نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچے پکے راگ اور ٹھمریاں۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رواں برس اپریل سے ملک کے سیاسی ماحول میں دن بدن بڑھتی تلخی کے باعث عام آدمی کی یہ پریشانی اس طور بالکل بجا ہے کہ جن مسائل و مشکلات کا اسے سامنا ہے اس پر کوئی بھی توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کررہا اس کے برعکس متحارب سیاسی قائدین ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر حملوں، جملے کسنے اور الزامات اچھالنے میں مصروف ہیں۔
ایک طرف سابق وزیراعظم عمران خان حسب سابق اپنے مخالفین کو بدکردار، چور، بے شرم ، این آر او ٹو زدہ قرار دینے میں مصروف ہیں تو جواباً حکومتی صفوں سے بھی ان پر پھول نہیں برسائے جارہے بلکہ ذہنی مریض، اقتدار کا بھوکا اور اس طرح کی جوابی غزلیں سنائی جارہی ہیں۔
غور طلب امر یہ ہے کہ کیا قافیہ ردیف سے محروم اس غزل گوئی سے سیاستدان اپنے فرائض کی بجاآوری سے عہدہ برآ ہوجائیں گے؟ اس امر کی پردہ پوشی ممکن ہی نہیں رہی کہ سماجی وحدت لیرکتیر ہوچکی ہے۔ سیاستدانوں کی تند بیانی اور الزامات کی بوچھاڑ کو ان کے ہمدرد یقین کامل سے آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔
بعض اہل دانش اس صورتحال کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ سیاسی قائدین نے اپنے لچھن تبدیل نہ کئے تو انارکی کا دروازہ کھل سکتا ہے۔ ان کے خیال میں عدم برداشت کو بڑھاوا دینے والوں کے پاس اصل میں اصلاح احوال کا کوئی ایجنڈا ہے ہی نہیں۔
اپنی اپنی ناکامیوں اور کمزوریوں کی الزام تراشی اور سوقیانہ جملے بازی سے پردہ پوشی کی جارہی ہے۔ بظاہر اہل دانش کے ایک طبقے کی یہ رائے صائب لگتی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ سیاسی عمل میں سنجیدگی اب رہی نہیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تھڑدلے پن کو سیاسی رویوں کے طور پر متعارف کروادیا گیا اور اسے پروان چڑھانے میں سبھی نے حصہ بقدر جُثہ ڈالا اور ڈال رہے ہیں جبکہ ملک اور عوام کے مسائل اس سے سوا ہیں۔ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری نصف صدی کی سب سے بلند شرح کو چھورہے ہیں۔
اسی طرح خط غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کمال مہارت سے اپنے دور اقتدار کی ناکامیوں اور بعض بین الاقوامی معاہدوں کی عدم پاسداری سے پیدا ہوئے مسائل پر ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں ان کی ہر تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ بس واحد ایماندار اور ملک کا خیرخواہ میں ہوں میرے سارے مخالف چور ہیں۔
کیا یہ زبان دانی ایک سیاسی رہنما کو زیب دیتی ہے؟ انہیں تو اپنے دور کی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے وجوہات عوام کے سامنے رکھنی چاہئیں۔ ستم یہ ہے کہ اس حوالے سے بھی وہ دور اقتدار کے ماہ و سال کے برعکس باتیں کرتے دیکھائی دیتے ہیں بطور وزیراعظم وہ ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا کرتے تھے کہ خارجہ، داخلہ اور معاشی پالیسیاں ان کی ہیں فوج ان کی پالیسیوں کو کامیاب بنانے کے لئے حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد انہوں نے اسی عسکری قیادت کو جن القابات سے نوازا وہ رہے اپنی جگہ اب گزشتہ چند دنوں سے وہ اپنے سابق مربی جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہر بات پر موردالزام ٹھہرارہے ہیں۔
ان کے ناقدین ان بیانات پر جو تبصرے کرتے ہیں انہیں زیربحث نہ بھی لایا جائے تو بھی یہ حقیقت ے کہ چند ماہ قبل جس آرمی چیف کو وہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جمہوریت پسند قرار دیتے نہیں تھکتے تھے اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے کہہ رہے ہیں کہ جنرل باجوہ نے جو کیا وہ ملک کے دشمن بھی نہیں کرسکتے۔
بہرطور اس امر پر دو آراء ہرگز نہیں کہ پورے چار سال ملک کا طاقتور ترین وزیراعظم رہنے والے مقبول سیاسی رہنما کا ہر دوسرا بیان بلکہ دوسرا جملہ پہلے بیان اور جملے سے میل نہیں کھاتا۔ ایک دن ایک بات اور دوسرے دن اس کے یکسر الٹ بات کہہ کر وہ اپنے حامیوں کو کیسے مطمئن کرلیتے ہیں یہ حیران کن ہے۔
جہاں تک مخالفین کے لئے ان کے انداز تکلم اور الزامات کا تعلق ہے تو بقول ان کے ان الزامات سے انہیں ماضی میں ایجنسیوں نے آگاہ کیا تھا۔ ان سے بصد احترام یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ جن ایجنسیوں نے انہیں ان کے سیاسی مخالفین کی کرپشن بارے آگاہ کیا اور وہ آج تک اسے درست سمجھتے ہیں انہی ایجنسیوں نے جب انہیں بطور وزیراعظم ان کے چند رفقا کی کرپشن سے آگاہ کیا تو وہ غلط کیسے تھا ؟
ثانیاً یہ کہ اب خود انہیں بھی ویسے ہی الزامات کا سامنا ہے بالفرض اگر وہ ان الزامات پر یہ کہتے ہیں کہ یہ سیاسی انتقام کا حصہ ہیں تو جو الزامات وہ دوسروں پر لگاتے آرہے ہیں وہ بھی تو ایجنسیوں کی بیان کردہ کہانیوں کے اسباق ہیں۔
ہماری دانست میں کرپشن اس ملک کا مسئلہ ضرور ہے مگر واحد اور سب سے بڑا مسئلہ نہیں نیز یہ کہ کرپشن کے الزامات صرف سیاستدانوں پر ہی نہیں لگتے رہے بلکہ مختلف ریاستی محکموں کے بڑوں چھوٹوں پر اس طرح کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اصل خرابی یہ ہے کہ ان الزامات کی کبھی آزادانہ تحقیقات نہیں ہوئیں بلکہ ہر دور میں انہیں سیاست کے بڑھاوے کے لئے استعمال کیا گیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گزشتہ تقریباً ساڑھے چار سال سے ہر طرف کرپشن کرپشن کے راگ سنائی دے رہے ہیں پہلے عمران خان اپنے دور میں مخالفیبن پر الزامات لگاتے تھے اب وفاق میں حکمران اتحاد ان کی کرپشن کہانیاں سنارہا ہے۔
ماضی کی طرح اب بھی عوام کی حالت زار کسی کے پیش نظر نہیں۔ اس پر ستم یہ ے کہ اپنے دور میں پی ٹی آئی کے رہنما عوام کو مہنگائی کے معاملے پر بہلاتے ہوئے بتایا کرتے تھے کہ پٹرولیم مصنوعات سمیت دوسری اشیاء کی فلاں فلاں ملک میں قیمت پاکستان سے زیادہ ہے۔ خود عمران خان کا دعویٰ تھا کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔
اب پچھلے چند دنوں سے ان کے حامی امرتسر اور لاہور میں ٹماٹر پیاز کی قیمتوں کا موازنہ پیش کرکے بتارہے ہیں کہ حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ یقیناً حکومت کی کچھ کمزوریاں ہیں اور یہ بھی کہ مہنگائی کا خاتمہ ترجیحات کا حصہ بھی نہیں لگتا مگر اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ سبزیوں اور بعض اجناس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سیلاب سے ملک کے ایک تہائی حصہ کا زیرآب آجانا ہے۔
افسوس کہ دیگر لوگوں کی طرح خود پی ٹی آئی کے ہمدردوں کا حافظہ بھی کمزور ہے ورنہ یہ کل کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کے بڑے رہنما عالمی اداروں اور اقوام متحدہ سے اپیل کررہے تھے کہ اس حکومت کی مدد نہ کی جائے۔ بہرحال یہ تلخ حقیقت ہے کہ ملک اور عوام کے کسی بھی مسئلہ کی سنگینی کا کسی کو احساس نہیں۔
داخلی انتشار اور عدم اتفاق سے پیدا شدہ صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک ماہ کے دوران پڑوسی ملک افغانستان کی فورسز نے گزشتہ روز تیسری بار چمن میں شہری آبادی پر گولہ باری کی۔ اطلاعات کے مطابق لعل محمد سیکٹر پر دہشت گردوں کی اکھاڑی گئی باڑ کی مرمت کے دوران افغان فورسز نے بلاوجہ مداخلت کی جس پر دوطرفہ تصادم ہوا اور دوسری طرف چمن کی شہری آبادی کو افغان فورسز نے نشانہ بنایا۔ ملک کے اندر سیاسی استحکام ہوتا تو افغان فورسز کو کبھی یہ جرات نہ ہوتی۔ اندریں حالات ہم سیاسی قیادت سے دست بدستہ گزارش کریں گے کہ وہ شخصی انا کی تسکین اور گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک اور عوام کے لئے غوروفکر کریں۔
مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیں اور داخلی انتشار کو کمزوری سمجھنے والے پڑوسیوں کو منہ توڑ جواب دینے کی حکمت عملی اپنانے پر متعلقہ حکام کو متوجہ کریں۔ یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ سیاسی اختلافات سے پیدا ہوئی تلخی نے اب ایک طرح سے مذہبی شدت پسندی جیسا روپ اپنالیا ہے۔ یہ صورتحال ہر باشعور شہری کے لئے تشویشناک ہے۔ اس لئے سیاسی و سماجی وحدت کا سامان جس قدر جلدی کرلیا جائے مناسب رہے گا اور دوسرے مسائل پر بھی توجہ دی جاسکے گی۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author