یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری پسند اور ناپسند بن چکی بہت سی چیزیں ہمیشہ سے ایسی تھیں۔ کہ ماضی میں چیزیں اگر ارتقا پاتے پاتے ہم تک پہنچ بھی گئیں تو اب مزید نہیں بدلیں گی یا مزید ارتقا نہیں کریں گی۔ جب سائنس دانوں نے پہلی بار مائیکروسکوپ سے سپرم کو دیکھا تو اُنھیں ایٹمی سائز کا ایک چھوٹا سا سُوٹ پہنے آدمی دکھائی دیا۔ پھر مرتے ہوئے آدمی کی روح کیمرے میں ’پکڑی‘ جانے کے دعوے بھی کیے گئے۔
انسان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ بدلتے اور ترقی کرتے رہتے ہیں۔ اگر تبدیلی کے لیے خود کو تیار رکھا جائے تو عمل کم تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ اسقاطِ حمل کے ساتھ براہِ راست زندگی کا تصور جُڑا ہوا ہے، جو اہل یورپ نے تو بدل لیا لیکن ہم شاید ابھی اِس پر سوچ بچار ہی نہیں پائے۔
آپ اپنی ماں کے پیٹ میں انسان کب بنے تھے؟ حمل ٹھہرتے ساتھ ہی؟ یا سپرم کی دوڑ اووری کی طرف شروع ہونے پر، یا اُس سے پہلے جب آپ کا سپرم باپ کی رگوں سے نکلا؟ کیا ماسٹربیشن یا احتلام میں بھی آپ ممکنہ بچوں کے پورے پورے لشکر اُجاڑ رہے ہوتے ہیں؟
یہ سوال پیچیدہ ہیں، کیونکہ ہم اِن کے متعلق سوچتے نہیں، اور اگر سوچ ہی لیں تو حفاظتی شامیانے پھٹنے لگتے ہیں۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ انسان کا وجود دماغ کے ساتھ مشروط ہے جو تین ماہ کے حمل میں بننا شروع ہوتا ہے۔ اب سائنس پر اپنی چولیات لاگو کرنے کی بجائے نفسیاتی پہلو پر غور کرنا چاہیے۔ اگر اِس کی خواہش ہو تو تین مختصر سی کہانیوں پر مشتمل If these wall could talk دیکھنے کی کوشش کریں۔ اِس میں جانم ڈَیمی مور (Demi Moore) بھی ہے۔ اگر یہ دیکھنے کے بعد بھی آپ کا دماغ اِس بارے میں سوچنے کے قابل نہیں ہوتا تو جان لیں کہ وہ بالکل نیا ہے اور ہمیشہ نیا رہے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر