نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

معاشی دہشت گردی، ذمہ دار کون؟||عاصمہ شیرازی

پاکستان کم ترین زرمبادلہ ذخائر کے ڈھیر پر کھڑا سوچ رہا ہے کہ دیوالیہ پن سے اور کتنے ماہ دور؟ بلوم برگ لاکھ کہے کہ چھ ماہ تک پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے امکانات نہیں مگر کیا کریں کہ عوام سوشل میڈیا پر بکنے والے جھوٹ کو سچ نہ مانیں یا اپنی پھٹی جیبوں سے ریت کی طرح پھسلتے بے قدرے روپے کو بے چارگی سے نا دیکھیں۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ احساس بھی عجب چیز ہے جو گوشت کے لوتھڑے کو دل اور بے حس کو صاحبِ دل بناتا ہے۔ احساس الفاظ میں ڈھلے تو تحریر اور خیال میں ڈھلے تو تعبیر بن جاتا ہے۔ کہا یہی جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں تو یہاں زیادہ کارگُزاری گویا دماغ کی ہے۔ سو آج کی تحریر صاحب دل سیاست دانوں کے لیے ہے۔

میر پور خاص میں سستے آٹے کی دوڑ میں جان کی بازی ہارنے والے ہور سنگ کولہی کو کیا خبر ہے کہ پاکستان کس معاشی بحران سے گُزر رہا ہے اُس کو تو صرف اتنا پتہ ہے کہ پاکستان زرعی ملک ہے جہاں گندم وافر اُگتی ہے اور سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے بقول گندم کی کوئی قلت نہیں۔ کولہی کو کیا خبر کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں شدید کمی واقع ہو چکی ہے اُس کو تو دو وقت کی روٹی کی تلاش ہے جو اس قدر دُشوار ہے کہ اس کے لیے جان کی بازی لگانا پڑتی ہے۔

دنیا معاشی بحران کا شکار ہے مگر ہم ہر طرح کے بحران سے دوچار ہیں۔ پاکستان کے ایک کونے گلگت بلتستان سے لے کر دوسرے کونے گوادر سمیت باجوڑ اور قبائلی علاقوں میں احتجاج ہی احتجاج ہے۔ سخت سرد موسم میں عوام سڑکوں پر بیٹھے ہیں۔

گلگت بلتستان کے عوام اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج تو خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کو ناکام بنانے کے لیے عوام عملاً سڑکوں پر ہیں۔ ریاست دنیا بھر کی سرمایہ کاروں کی آماجگاہ گوادر کے چند لاکھ لوگوں کے ضروری مطالبے پورے کرنے میں نا کام دکھائی دیتی ہے۔

یہ طوائف الملوکیت نہیں تو کیا ہے؟ قومی میڈیا مگر پنجاب اسمبلی میں جاری سرکس پر نظریں جمائے بیٹھا ہے اور ریاست کے آنکھ اور کان سیاسی جوڑ توڑ کو موضوع بنائے ہوئے اہم معاملات سے نظریں چُرا رہے ہیں۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ دہشت گرد تنظیمیں کھلے عام سیاسی راہنماؤں کو چیلنج کر رہی ہیں جبکہ انتہا پسندی سیاسی رنگ اختیار کرتے ہوئے بظاہر صاحب عقل لوگوں میں حلول ہو رہی ہے۔

معاشی دہشت گردی کس نے کی اور سیاسی انتہا پسندی کا مؤجب کون بنا؟ اشرافیہ ایسے سوالات کے جواب جاننے میں چنداں دلچسپی نہیں رکھتی جبکہ غربت کی چکی میں پسنے والے عوام روزی روٹی کے گھن چکر سے نکلیں تو سوچیں۔ پیٹ کی بھوک گویا سوچ اور فکر کو نگل رہی ہے۔

پاکستان کم ترین زرمبادلہ ذخائر کے ڈھیر پر کھڑا سوچ رہا ہے کہ دیوالیہ پن سے اور کتنے ماہ دور؟ بلوم برگ لاکھ کہے کہ چھ ماہ تک پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے امکانات نہیں مگر کیا کریں کہ عوام سوشل میڈیا پر بکنے والے جھوٹ کو سچ نہ مانیں یا اپنی پھٹی جیبوں سے ریت کی طرح پھسلتے بے قدرے روپے کو بے چارگی سے نا دیکھیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ دعوے بے دم اور وعدے بے وزن ہو گئے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کو طرز حکمرانی بہتر کرنے کے لیے کون سے پیمانے چاہییں؟ مہنگائی میں کمی نہیں تو ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں کو کنڑول کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ آئی ایم ایف سے ڈیل کی کامیابی ناکامی اپنی جگہ ڈالر کی سمگلنگ روکنے میں دقّت کیا ہے؟ معاشی اعشاریوں کی تنزلی اپنی جگہ مگر معاشی دہشت گردی کے ذمہ داروں کا تعین کرنے سے کون روک رہا ہے؟

اب جب جنرل باجوہ ملک کی معیشت کے جنازے پر ذمہ دار عمران خان کو ٹھہرا رہے ہیں اور عمران خان ہر بُرائی کی ذمہ داری جنرل باجوہ کے کاندھوں ڈال رہے ہیں تو کون سی عدالت یہ طے کرے گی کہ پاکستان کی معیشت اور امن کے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا ہے؟ معیشت کے جنازے پر بین کرنے والے ایک صفحے کی حکومت کے تمام کردار کس حد تک ذمہ دار ہیں؟

کون سے ذاتی مفادات کی خاطر قومی مفادات کو بھینٹ چڑھایا گیا ہے؟ صبح شام پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ کر اطمینان حاصل کرنے والوں کا ایجنڈا کیا ہے؟ حالات پریشان کُن ضرور ہیں مگر کیا ایسا پہلی بار ہوا ہے؟

صاحب دل فوجی و سیاسی راہنماؤں کے لیے یہ چند سطریں کہ یہ ملک دوستوں کی امداد اور عالمی اداروں کی نظرِ عنایت پر کب تک چلے گا؟ اس وقت ضرورت ایک معاشی منصوبے کی ہے جس کے لیے ریاست اور عوام کو اندرونی طور پر کمپرومائزز کرنا ہوں گے تاکہ بین الاقوامی دباؤ سے بچا جا سکے ورنہ کتنے کولہی دس کلو تھیلے کے لیے جان کی بازی ہاریں گے اور کتنے اپنے ہاتھ حکمرانوں کے گریبانوں میں ڈالیں گے۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author