مطیع اللہ جان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیا سال ان کے لیے مبارک ہو گا جو اس ملک کو اس حال تک پہنچا کر با عزت ریٹائر یا بری ہو چکے ہیں، پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے شجر سے پیوستہ رہ کر امید بہار رکھنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، غریب آدمی کے لئے پیٹرول کی قیمتوں میں پندرہ دنوں تک مزید اضافہ نہ ہونا بھی نئے سال کا تحفہ ہی سمجھیں، مگر گزرے سال کے ان تحفوں کا قوم کیا کرے جن کی وجہ سے عوام کی کمر ٹوٹ چکی ہے، باجوائی دور کے گزشتہ چھ قمری سال نے قوم کو مردہ جاوید کر دیا ہے، اس عرصے میں کئی جرنیل چند حواری ججوں سمیت قوم کا بیڑہ غرق کر کے اپنی پوری پینشن سمیت اور ٹینشن بغیر ریٹائر ہو کر خود ساختہ گمنامی کی زندگی گذار رہے ہیں، اتنے اعترافات اور انکشافات کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے بوڑھے اور لاغر شیر کی خوراک کا بندوبست کرنے واسطے ق لیگ کی سیاسی لومڑی ابھی بھی اس انصافی ہرنی کو گھیر کر کچھار تک لانے کی ترکیبیں کر رہی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے بڈھے شیر سے اپنا ایک کان کتروا چکی ہے، “جنگل کا بادشاہ تو آپ کو اپنا جان نشین بنانے کے لئے آپ کے کان میں کچھ راز کی باتیں بتانا چا رہا تھا کہ آپ بھاگ آئیں” سیاسی لومڑی کی رازدارانہ دلیل ہرنی کے دل میں اقتدار کی جلتی شمع پر تیل کا کام کر رہی ہے، لومڑی کی نظر ہرنی کے دماغ پر ہے، ”ہرنی کا دماغ“ کے عنوان سے کتابی کہانی کے مطابق شیر کو اپنی کمزوری کا علاج ہرنی کا دماغ کھا کر کرنا تھا مگر اقتدار کی لالچ جب کن کتری ہرنی کو دوبارہ شیر کی کچھار میں لے آئی تو گمنام بڈھے شیر کو مردہ ہرنی کا دماغ پھر بھی نہ ملا، لومڑی جو دماغ خود ہی چٹ کر چکی تھی بولی ”بادشاہ سلامت اگر اس ہرنی کا دماغ ہوتا تو ایک بار کان کتروانے کے بعد کیا وہ دوبارہ آپ کے پاس آتی“۔
سو جوتے اور پھر سو پیاز کھانے کے باوجود اب ہماری قومی سیاست و قیادت ایک بار پھر سو جوتے کھانے پر مائل بہ کرم نظر آتی ہے اور اب معاملہ یہ ہے کہ ہماری سیاست کی ہرنی کئی بار کان کٹوانے کے باوجود ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے بڈھے شیر کی سرگوشیِ عافیت کے لئے کوشاں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سیاست کے شاہی محلے کے چند دھندے باز اپنے مشترکہ گاہک شرفا کے نام با آواز بلند ایک دوسرے سے منسوب کیے جا رہے ہوں۔ جنرل ریٹائرد قمر جاوید باجوہ ہوں یا لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ان دونوں نے گزشتہ چھ سال کے دوران اس نظام اور ملک کے ساتھ جو کچھ کیا اس کے بعد تو پورا شہر بلکہ پورا ملک ہی سیاست کے شاہی محلہ کا منظور شدہ نقشہ پیش کر رہا ہے، شاہی محلے کے معززین اپنے دھندے میں انصاف کے ترازو کے پلڑے پھر بھی برابر رکھتے ہیں مگر ان چھ قمری سال کے دوران جو کردار ہمارے ترازودانوں نے ادا کیا وہ ا±ن شاہی آداب کے بھی منافی تھا جو تماشبینوں کے لئے مخصوص ہوتے ہیں، کمرہ عدالت کی مہمانوں کے لئے مختص گیلریوں میں اپنے اہلِ خانہ کو بٹھا کر جن معززین نے پانامہ کیس کے فیصلے سنائے ان کو گھروں میں سالن کی دوسری پلیٹ تو مل ہی جاتی ہوگی، آج چھ سال بعد ثاقب نثار جیسے چیف جسٹس صاحبان کے متعلق جس جس قسم کے انکشافات ہو رہے ہیں اس پر جواب یہ آ رہا ہے کہ ان کے ساتھ دوسرے دو ججز جسٹس فیصل عرب اور جسٹس عمر عطا بندیال بھی تھے “جن کے کردار پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔” یہ معاملہ تھا جہانگیر ترین کی نا اہلی کا۔ اس سے پہلے ثاقب نثار کے متعلق اور بہت کچھ آ چکا ہے اور اگر یہ کہا جائے کے بطور چیف جسٹس جو سیاسی انجینئرنگ انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید سے مل کر سرِعام کی اس کے بعد اب کسی انکشاف کی ضرورت نہیں تویہ غلط نہ ہو گا، اسی طرح ایک اور ایسے اور اتنے ہی معزز ثاقب نثار کے گدی نشین آصف سعید کھوسہ تھے جنہوں نے اپنے سسر اور بھٹو کے عدالتی قتل کے شریک مجرم نسیم حسن شاہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نہ صرف پانامہ کیس میں بغیر ٹرائل ایک وزیر اعظم کو نا اہل کیا بلکہ بغیر کسی قانون کے جنرل قمر جاوید باجوہ بغیر کسی قانون کے اس قوم پر بذریعہ توسیع
مدت ملازمت مسلط کیا۔ جناب موصوف نے جنرل باوجوہ کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی پہلے توسیع دی اور پھر پارلیمنٹ کو اس بارے قانون بنانے کے لئے کہا۔ یہ اور بات ہے کہ سیاسی شاہی محلے کے تمام جسم فروشوں نے جنرل صاحب کے استقبال کے لئے نگاہ و لباس فرشِ راہ بچھا دئیے جو ان کے ریٹائر ہونے کے بعد بھی یونہی بچھے ہیں۔ اس سب کے بعد بھی بہت کچھ ہوا، عدم اعتماد کا لالی پاپ دے کر ایک بار پھر جس طریقے سے ن لیگ کو حقیقی جمہوری اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے سے اقتدار دیا گیا ہے اس کے بعد عمران خان کا بیانیہ ہی میدان میں بچا ہے اور وہ یہ ہے کہ “اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کو آئینی اور قانونی حیثیت دے دی جائے۔” ن لیگ کے فلاسفر ننگے ہو چکے ہیں اور اس سے بڑھ کر ستم ظریفی کیا ہو گی کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے پروردہ آج الیکشن کرانے کے نعرے مار رہے ہیں اور خود کو جمہوریت کا چیمپین کہلانے اور ووٹ کو عزت دینے والی جماعت الیکشن سے بھاگتی اور اسٹیبلشمنٹ کی لے پالک لگ رہی ہے۔ مریم نواز نے فرمایا تھا کہ ان کی جماعت فتنہ خان کا گند اپنے منہ پر نہیں ملے گی، عدم اعتماد کی طرف نہیں جائے گی اور ایسا ہونے کے بعد کہا تھا کہ جلد الیکشن کرائیں گے، مگر پھر اسٹیبلشمنٹ کے عدالتی پھندوں سے نکلتے نکلتے یہ سب کچھ ہو کر ہی رہا اور ن لیگ قید و بند کے آسمان سے گر کر سیاسی غیر مقبولیت کے کھجور کے درخت پر اٹک گئی ہے۔
وقت بہت تیزی سے گذر رہا ہے، عمران خان بیانیے کی دوڑ میں اپنی تمام تر سیاسی غلاضتوں اور آئین شکن حرکتوں سمیت آگے نکل چکے ہیں اور ن لیگ سٹارٹ لائن پر دوڑ شروع ہونے اور نواز شریف کا انتظار کر رہی ہے۔ سیاسی اور اب معاشی دیوالیہ پن کا یہ حال ہے کہ ایک طرف عمران خان قابو نہیں آ رہا تو دوسری طرف آئی ایم ایف، پوری حکومت، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا اس سیاسی جن کو قابو کرنے میں جتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی بوتل سے نکالا گیا تھا۔ اس تمام عمل میں نقصان نہ تو جنرل باجوہ کا ہوا ہے نہ جنرل فیض کا جن کے اثاثوں کی چھان بین تو دور کی بات ان کی معلومات لیک کرنے کے الزام میں کئی سرکاری ملازم نوکری سے فارغ ہو چکے ہیں، یہ سرکاری ملازم اگر کوئی جرنیل ہوتے تو بھی ان کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکتا، جنرل فیض بطور کور کمانڈر پشاور اور پھر کور کمانڈر بہاولپور اپنے سابق سٹاف افسر اور وزیر اعظم شہباز شریف کے اے ڈی سی کے ذریعے جو جاسوسی کرتے رہے اس پر کتنے افسران برطرف ہوئے ہیں، جنرل قمر جاوید باجوہ کی کمانڈ میں جنرل فیض نے وزیر اعظم ہاؤس کی جو جاسوسی کی کیا وہ کسی مٹھو میاں کے اثاثوں کے لیک ہونے سے کم جرم تھا؟ آخر کیوں جنرل باجوہ کو اپنی ریٹائرمنٹ کے دن یہ اجازت دی گئی کہ وہ جنرل فیض کا استعفی منظور کر لیں؟ کیا وجہ ہے کہ موجودہ قیادت بھی کم از کم جنرل فیض کو واپس وردی پہنا کر ان کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کر سکتی؟ ایک اے ڈی سی بیچارہ تو گرفتار ہو جاتا ہے مگر اس کے بعد کیا ہوا یہ قوم کو کون بتائے گا، شہباز شریف اگر 22 کروڑ عوام کے نمائندہ وزارتِ عظمی کے عہدے کے وقار اور اس کی تکریم کا تحفظ نہیں کر سکتے تو وہ ووٹ کو کیا عزت دلائیں گے؟ اور پھر چودھری پرویز الٰہی اور شہباز شریف میں فرق ہی کیا ہے؟ اس تمام صورت حال میں نواز شریف کی خاموشی اور جاری جلا وطنی یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ کسی بڑے سانحے کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد وہ لندن میں سکون سے بیٹھ کر یہ کہہ سکیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار پھر ملک توڑ دیا۔
پاکستان اپنی عمر کے بہاروں اور خزاں کے 57 موسم دیکھ چکا ہے، کئی نئے سال آئے اور گئے، مگر سالے حکمران یہ نہیں بدلتے اور خدانخواستہ اب کی بار بھی اگر کچھ ہوا تو ان سول اور فوجی حکمرانوں کی نسلیں اسی طرح غیر ملکی پاسپورٹوں کو لہراتے ہماری ارد گرد گھومتی رہیںگی۔ ہمارے قسمت میں کلینڈر کا نیا سال اور پرانے سالے ہی رہ گئے ہیں۔
بشکریہ نئی بات
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر