں کہ آپ کے اندر ایک لکھاری چھپا ہے تو اُسے آزمائیں، کیا پتا یہ آپ کا وہم ہو۔ بہرحال، ایک اچھا قاری بنے بغیر آپ لکھاری تو کیا ایک اچھا انسان بھی مشکل سے ہی بن سکتے ہیں۔ ہم لوگ رقص کو سراہ کر بھی تو اُس میں شریک ہو سکتے ہیں۔
پس نوشت: سترھویں اٹھارھویں صدی میں ڈینس ڈیڈرو وغیرہ نے تو پیشگی سبسکرپشن لے کر بھی لکھا تھا۔ میں نے یہ کام کیا تو ’’پاکستان کی …… تاریخ‘‘ کے لیے کروں گا۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر