یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر لوگوں کو کتابوں کی قیمتوں کے حوالے سے شکایت رہتی ہے۔ لیکن کتاب میلے ایسا موقع ہوتے ہیں جب آپ کو کافی بچت ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سفر اور دیگر اخراجات کے باوجود ایک ہی جگہ پر بہت سی کاپیاں بک سکتی ہیں۔
لیکن اکثر دوست تراجم کے حوالے سے راہنمائی مانگتے ہیں کہ خریدیں یا نہ خریدیں۔ میرے خیال میں چند قابل غور چیزیں یہ ہیں: جب بھی کوئی کتاب اُردو میں ترجمہ ہو تو اُس کا مواد پندرہ تا بیس فیصد بڑھ جاتا ہے۔ یعنی اگر انگلش میں دو سو صفحات ہیں تو اُردو میں تقریباً ڈھائی سو ہوں گے۔ لیکن بہت چھوٹی کتابوں کے معاملے میں کچھ ناقص پبلشرز ٹیکسٹ کو پھیلا بھی لیتے ہیں۔
لہٰذا کوئی بھی ترجمہ کی کتاب خریدتے وقت اصل کتاب کے صفحات امیزون پر دیکھ لینے چاہئیں۔ اس سے کچھ اندازہ ہو جائے گا کہ کچھ حذف تو نہیں۔ دوسری بات یہ کہ کتاب اور مترجم یا مصنف کے نام کی سرچ دے کر کوئی تبصرہ پڑھ لیا جائے۔ تیسری چیز پبلشر کی شہرت ہے۔ چوتھی چیز مترجم کے دیگر کام ہیں۔ اگر اس کے باوجود آپ سے دھوکا ہو جائے تو فون پر پبلشر کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔ لیکن اگر کتاب اچھی ثابت ہو تو پبلشر کی تعریف بھی کرنی چاہیے۔
یاد رہے کہ کتاب کی پروموشن سے اگر وہ زیادہ فروخت ہو گی تو اِس میں میرا کوئی ذاتی مالی فائدہ نہیں ہو گا۔ اور میں مالی معاملات کو کبھی سرِ عام زیرِ بحث نہیں لایا کرتا۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر