نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے طلبا کی فریاد۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کالم لکھنے سے قبل موضوع تلاش کرتا ہوں نہ نوٹس لکھتا ہوں ، بس جو من میں آئے اور جتنا یادداشت ساتھ دے لکھ دیتا ہوں۔ میں بھلا کون سا حاجی نمازی اور حافظ ہوں کہ صفائی دیتا پھروں۔ خالص زمین زادہ ہوں۔

دنیا پسند ہے لیکن اپنے حصے سے زائد جینے کی آرزور بالکل نہیں۔ اپنے ہاتھوں سے وہ پیارے بھی قبروں میں اتارے جن کے لئے میری رائے یہی تھی کہ یہ پیارے زندگی اور محفل دوستاں کی رونق ہیں ان کے مطالعے اور مکالمے سے روشنی پھوٹتی ہے۔

یہاں لوگ زندوں پر واہ واہ کرتے ہیں اور مرنے والے کو چند ایک کے سوا سبھی بھول جاتے ہیں۔ خانقاہوں پر منتیں ماننے چڑھانے والے جینے والوں کو دو میٹھے بول نہیں دے پاتے۔

کبھی کبھی فرمائشی کالم ضرور لکھتا ہوں۔ فقیر راحموں کہے یا پھر کوئی دوست کسی المیہ سے آگاہ کرے۔

فقیر راحموں کی بات ٹالی نہیں جاسکتی اور دوست وہ کعبہ کی طرح محترم ہوتے ہیں۔

ہمارے لاڈلے اور دیرینہ دوست عبداللہ خان بلوچ نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی حالیہ صورتحال سے آگاہ کیا ہم نے صبح کے اخبارات عینک اور بغیر عینک کے دونوں طرح غور سے دیکھے ۔ ممکن ہے کہ ملتان کے اخبارات میں اسلامیہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی غیرذمہ داری اور پولیس گردی کی کوئی تفصیل یا خبر چھپی ہو، لیکن یہاں لاہور میں دور دور تک کسی کو علم نہیں کہ بہاولپور میں کیا ہوا،

کیوں پولیس یونیورسٹی کے معصوم طلباء و طالبات پر چڑھ دوڑی۔ گزشتہ روز کے احتجاج، تنازع، ہنگامے اور پولیس تشدد کی چند ویڈیوز اور تصاویر دوستوں اور طلباء و طالبات نے بھجوائی ہیں۔ انہیں دیکھ کر آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔

کیا ہم سرائیکی وسیب والے ریڈ انڈین ہیں؟ یہ سوال میرا نہیں عبید خواجہ کا ہے۔ میری رائے میں ہم ریڈ انڈین ہیں لیکن ہمارے استحصال میں ہمارے اپنے غیروں کے حصے دار ہیں۔ فقیر راحموں کہتا ہے،

"شاہ یہ اپنے دیسی وسیب زادے غیروں کے حصہ دار نہیں بلکہ جھولی چُک ہیں۔ ملازمتوں، ترقیوں اور داد کے بھوکے۔ بس کرسی اور اختیارات ملتے ہی ’’ولایتی‘‘ بننے کی کوشش کرتے ہیں” یعنی ’’کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا‘‘۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں انتظامیہ اور طلباء و طالبات کے درمیان تنازع کا پس منظر یہ ہے کہ یونیورسٹی نے ایک تو گنجائش سے زائد داخلے کرلئے شاید اس بہانے بڑا ریونیو حاصل کرنا مقصود تھا ۔ داخلہ حاصل کرنے والے شاگردوں (طلباء و طالبات) سے یونیورسٹی نے اپنی ٹرانسپورٹ کی فراہمی کے لئے طے شدہ معاوضہ دیگر واجبات کے ساتھ وصول کیا۔ یونیورسٹی کی بسیں غالباً یزمان تک جاتی ہیں۔ اسی طرح بہاولپور سے باہر دیگر مقامات پر بھی شاگردان کے لئے یہ بڑی سہولت ہے۔

بچوں اور بچیوں کے والدین کے اطمینان کا باعث بھی کہ بچے سڑکوں پر خوار ہونے کی بجائے یونیورسٹی کی فراہم کردہ ٹرانسپورٹ میں آبرومندانہ طور پر آتے جاتے ہیں۔

گزشتہ روز یا ایک دو دن قبل یونیورسٹی نے طلباء و طالبات کو ٹرانسپورٹ کی سہولت یہ کہہ کر دینے سے انکار کردیا کہ ڈیزل مہنگا ہے۔ ٹرانسپورٹ اخراجات یونیورسٹی پر بوجھ ہیں۔

ڈیزل واقعی مہنگا ہے لیکن کیا صرف ٹرانسپورٹ اخراجات یونیورسٹی پر بوجھ ہیں؟ دوسرے اللے تللے اور نوازشات کیا کسی درگاہ کے صندوق سے پورے ہوتے ہیں۔

اپنی فیسوں اور دیگر واجبات کے ساتھ ٹرانسپورٹ کرایہ فیس پیشگی ادا کرچکے بچوں کا کیا قصور ہے۔ آپ ’’انتظامیہ‘‘ نے رنجیت سنگھی حکم سناتے ہوئے اس پر غور کرنے کی زحمت کیوں نہیں کی؟

اچھا ویسے انتظامیہ یونیورسٹی کی ہو، ضلع، صوبے یا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی یہ عوام کے مفاد میں کبھی غور نہیں کرتی۔ ابھی تین دن پہلے لاہور میں پنجاب اسمبلی نے وزراء اور مشیروں کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافے کا بل منظور کیا ہے۔ ایک طرف جوڈیشل وزیراعلیٰ کہتے رہتے ہیں وفاق نے پیسے نہیں دیئے دوسری طرف وزراء اور مشیروں کی تنخواہوں، الائونسز میں اضافہ۔ پیسہ تھا خزانہ میں تو یہ سب کیا ورنہ وزیراعلیٰ کہہ سکتے تھے معزز ارکان، وزراء اور مشیر روٹی داتا گنج بخشؒ صاحب کے لنگر سے کھالیا کریں اور آنے جانے کا خود بندوبست کرلیں۔

معاف کیجئے گا یہ قصہ یونہی درمیان میں آن ٹپکا۔ ہم اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کی بات کررہے تھے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے ٹرانسپورٹ سہولت ختم کی۔ طلباء نے احتجاج کیا۔ احتجاج کرنے والوں کو محبت سے صورتحال سمجھانے کے ساتھ درمیانی راستہ نکالنے کی ضرورت تھی مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے سوچا ہوگا، ان غریب غربا سفید پوش طلباء سے محبت کیا کرنی سیدھا سبق سکھائو۔ گزشتہ روز کا پولیس تشدد لاٹھی چارج اور فائرنگ سیدھا سبق سیکھائو پروگرام کا حصہ تھا۔

پہلا سوال یہ ہے کہ یونیورسٹی جب گنجائش سے زائد داخلے کرکے مال کمارہی تھی تب کیا ڈیزل حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے صدقے میں مفت ملتا تھا؟ نہیں نا ۔ یہ قیمت 8ماہ سے ہے پہلے بھی کوئی سستا نہیں تھا پھر بھی یہ دام نہیں تھے۔

جب داخلے کئے جارہے تھے تو ٹرانسپورٹ اخراجات کا حساب لگالیا جاتا۔ اب ایکاایکی ٹرانسپورٹ سہولت بند کرنے کا اعلان کردیا یہ کہہ کر کہ ڈیزل مہنگا ہے لیکن یہ نہ سوچا کہ ہزاروں سفید پوش خاندانوں کے بچے مادرعلمی کیسے پہنچ پائیں گے۔

ایک سادہ حل تھا طلباء کو اعتماد میں لے کر حل تلاش کیا جاتا مثلاً اگر ایک طالب علم پر 100روپے اضافی خرچہ آرہا تھا تو طلبا سے کہا جاتا یونیورسٹی کے مالی حالات اچھے نہیں دونوں (طلبا اور یونیورسٹی) مل کر بوجھ بٹانے کا راستہ اختیار کرتے ہیں50روپے طالب علم برداشت کریں اور پچاس روپے یونیورسٹی۔

دوسرا طریقہ صوبائی حکومت سے بات چیت کا تھا لیکن یہ تیسرا راستہ دھونس، دھمکی، تشدد، پولیس بلواکر طلباء پر لاٹھی چارج اور فائرنگ اس راستے پر چلنے کا مشورہ جس نے بھی دیا وہ یونیورسٹی انتظامیہ کا بہی خواہ نہیں تھا۔

گزشتہ روز یونیورسٹی کی حدود میں پولیس نے طلباء و طالبات کے ساتھ جو سلوک کیا وہ قابل مذمت ہے۔ پولیس تشدد آخری حل ہے نہ یہ مسئلہ کا عبوری حل۔ حل وہی ہے انتظامیہ اساتذہ اور طلباء ساتھ بیٹھیں مل کر حل تلاش کریں۔

پولیس تشدد کا شکار بچوں نے مجھے ویڈیوز کے ساتھ جو مختصر پیغام بھجے ہیں انہیں پڑھ کر دکھی ہوا ہوں۔ افسوس میں بچوں کے پیغامات یہاں نقل نہیں کرسکتا لیکن ایک سوال ضرور آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ وہ کون لوگ تھے جو پولیس تشدد کے وقت ننگی اور گندی گالیاں دیتے ہوئے طلبا کو سبق سیکھانے کی آوازیں بلند کررہے تھے؟

انتظامیہ اور سکیورٹی کے لوگ تھے تو ان کا نفسیاتی چیک اپ کروانے کی ضرورت ہے یہ کسی مذہب ماحول میں چپڑاسی کے عہدے کے اہل بھی نہیں۔

اساتذہ یقیناً نہیں ہوں گے کیونکہ استاد بنیادی طور پر حلیم طبع ہوتے ہیں۔ پھر کون تھے سفید کپڑوں میں سکیورٹی اہلکار، پولیس والے یا مخبر؟

جو بھی تھے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

ایک طالب علم نے اپنے میسج میں دریافت کیا ہے کہ ’’کیا بہاولپور مفتوحہ علاقہ اور ہم مفتوحین کی اولادیں ہیں کہ ہمارے ساتھ سری نگر کے شہریوں جیسا سلوک ہوا؟‘‘

طلبا اور والدین نے اس افسوسناک واقعہ کی جو ویڈیوز اور تصاویر بھجوائی ہیں اس سے ویسے یہی لگتا ہے کہ فاتحین کے وارث مفتوحین کی اولاد کو سبق پڑھابلکہ یاد کروارہے ہیں۔ مسائل ہوں گے یقیناً ہر ادارے کی طرح یونیورسٹی کے بھی لیکن مسائل کا حل یونیورسٹی انتظامیہ نے تلاش کرنا ہے۔

طلباء اگر احتجاج پر اترے تو یقیناً سیدھے سبھائو ان کی بات کسی نے نہیں سنی ہوگی۔ بہرحال اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں گزشتہ روز جو کچھ ہوا اس پر محض افسوس کافی نہیں اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

مناسب ہوگا کہ لاہور ہائیکورٹ بہاولپور بنچ کے جج صاحب سے جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔ انتظامیہ معاملے کو سنبھالنے اور سلجھانے کی کوشش کرے۔ بنیادی طور پر یہ اس کا فرض ہے۔ طلباء کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کیسے حل کرنے ہیں یہ انتظامیہ کو سوچنا چاہیے۔ ایک طریقہ وہی ہے جو بالائی سطور میں عرض کیا۔

دھونس جبر پولیس تشدد یہ سب غلط ہے۔ اس سے زیادہ غلط پولیس کا یونیورسٹی کی حدود میں بلایا جانا یہ فیصلہ جس کا بھی تھا اس نے یونیورسٹی کے لئے بڑی ’’نیک نامی‘‘ کمائی۔ اسے خصوصی ایوارڈ ملنا چاہیے۔

یہاں طلباء اور ان کے والدین کی خدمت میں بھی عرض ہے اتحاد اور اخلاق کی قوت سے یونیورسٹی انتظامیہ کو مجبور کیجئے کہ وہ مل بیٹھ کر مسئلہ کا حل تلاش کرے۔

ایک سوال مکرر عرض ہے طلباء کی زندگیوں اور مستقبل سے کھیلنے کی روش اپنانے کی ضورت نہیں یونیورسٹی میں دوچار نہیں درجنوں ایسے اساتذہ کرام موجود ہیں جن کی آواز پر طلباء و طالبات سر جھکاکر ان کی بات سنتے ہیں ان اساتذہ کو آگے کیجئے وہ طلباء سے بات کریں۔

یقیناً وہ صورتحال سے آگاہ ہوں گے اس لئے بہتر اور قابل عمل تجاویز دے سکتے ہیں۔

’’ہاتھ کنگن کو آرسی کیأ‘‘ بس سنجیدہ فہمی کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author