رانامحبوب اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید سے کولہی بننا مہاجرت سے مقامیت کا سفر ہے۔ اس میں بھلے شاہ کے ارائیں ہونے کی معرفت مستور ہے ۔ یہ شناخت کو "اُدھر”سے "اِدھر”کرنے کا عرفان ہے۔ یہ مہاجرت کے ہجر کا مقامیت کی محبت سے ملاپ ہے ۔ یہ محلات کا کٹڑیوں سے ہم سائیگی کا قرینہ ہے۔ یہ درودیوار کا درویوار پر سایہ ہے :
وہ آرہا مرے ہم سائے میں تو سائے سے
ہوئے فدا درو دیوار پر درو دیوار
یہ احمد خاں کھرل کا رائے سے مصلی ہونے کا عمل ہے ۔ گوگیرہ میں مارے گئے مصلیوں اور میراثیوں کی شہادت کا اعتراف ہے!سورما رائے ڈیاچ کی فن پرستی اورراگی بیجل کے ملاپ کا خواب ہے۔اپنی اصل میں یہ مقامیت کا منتر ہے۔ یہ لطیف کی ست سورمیوں کا وہ نسائی عرفان ہے جس کے تار حکمتِ صوفیہ سے ملتے ہیں ۔ سید سے کولہی ہونا صدیوں کی حملہ آوری کو سر کے بل زمین میں گاڑنا ہے۔سندھ وادی کے عتیق اور امیر ماضی کی بازیافت ہے۔ فرائیڈ کی زبان میں یہ ماضی کو بدلنے کا عمل ہے۔ درواڑوں، کولہیوں، موروں، بھیلوں،موہانوں اور میگھواڑوں کے ہزاریوں کا سیدوں کی صدیوں سے ملاپ ہے۔ سندھ کے مخلوط کلچر کا آدر ہے۔ یہ موہانے کو خضر اور میر بحر کو پیر بنانے کی منطق ہے ۔ جام تماچی کے نوری ماچھن بننے کی رمز ہے ۔سید سے کولہی ہونا، سندھ وادی کی شہریت حاصل کرنا ہے ۔موھن جو دڑو کی مملکت کو کا تسلیم کرنے کا اعلان ہے ۔یہ قرونِ وسطی کی عربی و عجمی، موروثی اور جاگیردارانہ بادشاہتوں کی بجائے انڈس ریپبلک کے ڈومیسائل کا پروانہ ہے۔ تاریخی پیراڈائم شفٹ جو مقامی اور مہاجر کی جدلیات کی نئی تشریح کرتا ہے۔ یہ ماضی کی جدید تفسیر سے ” اُس ” کا "اِس ” سے تبادلہ ہے۔ پاکستان کے ریاستی وچھوڑے کے خاتمے کا منتر ہے۔ ویدوں کے راکشَش، کالے، بڈے اور داسو کو دھرتی کا اولیں آدم تسلیم کرنے کا بیانیہ ہے۔ ویدوں سے شروع ہونے والے مہا یدھ کے خاتمے کا معاہدہ ہے۔ یہ خطے میں امن کا اسمِ اعظم ہے۔ یہ کرشن اور منور حسن کے قتال کے فلسفے کا انکار ہے۔ بھلے شاہ کے مرشد شاہ عنایت قادری کی طرح یہ "ادھر”کو "ادھر”لگانے کا عرفان ہے!
سندھ میں کھاروڑو کے سید سردار شاہ کے اس بیان کی بازگشت بار بار سنائی دی کہ کاش وہ سید کی بجائے کولہی کے گھر پیدا ہوتے !جیسے کھاروڑو میں تھر کی وسعت اور بیراجی زمینوں کی زرخیزی بغل گیر ہیں ویسے ہی قدیم اور جدید کا حسن سید میں جمع ہے۔ ان کے نزدیک کولہی ہونا امر روپلو کولہی کے قبیلے کی مزاحمت کاری، کھیتی باڑی اور دراوڑی اصل سے رشتہ استوار کرنا ہے۔ یہ رفعت عباس کے ناول ” نمک کے جیون گھر”اور شاعری کا ست ہے ۔ شاہ لطیف کے رسالو کی پوسٹ ماڈرن پڑھت ہے۔صدیوں کی حملہ آوری سے لا تعلقی کا اعلان ہے!!
بھلے شاہ ، سید سے ارائیں ہوئے ، سردار شاہ، سید سے کولہی بنتے ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں اپنے آپ کو ارائیں کہنے والے بھلے شاہ بخاری سید تھے ۔ اچ کے بخاری کربلا کی مزاحمت سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اچ سے آئے قصور کے بھلے شاہ نے ایک ارائیں میں وہ گل رنگی دیکھی جو زمین سے پھوٹتی ہے ۔ بھلے نے مرشد کا پہلا درشن زمین میں پنیری لگاتے ہوئے ہوا کیا۔ بھلے نے ارائیں مرشد سے کہا کہ میں بھولا ہوا ہوں اور اپنے رب کو پانا چاہتا ہوں ۔ شاہ عنایت نے بھلے کو گلے لگایا اور کہا : ” اے بھلہ ، رب کا کیا پانا،اُدھر سے اُکھاڑ کر اِدھر لگانا ۔”اُدھر سے اِدھر لگانے کا عمل سید سے کولہی بننے کا عمل ہے ۔ یہ زمین سے وابستگی اور مکان کو گھر کرنے کی معرفت ہے۔
712 سے 1757 تک صدیوں کا فاصلہ ہے۔1757میں بھلہ شاہ فوت ہوئے۔1757میں بھلے شاہ کا شعور بنگال کے سید میر جعفر تک نہ پہنچا اور پھر ایک نئی حملہ آوری کی ابتداء ہوئی ۔1757کے 265سال بعد سندھ کے ایک سید نے اپنے آپ کو کولہی کہہ کر تاریخ کی درستگی کی ابتدا کی ہے ۔ 1757اور 2022کے درمیان سامراجی صدیوں کا المیہ ہے جو حملہ آور کی مہاجرت کا استعارہ ہے ۔ اس عرصے میں عربی اور عجمی، کالے اور گورے کے مساواتی اسلام کا ایک بار پھر انکار ہوا ۔ سناتن دھرم کی ایکتا، آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی بن گئی ۔ حملہ آور حاکم کا عدم تحفظ عدم وطنی کا عجب جہنم ہے کہ حاکم مرکز میں اور زمیں زاد حاشیے پر جلتے ہیں ۔ پانچ ہزار سال قدیم انڈس ویلی کی تہذیب کے معمار، محکوم ہیں ۔ وہ مقدس وید کے داسو، بڈے اور راکشَش بنے ہیں۔ وید میں گائے کے لئے بھجن اور گائے کے مالک دراوڑ کسان کے لئے گالیاں ہیں ۔ ویدک اور کولونیل بیانیے کی رد تشکیل کے عہد میں سردار شاہ کا کولہی ہونا بھلے شاہ کے ارائیں ہونے کی معرفت سے بیک وقت مماثل اور مختلف ہے۔ اس بیانیے میں بھلے کی مقامیت کے ساتھ درواڑی ماضی کی معرفت پوشیدہ ہے۔ مہابیانیے کی موت کے بعد مقامی بیانیہ ہی پوسٹ ماڈرن سچ ہے اور یہ تاریخ کی خطاوں کے ازالے کی شروعات ہے ۔
رفعت عباس اور ڈاکٹر نیر عباس ناصر سے بات ہوئی کہ ایک مہاجر کو زمیں زاد بننے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ میاں نواز شریف لاہور میں اپنے گھر کو جاتی عمرہ کیوں لکھتے ہیں ؟کیا اس تاریخی عمل کا وقت طے کرنا ممکن ہے؟ یہ تاریخی، تہذیبی، ثقافتی اور نفسیاتی طور پر پیچیدہ سوال ہے۔ہیر کے رانجھا بننے میں اگر ایک زندگی اور ایک محبت کافی ہے تو مہاجر سے مقامی ہونے میں کتنی زندگیاں اور کتنی محبتیں درکار ہوتی ہیں ؟ سردار شاہ کو سید سے کولہی بننے میں ایک ہزار سال لگے ہیں! وہ سندھ وادی میں آریائی حملہ آوری سے لے کر یورپی حملہ آوری تک کے ماضی کو بدلنے کی بات کر رہے ہیں۔ ماضی کو بدلنے کا واحد طریقہ ماضی کی نئی تفہیم ہے۔ یہ وقت کا نہیں ادراک کا معاملہ ہے ۔کتنے ایسے ہیں جو سردار شاہ کے اس بیان پر چیں بہ جبیں ہیں! سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آریاؤں سے لے کر یورپیوں تک وحشیوں کو تہذیب سکھانے کا بیانیہ جھوٹ ہے۔ موھن داڑو اور ھڑپہ کے وارث کولہی اور تمام زمیں زاد مہذب لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کو جمہوریت اور شہروں کو گرڈ پلاننگ کا تصور دیا اور آدمی کو سمبارا اور بوڑیندو سے متعارف کرایا ہے۔کولہی سندھ وادی کے دراوڑ ہیں۔ ماضی کی بازیافت کے عمل میں سندھ کا ایک سید اپنی شناخت کولہیوں کے ساتھ جوڑتا اور باگڑی بچوں کے پاؤں میں جرابیں اور جوتے کیوں ڈالواتا ہے! یہ ممتائی compassion دارا و سکندر، ایرانی، عرب، تورانی اور یورپی حملہ آوروں کے ماضی سے لا تعلقی کی عطا ہے۔ یہ رویہ مٹی سے محبت کی دین ہے۔ یہ کثیرالثقافت، کثیرالقومی ، کثیرالجہت اور کثیر المذاہب قدیم انڈس ریپبلک کی جدید پاکستان میں تقلیب کی آرزو کا قلندری اظہار ہے۔ آج کا سچ یہ ہے کہ مقامیت سے جڑت ہماری ریاستی بیگانگی یا alienationکا واحد علاج ہے !!
سید سے کولہی، رانا سے کٹانا اور ملک سے مصلی ہونے کا منتر غصیلی ، سطحی اور ہیجانی ریاست کو شانت کر سکتا ہے۔ شوریدہ سر ڈیٹاازم کی نئی جدلیات موت کے جہنم کو زندگی کی جنت سے بدلنے کے راستے پر ہے! اکیسویں صدی کے عارفوں کو مقامیت اور مہاجرت کے ملاپ کے لئے موئن جو دڑو کی بجائے موھن جو دڑو کی شہریت درکار ہے !بھلے کے قبیلے کا سردار شاہ کربلا کے کرب، شاعری کے درک اور سندھ وادی کی مٹی میں گندھا ہوا آدمی ہے اور اُس نے ایک لفظ بدل کر تاریخ بدل دی ہے :
جیہڑا سانوں سید سدے، دوزخ ملن سزائیاں
جو کوئی سانوں ”کولہی” آکھے، بہشتی پینگھاں پائیاں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر