نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرکاری و عوامی عہدے، اختیارات اور سرکاری تحائف||جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا سرائیکی وسیب کے ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے صحافی اور سماجی رہنما ہیں، وہ مختلف موضوعات پر مختلف اشاعتی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

جام ایم ڈی گانگا

03006707148

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترم قارئین کرام،، ہم میں سے اکثر نام کے مسلمان ہیں. صرف گفتار کے غازی ہیں کردار کے مجاہد نہیں رہے. ریاست مدینہ کی بات کرنا آسان ہے اس پر عمل پیرا ہونا ہر کسی کے بس کی بات ہرگز نہیں ہے. وطن عزیز پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصہ سے ہر خاص و عام محفل میں توشہ خانہ کے چرچے ہیں. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ توشہ خانہ سے کون مستفید نہیں ہوا. یہاں تو طاقت و اقتدار اور اختیارات کا من مرضی سے بلکہ ناجائز استعمال ہی بڑی طاقت اور مضبوط حکمرانی تصور کی اور سمجھی جاتی ہے. مرئی اور غیر مرئی کرپشن اور لوٹ مار کو اپنا حق سمجھ کر فراخدلی سے ڈنکے کی چوٹ پر کیا جاتا ہے. عوامی نمائندگان ہوں یا سرکاری آفیسران و بڑے بیورو کریٹ اثاثہ جات جمع کرنے کے معاملے میں ریڈیالوجی لہروں کی طرح تیزی اور باریکی موجود ہے. وطن عزیز پاکستان یہ رُولر کلاس مخلوق اپنے آپ کو ماوراء آئین و قانون سمجھتی ہے. ان کی زندگی، رہن سہن اور اثاثہ جات وغیرہ کی جانچ پڑتال کے بارے میں سوچنا بڑا گناہ، ناقابل معافی جرم اور قومی سلامتی پر حملہ تصور کیا جاتا ہے. اس کی سزا کے کئی مناظر ماضی، ماضی قریب اور حال میں آپ سب دیکھ چکے ہیں اس وقت مجھے اُن کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے. میں یہاں پر ریاست مدینہ کے دور کا ایک واقعہ آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں. کرپٹ عناصر کے علاوہ کرپٹ ٹولے کی اندھا دھند تقلید و تحفظ کرنے والے گمراہ لوگ چاہے وہ جس کسی گروہ یا پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں یہ جان اور سمجھ سکیں کہ وہ کس راستے پر نکلے ہوئے ہیں
حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں بصرہ کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعری کے خلاف شکایت آئی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے گورنر کو طلب کیا اور پوچھا. ” ابو موسیٰ ! میں نے سنا ھے تجھے جو تحائف ملتے ہیں وہ تم خود رکھ لیتے ہو بیت المال میں جمع نہیں کرواتے”؟. حضرت ابو موسی اشعریؓ بولے ! حضور وہ تحائف مجھے ملتے ہیں۔
حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا ! وہ تحائف تجھے نہیں تمہارے عہدے کو ملتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو موسیٰ کو گورنر کے عہدے سے معزول کیا، ٹاٹ کے کپڑے پہنائے، ہاتھ میں چھڑی دی اور بیت المال سے سینکڑوں بکریاں دیکر کہا کہ جاؤ اور اب سے بکریاں چرانا شروع کر دو۔ابو موسیؓ ہچکچانے لگے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا ! تمہارے باپ دادا یہی کام کرتے تھے یہ تو حضور علیہ السلام کے وسیلے سے تجھے گورنری مل گئی تھی۔
کافی عرصے بعد حضرت عمر فاروقؓ خود جنگل میں چلے گئے تو دیکھا بکریاں چر رہی ہیں، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ایک ٹیلے سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور انکے چہرے کا رنگ زرد پڑ چکا ھے۔حضرت عمرؓ نے فرمایا سنا ابو موسیٰ ! اب بھی تجھے تحفے ملتے ہیں؟. حضرت ابو موسیٰ اشعری بولے۔ حضور ! مجھے سمجھ آ گئی ھے.
محترم قارئین کرام،، ہمارے ہاں ایسی باتیں نہ تو حکمرانوں کو سمجھ آتی ہیں نہ اُن کے پیرو کارو کو، بیورو کریسی اور اسٹبلشمنٹ تو مقدس گائے کی حیثیت رکھتے ہیں. یہاں کسی کے ناجائز بنائے گئے اثاثہ جات کا معاملہ لیک ہو تو اثاثہ جات کا حساب لینے اور احستاب کرنے کی بجائے الٹا سچ کو منظر عام پر لانے والوں کو نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے. یہاں کرپشن کا یہ عالم ہے کہ جس کسی بھی عوامی و سرکاری عہدیدار کو تربوز کی طرح چیر کر یا کاٹ کر دیکھو تو وہ شرطیہ لال ہی نکلتا ہے. ایسے لعل اور ہیرے پاکستان میں ہی پائے جاتے ہیں. جو قومی خزانے اور عوام دونوں پر ہاتھ پھیر کر صفائی کرکے مال متاع بیرون ممالک لے جاتے ہیں. وہاں فیکٹریاں، بنگلے جزیرے خریدے جاتے ہیں.پھر وہ اور اُن کی اولادیں وہاں عیاشی کی زندگیاں گزارتے ہیں. وطن مقروض در مقروض ہو کر کبھی گرے لسٹ اور کبھی ڈیفالٹ کے کناروں پر پہنچ جاتا ہے. قومی معیشت کمزور اور بے چاری عوام ٹیکسز کے بوجھ سے نڈھال سے بدحال ہو جاتی ہے.قومی لٹیروں کی جاگیریں کیسے بنتی ہیں اثاثہ جات کروڑوں سے اربوں کھربوں تک کیسے پہنچتے ہیں. سچ تو یہ ہے کہ یہاں پورا سچ ممنوعہ علاقہ ہے.

محترم قارئین کرام،، مجھے نہیں معلوم ضلع رحیم یارخان کے نئے ڈپٹی کمشنر کس سوچ اور کردار کے حامل آفیسر اور انسان ہیں.ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ ہر نیا آنے والا ضلع کا کپتان ابتدائی ایام اور مہینے میں ضلع کے طول و عرض میں خوب دورے کرتا ہے. اس کے ان دوروں سے مختلف شعبہ جات میں موجود کالی بھیڑوں کے علاوہ مختلف قسم کے مافیاز کو بھی دورے پڑتے ہیں. یہ دورے کرنے اور دورے پڑے کا سلسلہ رفتہ رفتہ نارمل کنڈیشن میں آ جاتا ہے.یقینا ایک اچھا آفیسر اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والے بہت سارے معاملات اور حالات کو اپنی آنکھوں کی بصارت، اپنے دماغ کی بصیرت اور اپنے روح کی روحانیت کے ذریعے جانچتا اور دیکھتا ہے.عوام کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والا بہت کچھ کر گزرتا ہے اور کمائی کے خواب لے کر آنے والا خوب کمائی کرتا ہے. محبت ہو یا پیسہ رحیم یارخان دونوں لحاظ سے بڑا زرخیز ہے. ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان محمد سلمان خان لودھی نے گذشتہ دنوں ٹی ایچ کیو ہسپتال میانوالی قریشیاں کا دورہ کیا. محکمہ بلڈنگ متعلقہ کنٹریکٹر کو ہدائت کی کہ باقی ماندہ کام جلد مکمل کرلئے رواں ماہ کے اختتام تک ہسپتال کو فنکشنل کر دیا جائے گا. ہسپتال کے اطراف دستیاب جگہوں پر گرین بیلٹ قائم کئے جائیں اور ان میں خوبصورت پودے لگائے جائیں. سی ایس او ہیلتھ اتھارٹی کو ہدایت کی کہ وہ ہسپتال میں ایم ایس کی تعیناتی کے لیے فوری اقدام اٹھائیں تاکہ ایم ایس اپنی نگرانی میں کام مکمل کرلئے.علاوہ ازیں ہسپتال میں مشینری و دیگر آلات سمیت سامان کو جلد از جلد منتقل کیا جائے تاکہ فوری ہسپتال میں عوام کو طبی سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ڈپٹی کمشنر نے کے ایل پی روڈ کو براستہ کوٹلہ پٹھان خانپور شہر سے ملانے والی زیر تعمیر کارپٹ روڈ ، خانپور فلائی اوور کے تعمیراتی کاموں کا بھی جائزہ لیا اور ہدایت کی کہ فلائی اوور پر بھی کام کی رفتار کو بڑھایا جائے۔انہوں نے تمام سکیموں کو بروقت مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سکیموں کی تکمیل میں کوالٹی کو معیار بنایا جائے۔میگا منصوبوں کی بروقت تکمیل نا ہونے سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔منصوبوں کی تکمیل میں شفافیت کو معیار بنائیں۔ادارے باہمی ربط کو بہتر بنا کر انفراسٹرکچر بحالی بارے مشترکہ پلان مرتب کریں
بلاشبہ رورل ہیلتھ کمپلیکس میانوالی قریشیاں جسے سابق وزیر اعلی پنجاب سردار محمد عثمان خان کے دور میں ٹی ایچ کیو ہسپتال کا درجہ دے کر اپ گریڈ کیا گیا. اس میں میانوالی قریشیاں کے وزراء بھائیوں مخدوم خسرو بختیار، مخدوم ہاشم جواں بخت کا مثبت کردار بھی قابل تعریف رہا. وہ اس عوامی و فلاحی منصوبے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے. مجھے یاد ہے کہ میانوالی قریشیاں کا منظور شدہ بوائز کالج قبل ازیں انہوں نے سہجہ شفٹ کروا دیا تھا. اس غلط فیصلے پر بندہ ناچیز نے ایک کالم بھی لکھا تھا جس کا مخادیم نے بہت بُرا منایا تھا. جس نےعوام کی بھلائی کی سوچ کے تحت اور اللہ کی رضا کے لیے لکھنا یا بولنا ہوتا ہے اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا. ہسپتال کو اپ گریٹ کروانے کے معاملے میں دل کی گہرائیوں سے انہیں سلام پیش کرتا ہوں.
میانوالی قریشیاں کا یہ ہسپتال اپنے محل وقوع کے لحاظ سے عوامی طبی سہولیات کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے.ہم امید کرتے ہیں کہ سابق ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان ڈاکٹر احمد جاوید قاضی جوکہ اس وقت سیکرٹری ہیلتھ پنجاب ہیں وہ ہسپتال کے ساز وسامان، ڈاکٹرز اور سٹاف وغیرہ کی تعیناتی و فراہمی میں حائل رکاوٹوں کو خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے حل کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے. ہسپتال میں زیادہ سے زیادہ شعبہ جات کو فعال کروایا جائے گا. کے ایل پی روڈ کنارے واقع ہونے کی وجہ سے خاص طور پر شعبہ ایمرجنسی کو جدید ترین سہولیات سے آراستہ ہونا چاہئیے. کچے کی بیلٹ میں زچہ بچہ کے مسائل کے پیش نظر متعلقہ سنٹر کی خاص اہمیت ہے. گرد و نواح کے علاقوں میں تقریبا ہر تیسرا چوتھا آدمی یرقان کے مرض کا شکار ہے.گردوں کی بیماری بھی عام ہے. اس لیے مذکورہ بالا شعبہ جات پر خصوصی فوکس کیا جائے.
میں یہاں پر اس حقیقت کو بیان کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں ٹی ایچ کیو ہسپتال میانوالی قریشیاں کے لیے مخدوم جاوید مصطفی کو اپنے والد گرامی اور مخدوم صدام حسین کو اپنے دادا مخدوم نور مصطفی ہاشمی کے نیک عمل کی تلقید کرتے ہوئے ہسپتال سے ملحقہ کچھ زمین ڈونیٹ کرنی چاہئیے کیونکہ موجودہ جگہ اب ناکافی ہے. یقینا مخدوم نور مصطفی ہاشمیؒ کی روح بھی خوش ہوگی.صدقہ جاریہ کا یہ نیک کام مخدوم معاذ محمد اور مخدوم روشن چراغ کے بیٹے بھی کر سکتے ہیں. اگر رضا کارانہ طور پر کوئی ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان کو چاہئیے کہ وہ اتنے اہم ترین عوامی و فلاحی منصوبے کے لیے مستقبل کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے قانون کے تحت کچھ زمین ضرور ایکوائر کریں.ایسے فلاحی کاموں کے لیے اختیارات کا استعمال ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ایک بڑی نیکی بھی ہے. جزاک اللہ

یہ بھی پڑھیے:

مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

About The Author